Search Bar

Kion Ghur Angan Ka Sukh Khoya Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Kion Ghur Angan Ka Sukh Khoya Teen Auratien Teen Kahaniyan



والد نے اپنے چھوٹے بھائی کو باپ کا پیار دیا مگر وہ آستین کا سانپ نکلے۔ جو محبت اور احترام کی آڑ میں والد صاحب کو ہمیشہ دھوکے میں رکھتے تھے۔ جن دنوں والد نے شہر میں اپنی شاندار کوٹھی تعمیر کرائی، چچا نے کاروبار کرنے کی فرمائش کردی۔ والد صاحب نے ان کے حصے کی جائداد ان کو دے دی۔ سمجهایا بھی کہ نصیر میاں تم نے کبھی کاروبار نہیں کیا لہذا سوچ سمجھ کر اس طرف قدم بڑھانا۔ آدهی اراضی فروخت کرو، ساری کو دائو پر في الحال مت لگانا ورنہ کل کلاں برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ چچا نے یقین دلایا کہ ایسا ہی کریں گے لیکن انہوں نے لالچ میں آکر ایک دوست کے اکسانے پر تمام اراضی فروخت کر دی اور اسی دوست کے ساته شراکت داری پر بزنس شروع کیا مگر یہ سچ ہے کہ کاروبار ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ والد کا اندیشہ درست نکلا، دو سال کے اندر اندر چچا کی ساری پونجی ڈوب گئی اور وہ گھاٹے کے اس سودے میں دیوالیہ ہو رہے۔ ان کے شاطر شراکت دار نے ان کو کنگال کر دیا۔ مالی طور پر بدحال نصير چچا کو ایک بار پھر والد صاحب نے گلے سے لگا لیا۔ گرچہ سوتیلے بھائی تھے مگر اسے بهائی کی طرح دل میں جگہ دی ہوئی تھی دوستوں سے کہہ سن کر نہ صرف ملازمت دلوا دی بلکہ کچھ مالی مدد بھی کرنے لگے۔ کہتے ہیں اچھی نیت والوں کو جھولی بهر مرادیں ملتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے والد صاحب کی نیت اچھی تھی، سو ان کے کاروبار نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔ انہوں نے زرعی اراضی کو بھی توجہ دی تو زمین سونا اگلنے لگی۔ جو کام کیا کامیابی ان کا مقدر بنتی گئی۔ والد کی دولت اور حیثیت کو دیکھ کر ہمارے چچا اور چچی حسد کا شکار ہو گئے۔ وہ اپنے محسن اور خیر خواه بهائی کے خلاف سرگرم ہوئے تو والد صاحب کو رنج پہنچا۔ سمجهانے کو بلایا تو چچا نے مزید جائداد کا مطالبہ کر دیا۔ جبکہ وہ قانون کی رو سے اپنا حصہ یعنی حق شرعی لے چکے تھے۔ یوں ایک روز بهائیوں میں تلخ کلامی ہو گئی اور والد صاحب نے بھائی سے قطع تعلق کر لیا۔ دراصل چچا کے حالات دگر گوں جبکہ ہمارے بہت پرسکون تھے۔ وہ ذاتی مکان فروخت کرنے کے بعد کرائے کے گھر میں رہ رہے تھے۔ ان دنوں میں خود کو خاندان کی سب سے خوش نصیب لڑکی سمجھتی تھی۔ گھر اور کالج میں ہر دلعزیز تھی کہ والدین کی اکلوتی اور کلاس میں فرسٹ پوزیشن لانے والی لڑکی تھی۔ میرا ایف اے کا آخری پرچہ تھا۔ تبھی والدین کے ساتھ نہ جا سکی۔ وہ قریبی شہر میں صبح نو بجے گئے تھے جو پون گھنٹے کے فاصلے پر واقع تھا۔ انہوں نے شام تک واپس لوٹ آنا تھا۔ شام ہو رہی تھی اور میرے کان گیٹ کی طرف لگے تھے۔ والدین کے لوٹ آنا کا انتظار کر رہی تھی کہ ایک گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ چونک گئی، کیونکہ یہ ہماری کار نہ تھی بلکہ کسی بهاری گاڑی کے پہیوں کی آواز تھی، تبھی بیل ہوئی۔ انا بی نے گیٹ کھولا۔ سامنے ایک دوسری گاڑی کھڑی تھی اور لوگ اکٹھے ہو رہے تھے، وہ میرے والدین کے جس خاکی کو لائے تھے جن کی کار کا ایکسیڈنٹ ملتان سے مظفر آباد جاتے ہوئے رستے میں ہو گیا تھا۔ اس غیر متوقع حادثے کی وجہ سے میرے ہوش و حواس جاتے رہے۔ جب ہوش آیا وہ منوں مٹی تلے دفنائے جا چکے تھے اور گھر میں کچھ رشتہ دار جمع تھے جن میں میرے چچا نصیر اور ان کے بیوی بچے بھی شامل تھے۔ تین دن بعد سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن چچا اور چچی نہ گئے۔ رشتہ داروں سے کہا کہ ہماری بچی اکیلی رہ گئی ہے، اس کے پاس اب ہم ہی کو رہنا ہے۔ وہ مجھ سے بہت شفقت سے پیش آرہے تھے اور ہر طرح سے میرا خیال رکھ رہے تھے۔ چچا دلجوئی کرتے نہ تھکتے اور چچی صدقے واری ہو رہی تھیں، ان کی بیٹی مدیحہ نے مجھے اپنی بانہوں میں لے رکھا تھا۔ وہ تسلیاں دیتی کہ ناہید تم میری بہن ہو اور میں تمہاری دوست بھی ہوں، تمہارا غم میرا غم ہے۔ شروع میں تو اس فیملی نے ایسا پیار دیا کہ شکر کرنے لگی، یہ اپنے موجود ہیں ورنہ مجھ اکیلی کو ماں باپ کی وفات کا غم پهاڑ کھاتا۔ رفتہ رفتہ گھر کی فضا بدلنے لگی، محسوس ہونے لگا کہ یہ لوگ اوپر سے افسردہ ہیں مگر دل ہی دل میں میرے والدین کی وفات سے خوش ہیں۔ مجھ سے ہمدردی کرتے، افسرده نظر آتے، مگر اپنے کمروں میں جاتے ہی ہنسی مذاق اور ٹھٹھے شروع کر دیتے تھے۔ میں اب ان کی اداکاری کو خوب سمجهنے لگی تھی۔ ایک ماہ بعد ہی چچا نے کرایے کا مکان واپس کر دیا اور اپنا تمام سامان ہماری کوٹھی میں لا کر جما دیا۔ وہ اپنے بچوں سمیت مستقل میرے ساتھ رہنے لگے کیونکہ میں اکیلی تھی۔ چچا کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ مدیحہ اور فرحان نے صرف میٹرک کیا اور پڑھائی چھوڑ دی تھی جبکہ نعمان نویں میں تھا۔ مدیحہ کی عادات رفتہ رفتہ عیاں ہونے لگیں، مجھ کو ذہنی طور پر مضطرب کرنے لگیں۔ وہ بہت خود پسند اور خود سر لڑکی تھی۔ ماں باپ کو نہ گردانتی تھی۔ سارا دن سہیلیوں کے ہاں جانے کا بہانہ کر کے گھر سے غائب ہو جاتی۔ چچا بھی اسے کچھ نہ کہتے۔ مجھ کو کبھی مدیحہ کا فیشن اور طور اطوار اچھے نہیں لگے۔ اسے سمجھاتی اور پڑھائی کی طرف توجہ دلاتی مگر وہ برا مناتی۔ کہتی تم بس اپنے کام سے کام رکھو اور مجھ کو میرے حال پر رہنے دو۔ وہ مجھ سے دو سال عمر میں بڑی تھی لہذا میں زیادہ کچھ نہ کہہ پاتی اور خاموش ہو جاتی۔ مدیحہ جب چاہتی، مجھ سے بدتمیزی کرتی، اس کی بدتمیزی کو سہہ جانے کے سوا میرے پاس دوسری راہ بھی نہ تھی۔ اب تو ان لوگوں کے رحم و کرم پر تھی۔ کیونکہ یہ میرے والد کے سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار تھے۔ کبھی میں نے گھر کا کام نہ کیا تھا، اب چچی مجھے کام کرنے پر مجبور کرتیں۔ اگر صحیح کام نہ ہو پاتا تو ترش لہجہ میں سرزنش شروع کر دیتیں۔ ایک دن چچا نے کہا۔ اب تم پڑهائی ترک کر دو اور گھر کو سنبهالو کیونکہ یہ گهر تمہارا ہے۔ مدیحہ تو یہاں مہمان ہے۔ بیاہ کر اگلے گھر چلی جائے گی مگر تم تو ہمیشہ یہاں ہی رہو گی۔ اس پر میں ان کا منہ تکنے لگی تب چچی نے وضاحت کی ہم تمہاری شادی اپنے بیٹے نعمان سے کریں گے تاکہ تم ہمیشہ اپنی کوٹھی میں ہی رہو۔ مگر مجھے تو ابھی پڑهنا ہے۔ ابو وکیل تھے۔ میں بھی وکیل بننا چاہتی ہوں۔ یہ میرے والد کا خواب تھا۔ ان کا خواب ان کے ساتھ چلا گیا۔ تم نے اب اس گهر کو بسانا ہے، ہمارا بیٹا برا نہیں ہے۔ تم اس کے ساتھ اچھی زندگی گزارو گیا اور یہ گھر بھی کسی اور کی ملکیت میں نہ جائے گا۔ میں ان کی باتیں سن کر افسردہ ہو گئی۔ یہ لوگ مجھے پڑھنے سے روک رہے تھے۔ نجانے کیسے منصوبے بنا لئے تھے انہوں نے میری زندگی کے بارے میں۔ جب میں نے کہہ دیا کہ مجھے نعمان سے شادی نہیں کرنی، اس پر چچی میرے سخت خلاف ہو گئیں۔ اگر میرے بیٹے سے شادی نہ کرو گی تو پھر اس گھر میں بھی نہ رہ سکو گی۔ اس گھر میں میرے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ چاہے گهنٹوں نیر بہاتی، اک آنابی کے سوا جو میری پیدائش کے بعد سے ہمارے پاس رہتی تھیں اور بہت پرانی ملازمہ تھیں۔ ایک وہ ہی میرے دکھ کو سمجھتی تھیں اور مجھ کو تسلی دیا کرتی تھیں۔ سمجھاتی تھیں کہ بی بی ناہید تم کو سمجهداری سے کام لینا ہوگا۔ اگر تم نے ان کا کہا نہ مانا تو مارنے سے بھی گریز نہ کریں گے۔

جب چچا اور چچی کا رویہ کالج جانے پر مجھ سے سخت ہو گیا تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ یہاں سے بے شک نکلنا پڑے مگر پڑهائی ضرور مکمل کروں گی۔ نعمان کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے والدین میری اس کے ساتھ شادی کی ٹھان چکے ہیں تو اس کی نگاہیں مجھ پر مرکوز رہنے لگیں۔ جب تنہا ہوتی وہ آ جاتا، اوٹ پٹانگ مذاق اور اوچھی حرکتیں... مستقبل کا ساتهی کہہ کر دست درازی کی کوشش کرتا۔ میں بہت خوف زدہ رہنے لگی تھی۔ انا بی بی کو بتایا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ میں اپنی خالہ کے پاس چلی جائوں جو پشاور میں رہتی ہیں۔ پشاور بہت دور تھا اور میرا وہاں اکیلے جانا آسان نہ تھا۔ ایک کلاس فیلو میرے حالات جانتی تھی۔ اس سے مشورہ کیا۔ وہ بولی تم کچھ دنوں کے لئے میرے پاس آ جائو، پهر سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ میں نے صرف انا بی کو بتایا کہ میں نازیہ کے گھر جارہی ہوں۔ میں اس طرح اپنا گھر چھوڑ کر کبھی نہ جاتی لیکن چچا نے میرے نکاح کا بندوبست زبردستی اپنے بیٹے کے ساتھ کر لیا، تبھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھایا تھا۔ نعمان نکما ہی نہیں بد اعمال بھی تھا۔ لڑکیوں کے چکر اس کے الگ۔ وہ مئے نوشی بھی کرتا تھا۔ ایک دو بار اسی حالت میں میرے کمرے میں گھس آیا تو مجھے اپنی عزت بچانی مشکل ہو گئی تھی۔ میں نازیہ کے گھر رہنے لگی مگر مجھے اپنی کفالت تو خود کرنی تھی۔ اپنے طور پر ملازمت کی تلاش کرنے لگی۔ چچا اور ان کے سپوت میری تلاش میں تھے مگر میں نے اپنا ٹھکانہ کسی کو نہیں بتایا تھا۔ صرف انا بی سے رابطہ تھا وہ بھی ان کی بہن کے ذریعے۔ ایک سال نازیہ کے والدین کی شفقت کی وجہ سے ان کے گھر رہی اور اس دوران زندگی کے وہ تجربے ملے جن سے شاید میں بڑھاپے تک ناواقف رہتی۔ برا وقت خدا کسی پر نہ لائے۔ بے وقوف بھی عقل مند ہو جاتے ہیں کیونکہ زمانے کی ٹھوکریں بہت سخت ہوتی ہیں۔ جب یہ ٹھوکریں لگتی ہیں انسان خود بخود سمجھدار ہو جاتا ہے۔ ایک اسکول میں پڑھانے لگی۔ یہاں پڑهاتے ہوئے ایک ماہ بھی نہ ہوا تھا کہ ایک روز اسکول سے نکلتے مجھ کو میرے کزن نے دیکھ لیا۔ اگلے روز چچا وہاں مجھے لینے آگئے۔ گھر تو آگئی مگر مجھ پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ چچا میری شادی زبردستی نعمان سے کرنے پر تلے تھے۔ میں نے خودکشی کی کوشش کی مگر زندگی نہ ٹلی۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ مر جائوں گی مگر نعمان سے شادی نہ کروں گی، مگر اس ضد کی مجھ کو بھاری قیمت اٹھانی پڑی۔ جب گھر والوں نے خود مجھ کو ہر جگہ بدنام کرنا شروع کر دیا۔ جہاں گئی نفرت بھرا برتائو ملا۔ امی ابو کے عزیزوں نے مجھے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا کہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی مشہور ہو گئی تھی۔ گرچہ میں کسی کے ساتھ نہ بھاگی تھی مگر لوگوں کی سوچ کو کون گرفت کر سکتا ہے۔ انا بی بیچاری اپنا ٹھکانہ بچانے کو چپ تھیں۔ یوں بھی ان کی کون سنتا۔ وہ اگر میری حمایت میں بولتیں خوار ہوتیں، اپنے سر کی چھت کھو دیتیں اور میں ایک غمگسار کو کھو بیٹھتی۔ جب صورتحال ایسی ہو تو کوئی بے سہارا اور تنہا لڑکی کب تک اور کہاں پناہ پائے گی، میں تو جائداد والی تھی۔ ایک دن ڈاکٹر کو دکھانے کا بہانہ بنا کر انا بی کے ساتھ ہیڈمسٹریس کے گهر گئی۔ انہوں نے سمجھایا کہ اب نوکری کی بات نہ کرو بلکہ جیسے تمہارے چچا اور چچی کہتے ہیں ان کی مان لو۔ اسی میں مجھ کو تمہاری بہتری نظر آتی ہے، کیونکہ تمہارا کزن نعمان لاکھ برا سہی، اس سے نکاح کر کے غیروں کے ہاتھوں لٹنے سے بچ جائو گی۔ جائداد بھی تمہاری تم کو ہی ملا جائے گی۔ ورنہ وہ تمہاری جائداد بھی ہتھیا لیں گے اور تم در در کی ٹھوکریں کھا کر ذلیل و خوار بھی ہوتی رہو گی۔ غرض انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور چچا چچی کو سمجھانے آگئیں کہ اس کو ضرور بہو بنا لو مگر اس کا خیال بھی کرو. پڑھنا چاہتی ہے تو پرائیویٹ طالبہ کے طور پر پڑهنے دیں۔ غرض ہیڈ مسٹریس کی کوشش سے مجھے چچا کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ گرچہ دل پر پتھر رکھ کر نعمان کو قبول کیا، تاہم شادی کے بعد چچا اور چچی کا رویہ مجھ سے محبت بھرا ہو گیا۔ نعمان مجھے بالکل پسند نہ تھا مگر تقدیر میں وہی تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ وہ جیسا بھی تھا ایک کھلی کتاب کی مانند تھا۔ اور اس کے سب عیب و ثواب میں جانتی تھی۔ مجھ کو اس سے محبت نہ تھی، پھر بھی اس کو میرے اور اپنے بیچ رشتے کا لحاظ ضرور تھا۔ اس نے زندگی کے کسی موڑ پر مجھے چھوڑنے کا نہ سوچا اور نہ مجھے دھوکا دیا۔ ہاں شادی کے بعد اپنی فطرت کے مطابق اس نے اپنی ہوشیاریاں ضرور جاری رکھیں مگر مجھے خرچ وغیرہ سے کوئی تکلیف نہ دی۔ چچا اور چچی نے میرا ساتھ دیا۔ ملیحہ کی شادی ہو گئی۔ وہ بیاہ کر بیرون ملک چلی گئی۔ چھوٹا دیور بھی بعد میں اعلی تعلیم کے لئے اپنی بہن کے پاس چلا گیا۔ چچا چچی بوڑھے ہو کر میری توجہ کے محتاج ہو گئے اور میں اپنے بچوں کے گلشن میں کھو کر ساری تلخیاں بھلا بیٹھی۔ میں اب پھر سے اپنے والد کی جائداد کی مالک اور اپنے گھر کی وارث تھی۔ مجھے اس حق سے کون محروم کر سکتا تھا۔ اب زندگی سے کوئی گلہ نہیں، سوائے اس کے کہ اگر چچا اور چچی مجھ کو یرغمال نہ بناتے تو آج میں وکیل یا بیرسٹر ہوتی جو میری شدید آرزو تھی۔ تاہم میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا وكيل بن گئے۔ دل کو قرار آگیا کہ وہ اپنے نانا کے دفتر اور ان کی قانون کی کتابوں کے وارث ہوگئے۔ جب بچے اپنی منزلوں کو پہنچ جاتے ہیں تو مائوں کے دلوں کو بھی قرار آجاتا ہے اور ان کے دکھ خوشیوں میں بدل جاتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments