Search Bar

Sooti Jagti Guriya Ki Khatir | Teen Ortain Teen Khaniyan

 

 

میرانام گل مہر ہے۔ میرا تعلق سرحد کے ایک خوشحال گھرانے سے ہے ۔ میں بڑی منتوں اور مرادوں سے پیدا ہوئی تھی کیونکہ میں اپنے والدین کی شادی کے دس سال بعد اس دنیا میں آئی تھی۔ رہی بھی اکلوتی اور لاڈلی بھی بہت تھی۔ میرے والدین بھی ایک پل کے لیے مجھے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔ ایسے جیسے میرے جسم میں ان کی جان ہو۔ میری سانسوں کے ساتھ ان کی زندگی کارشتہ بندھا ہوا تھا۔ اولاد تو سب ہی کو پیاری ہوتی ہے لیکن

جیسی میں پیاری تھی ویسی شاید ہی کوئی بیٹی ہو۔

ان دنوں میں سات سال کی ہوں گی۔ ہمارے پڑوس میں ایک مکان خالی ہوا اور اس میں ایک عورت آکر رہنے لگی۔ اس عورت کی عمر ساٹھ برس تھی۔ وہ بیوہ تھی اور اس کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ تنہائی سے گھبراکر اکثر وہ ہمارے گھر آنے لگی اور میری ماں کی منہ بولی بہن کہلانے لگی۔ جب وہ ہمارے گھر آتی تو مجھے عجیب نظروں سے گھورا کرتی، میں خائف ہو جاتی۔ پھر جب وہ مجھے میری ماں کے سامنے بلاتی۔ تب امی مجھے ڈانٹتی۔ بیٹا! تم خالہ کے بلانے پر ان کے پاس کیوں نہیں جاتیں، وہ بیچاری تمہیں اتنی محبت سے بلاتی ہے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس کا دل پیاسا ہے۔ ایسی عورتوں کا دل نہیں دکھاتے۔ وہ جب بھی بلایا کرے ضرور جایا کرو، کام کے لیے کہے، کر دیا کرو۔ ماں کے بار بار

اس طرح کہنے سے مجھے مجبورا اس کے پاس جانا پڑتا تھا۔ مگر جلد ہی گھر بھاگ کر واپس آجایا کرتی تھی۔ ایک سال اس عورت کو ہمارے پڑوس میں رہتے ہوئے گزر گیا۔ میں آٹھ ، نو سال کی ہو گئی۔ اب میں پہلے سے زیادہ سمجھدار ہوگئی تھی۔ ایک دن میں باہر گلی میں کھیل رہی تھی کہ اس عورت نے مجھے اپنے پاس بہلانے سے بلایا اور کہنے لگی۔ چنو! میرے ساتھ ذرا بازار چلی چل، مجھے سبزی ترکاری لینی ہے۔ تو یہ ٹوکری اٹھا لینا۔ میں جبھی تو بولی۔ میں نے تیری ماں سے پوچھ لیا ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ تم اکیلی بازار کیوں جاتی ہو، میری چنو کو ساتھ لے جانا۔ ادھر میلہ بھی لگا ہے، تو جو کہے گی میں میلے سے لے دوں گی۔ میں نے معصومیت سے پوچھا۔ خالہ کیا وہاں سوتی جاگتی گڑیا بھی مل جائے گی۔ کہنے لگی ہاں ، مل جائے گی۔ تجھ کو لینی ہے کیا؟ میں نے اشتیاق سے کہا۔ ہاں خالہ، مگر ٹھہر و، میں اپنی امی سے پیسے لاتی ہوں، مگر خالہ نے میرا بازو پکڑ لیا۔ ساتھ لیا اور کہنے لگی۔ نہیں چنو مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اب تو چل،

پیسے میں بعد میں تیری امی سے لے لوں گی۔ یوں اس روز میں گڑیا کے شوق میں خالہ کے ہمراہ چلی گئی۔ یہ صبح گیارہ بجے کا وقت ہو گا۔ ابا کام پر جاچکے تھے۔ ماں گھر کے کام میں لگی تھی۔ اس وقت گلی میں اور کوئی ایسا نظر نہیں آرہا تھا جو مجھے خالہ کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھ لے۔ خالہ نے بھی الٹار استہ لیا۔ سڑک سے جانے کے بجائے وہ گلیوں میں سے نکلتی چلی گئی۔ کافی چلنے کے بعد ایک جگہ ٹھہر گئی تو میں نے اس سے پوچھا۔ خالہ ابھی کتنی دور چلنا ہے۔ میرے تو پاؤں دکھنے لگے ہیں۔ تو وہ بولی۔ لڑکی تجھے زیادہ چلنے کی عادت جو نہیں ہے۔ بہت نازوں سے پلی ہے ناتو، اس لیے تھک گئی ہو گی۔ بازار تو ابھی دور ہے لیکن ہاں میلہ وہ سامنے والے چوک میں لگا ہے۔ پہلے بازار چلے گی یا میلے میں۔ میں نے جھٹ سے کہا۔ خالہ میلے میں۔ اس نے کہا۔ اچھا! وہ سامنے میر ابھائی آتا نظر آرہا ہے۔ اس سے کہتے ہیں۔ اتنے میں وہ شخص جو شاید خالہ کا پہلے ہی سے منتظر کھڑا تھا، خالہ کو دیکھتے ہی قریب آگیا۔ خالہ نے کہا۔ بھیا یہ بچی میری پڑوسن کی ہے اس کو سوتی جاگتی گڑیا چاہیے ، تو ذر اوہ سامنے چوک میں جو میلہ لگا ہے ، وہاں سے اس کو گڑیا خرید دے تب تک میں بازار سے سبزی لے آؤں۔ گڑیا خرید کر بچی کو یہیں لے آنا، میں اس کے ساتھ لے کر گھر چلی جاؤں گی ۔ یہ کہتے ہوئے خالہ نے اپنے دوپٹے سے پلو سے پانچ روپے کا نوٹ کھول کر اس آدمی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور میں نادان گڑیا کے خواب میں ایسے اس شخص کے ہمراہ چل دی جیسے مجھے پر کسی نے سحر پھونک دیا ہو۔ سامنے چوک میں کوئی میلہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ پھر بھی میں چپ چاپ اس آدمی کے ساتھ چلی گئی جس کو خالہ نے اپنا بھائی بتایا تھا۔

وہ شخص مجھے سیدھا اسٹیشن لے آیا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اسٹیشن نہیں دیکھا تھا۔ وہ آدمی کہنے لگا۔ یہاں میلہ لگا ہے۔ اس نے اسٹال سے مجھے ایک گڑیالے دی۔ پھر بولا۔ ریل گاڑی پر بیٹھے گی، شہر کی سیر کرے گی۔ گڑیا کو کلیجے سے لگائے میں خوشی میں ایسی مسحور ہو چکی تھی کہ میں نے گردن ہلا دی۔ ریل گاڑی جانے کو تیار کھڑی تھی۔ میں نے اس کو سیٹیاں بجاتے سنا۔ شور اور رش ایسا تھا کہ میری کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کہاں جارہی ہوں۔ وہ آدمی مجھے ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں بیٹھ گیا اور گاڑی چل دی۔ دو گھنٹے تو میں چپ چاپ بیٹھی ریل گاڑی سے سارا منظر دیکھتی رہی۔ آج ایسے نئے نئے مناظر دیکھنے کو ملے تھے کہ چند گھڑیوں کو میں گھر اور گھر والوں کو بھلا بیٹھی۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ خالہ سبزی لے کر بازار سے واپس آچکی ہو گی اور اب میرا انتظار کر رہی ہو گی۔

اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ میں کہیں لے جائی جارہی ہوں اور یہ آدمی مجھے خالہ اور گھر والوں سے دور لے جارہا ہے۔ تبھی میں نے رونا شروع کر دیا۔ اس پر اس شخص نے مجھے کھانے کے لیے لڈو یا اور بولا۔ چپ ہو جاؤ چنو، ابھی ریل گاڑی رک جائے تو گھر آجائے گا۔ لڈو کھالو، اگر تم روؤ گی تو پولیس والے آکر تم کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ اس نے مجھے پولیس سے ڈرایا تو میں چپ ہو گئی اور لڈو کھانے لگی۔ لڈو میں نجانے کیا تھا کہ اس کو کھاتے ہی میں سو گئی۔ نجانے کب تک یہ سفر جاری رہا۔ جب میں دوسرے روز جاگی تو ہم ایک اسٹیشن پر اتر چکے تھے اور لوگ کہہ رہے تھے یہ حیدر آباد ہے۔ وہ آدمی مجھے ایک ٹیکسی میں بٹھا کر کسی جگہ لے جانے لگا تو میں رونے لگی۔ اس بار میں نے بہت زور شور سے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس کے باوجود کہ میں ایک نا سمجھ بچی تھی۔ پھر بھی مجھے یاد ہے کہ میں نے ماں باپ سے جدائی اور کسی انجانے خطرے کا احساس کر لیا تھا۔ میرے اجنبی مہربان نے مجھ کو سمجھانے اور چپ کرانے کی کوشش کی اور ایسے کلمات کہنے لگا جیسے وہ میرا رشتہ دار ہو اور مجھے میرے گھر لے جارہا ہو۔ وہ میری ماں اور گھیر والوں کا ذکر کرنے لگا۔ مگر میں نے ایک نہ سنی اور اس قدر چین چلانا شروع کر دیا کہ بات اس کے قابو سے باہر ہو گئی۔ اب ٹیکسی والے کو کچھ شک گزرا، وہ پوچھنے لگا یہ لڑکی کون ہے؟ یہ تو ایسے رور ہی ہے جیسے تم اس کو زبر دستی کہیں اٹھا کر لے جا رہے ہو۔ پھر اس ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا۔ بیٹی ! یہ آدمی کیا تمہارا چچا ہے ؟ کون ہے یہ۔ میں نے کہا چچا نہیں ہے، کوئی نہیں ہے ، مجھے گھر لے چلو، گھر جانا ہے مجھے۔ روتے روتے میں نے یہ جواب دیا اور پھر رونا شروع کر دیا۔ اب اس ٹیکسی والے کو یقین ہو گیا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ اس نے ٹیکسی کا رخ کسی اور جانب موڑا تو خالہ کا نام نہاد بھائی سخت گھبرا گیا اور جو نہی ایک جگہ کسی رکاوٹ کے باعث ٹیکسی کی رفتار مدھم پڑی تو وہ ٹیکسی کا دروازہ کھول کر نکل بھاگا۔ ڈرائیور نے ٹیکسی ایک جانب روک کر اس کا تعاقب کرنے کی کوشش کی مگر درمیان میں ٹریفک سگنل حائل ہو گیا اور وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں ابھی تک ٹیکسی میں بیٹھی رہی تھی۔ غالباً میر اخیال کر کے ٹیکسی ڈرائیور فوراً ہی واپس لوٹ آیا۔ پھر وہ مجھے تھانے لے آیا۔ پولیس والوں کو دیکھ کر میں بہت ڈرتی تھی۔ اب بھی جب میں نے پولیس والوں کو دیکھا تو ڈر سے کانپنے لگی۔ دراصل ایک بار ہمارے محلے میں ایک شخص پکڑا گیا تھا۔ وہ بھاگ رہا تھا، لوگ اس کو چور چور کہہ رہے تھے۔ پھر ایک پولیس والے نے اس کو پکڑ لیا تھا اور اس کو مارتا ہوا لے جارہا تھا۔ ان دنوں میری عمر چار پانچ سال تھی اور میں نے یہ نظارہ ایسا دیکھا تھا کہ ذہن سے نہ بھلا سکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اس کے بعد کوئی پولیس والا دیکھا میں ڈر سے کانپنے لگتی تھی۔ میری ماں کو بھی جب کبھی مجھے ڈرانا ہوتاوہ مجھے یہ کہتی تھی کہ دیکھ وہ آرہا ہے پولیس والا تجھ کو

پکڑنے نہیں اس بات پر میں چار پائی کے نیچے جا کر چھپ جاتی تھی۔ پولیس اسٹیشن پر تو بہت سے پولیس والے تھے۔ سب ہی پولیس والے وردیاں پہنے ہوئے تھے اور ڈر سے میرا احلق خشک ہورہا تھا۔ میں پہلے ہی غیر معمولی اور بے آرامی کے حالات سے گزر کر آرہی تھی۔ اوپر سے جو پولیس والوں کی شکلیں دیکھیں تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات پوچھ رہے تھے۔ بی بی تم کہاں رہتی ہو ؟ تمہارے شہر کا کیا نام ہے ؟ تمہارے باپ کا کیا نام ہے ؟ تمہارا نام کیا ہے لڑکی ؟ تمہارا باپ کیا کرتا ہے؟ اتنے سارے سوالات میں سے میں ایک کا بھی جواب نہ دے سکی۔ جیسے کہ میرے قوت گویائی سلب ہو چکی ہو۔ بس میں ٹیکسی ڈرائیور کی ٹانگوں سے لپٹی کھڑی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور گھٹی گھٹی سسکیاں منہ سے نکل رہی

پولیس والوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کچھ پوچھ گچھ کی۔ وہ بال بچے دار آدمی تھا۔ غالباً انہوں نے اس کو کہا کہ جب تک لڑکی کے وارثوں کا پتا نہیں چلتا، تم اس کو اپنے گھر رکھو۔ اس طرح میں سوتی جاگتی گڑیا کی آرزو کا دامن تھامے چو ہیں

گھنٹے کے اند اندر اپنے ماں باپ کے محبت بھرے گہوارے سے ایک اجنبی ٹیکسی ڈرائیور کے گھر آگئی۔ ٹیکسی ڈرائیور کی بیوی ایک اچھی عورت تھی۔ اس کے چار بچے تھے۔ پانچویں میں مل گئی۔ اس نے مجھے بہت پیار اور آرام دیا۔ میں اس سے مانوس ہو گئی پھر بھی میں روز پوچھتی تھی میں کب گھر جاؤں گی، مجھے میرے گھر پہنچاد و نا۔ وہ بیچارہ ٹیکسی ڈرائیور بھی بہت دنوں تک اس تھانے کے چکر لگاتار ہامگر پولیس والے شاید میرے والدین سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہے کیونکہ میں صرف اتناہی بتا سکتی تھی کہ میں پشاور میں رہتی ہوں، کہاں رہتی ہوں اور میرے والد کا کیا نام ہے ، یہ میں نہ بتا پائی۔ بھلا پھر وہ لوگ مجھے کیسے میرے گھر تک پہنچاتے۔ وہ تو خود بہت غریب تھے ، میرے ماں باپ کو تلاش کرنے پر جس قدر خرچہ آتا تھا وہ کہاں سے لاتے۔ پھر رفتہ رفتہ میں اسی گھر کی ایک فرد بن گئی۔ میں نے اسی کو اپنا گھر سمجھ لیا۔ ان لوگوں نے بھی دو چار ماہ کے بعد میرے والدین کی تلاش کا تر د چھوڑ دیا۔ ایک بار وہ ٹیکسی ڈرائیور اخبار کے دفتر بھی گیا تھا مگر مجھے معلوم نہیں کہ میرا کوئی اعلان چھپا بھی کہ نہیں اور اس کی شنوائی بھی ہوئی یا نہیں۔

ٹیکسی ڈارئیور کا نام علی بخش تھا۔ یہ سندھی تھا۔ نہایت اچھا اور مہربان انسان تھا۔ اس نے مجھے اپنی اولاد کی طرح اپنے گھر میں رکھا۔ جب میں سولہ سال کی ہوئی تو اس نے میری شادی اپنی بیوی کے بھائی سے کر دی۔ میرا شوہر مجھ سے تیس سال بڑا تھا۔ اس کی عمر تقریباً پینتالیس سال تھی۔ اس کی پہلی بیوی مر چکی تھی اور چار چھوٹے بچے اپنے بعد چھوڑ گئی تھی۔ مجھے ان بچوں کی پرورش کرنی تھی۔ شاید اللہ تعالیٰ نے انہیں کی خاطر مجھے اس منزل تک پہنچا دیا تھا۔ اس شادی پر میں خوش تو نہ تھی مگر مجبور تھی۔ میں نے ان بچوں کی پرورش میں دل لگالیا۔ پھر اللہ تعالی نے مجھے اپنی اولاد بھی دے دی۔ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ شادی کے بارہ سال آرام سے گزرے۔ اس کے بعد شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اب میں سات بچوں کے درمیان زندہ ہوں۔ اپنے شوہر کی اولاد کے لیے زندہ رہنا ہے۔ مرنے کی خواہش کرنے کا کیا فائدہ کیونکہ خواہش کرنے سے تو موت نہیں ملتی پھر کیوں نہ انسان حوصلہ سے زندہ رہے۔ اتنے سال بیت گئے گھر سے جدا ہوئے۔ آج بھی گھر والوں کی یاد ستاتی ہے تو اس خالہ کو کوستی ہوں جو میرے زندگی میں ڈائن بن کر داخل ہوئی، جس نے میرے ماں باپ کی خوشیاں اجاڑ ڈالیں اور اس لمحے میں مجھے دھکیل دیا کہ جس نے مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے اپنوں سے دور کر دیا۔ اللہ اسی ڈائنوں سے ہر کسی کے بچوں کو محفوظ رکھے۔(آمین ثم آمین)

 

Post a Comment

0 Comments