Search Bar

Woh Din Bhoolta Nahi Teen Auratien Teen Kahaniyan

Woh Din Bhoolta Nahi  Teen Auratien Teen Kahaniyan

 


وہ دن، وہ وقت مجھے اب تک یاد ہے جب ایک روز میرا سوتیلا بھائی آیا اور مجھ سے پوچھا۔ کیا تم محب خان کی بیٹی ہو؟ ہاں۔ میں نے جواب دیا۔ اور تم کون ہو؟ میں تمہارا بھائی ہوں۔ اپنی ماں کو بلاؤ. ماں کچن میں تھیں۔ امی بھائی آیا ہے اور آپ کا پوچھ رہا ہے۔ انہوں نے کچن کی کھڑکی سے صحن میں دیکھا اور کہا۔ اچها جو بھی ہے، تم اس کو منہ مت لگاؤ. جاؤ تم چھوٹی بہن کا منہ دھلاؤ، میں دیکھتی ہوں اسے۔ میں کمرے میں گئی جہاں میری ڈیڑھ سالہ بہن قالین پر بیٹھی کھیل رہی تھی۔ اس کو لے کر واش روم چلی گئی۔ اتنے میں گولی چلنے کی آواز آئی۔ بھاگ کر باہر آئی تو امی کو صحن میں پڑی چارپائی پر گرا ہوا پایا۔ ہمارا سوتیلا بھائی ان کو گولی مار کر چلا گیا تھا۔ امی اسی وقت اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میں رونے لگی۔ تبھی ساتھ والے لوگ آگئے۔ ابو گاؤں گئے ہوئے تھے۔ کسی پڑوسی نے ان کو فون کیا۔ تب تک پولیس آچکی تھی۔ خالہ کو بھی اطلاع ہوگئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ آگئیں۔ امی کے جسد خاکی کو پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئے۔ ہم کو والد نے خالہ کے سپرد کردیا، وہ اپنے گھر لے آئیں۔ تبھی میں نے کسی عورت کو یہ کہتے سنا کہ جان بوجھ کر کسی کا گھر خراب کرنا اچھی بات نہیں مگر شیزا اور نویرہ نے شاید اس نکتے کو نہ سمجھا اور دونوں بہنوں نے ایسا جذباتی فیصلہ کرلیا کہ سوکنوں پر جا پڑیں۔ تب مجھے علم ہوا کہ امی اور خالہ نے اپنی والدہ کی مرضی کے خلاف پسند کی شادیاں کی تھیں۔ ایسے حضرات سے جو عمر میں ان سے کافی بڑے اور شادی شدہ تھے۔ امی اور خالہ دو ہی بہنیں تھیں۔ دونوں خوبصورت تھیں۔ والد کے حیات نہ ہونے کے سبب بے خوف اور کچھ آزاد خیال ہوچکی تھیں۔ نامساعد حالات تھے۔ میڑک کے بعد آگے نہ پڑھ سکیں تو سلائی کڑھائی کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران ان کی ملاقات ایک دولت مند شخص سے ہوگئی۔ انہوں نے سلائی سینٹر سے گھر آتے ہوئے ایک روز اس شخص سے کار میں لفٹ لی تھی۔ اس شخص کا نام محب خان تھا۔ محب خان نے بڑی والی لڑکی کو پسند کرلیا۔ ایک روز شیزا اور نویده اس زمیندار کو اپنی ماں سے ملوانے گھر لے آئیں۔ تب محب خان نے بیوہ خاتون سے اپنا مدعا بیان کردیا کہ میں آپ کی بیٹی شیزا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ چونکہ عمر میں وہ شیزا سے کافی بڑا تها لهذا خاتون نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ آپ شادی شدہ اور بال بچے دار ہیں۔ میں سوتن پر اپنی لڑکی نہیں دے سکتی۔ ماں کے انکار پر شیزا نے بیوہ ماں کی دوراندیشی کو نظرانداز کرکے محب خان کے ساتھ شادی کرلی۔ اس شادی کو محب خان نے اپنے گھر والوں سے خفیہ رکھا۔ بڑی نے تو اپنی مرضی کرلی۔ آب بیوہ ماں کو اپنی چھوٹی بیٹی کی فکر ستانے لگی جو زیادہ خوبصورت اور طرار تھی، اس نے بھی اپنا جیون ساتھی ڈھونڈ لیا۔ یہ شخص محب خان کا دوست شبیر احمد تھا۔ وہ بھی دولت مند زمیندار تھا۔ نويره اور شیزا جانتی تھیں کہ ان کی ماں اس رشتے کو بھی عمروں کے فرق کی وجہ سے ٹھکرا دے گی جبکہ دونوں کو ہی ایک آرام دہ زندگی گزارنے کی چاہ تھی اور ایک ایسا شوہر جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو۔ سو میری والدہ نے چھوٹی بہن کی حمایت کی اور سرپرست بن کر ان کا ساتھ دیا۔ یوں ماں کو بتائے بغیر خالہ نے بھی اپنی مرضی سے شادی کرلی۔ اب میں دس برس کی ہوچکی تھی لیکن اپنے والد کے رشتے داروں اور سوتیلے بھائیوں اور بہنوں کو نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنی دوسری شادی کے معاملے کو ابھی تک اپنے گھر والوں سے خفیہ ہی رکھا ہوا تھا۔ ہماری سوتیلی ماں جو گاؤں میں رہتی تھیں، ہماری موجودگی سے لاعلم تھیں۔ ایسی باتیں کب تک چھپتی ہیں۔ سو میرے والد کے گھر والوں کو بھی علم ہوگیا کہ محب خان نے شہر میں دوسری شادی کررکھی ہے والد کی پہلی بیوی کو شوہر کی دوسری شادی کا ازحد رنج ہوا۔ ماں کو رنجیده دیکھ کر بڑا بیٹا ایک روز جذبات میں آگیا۔ غصے میں بھرا ہمارے گھر آیا اور پھر یہ المناک واقعہ ہوا کہ جس کو میں عمر بھر نہ بھلا سکوں گی۔ میں اور چھوٹی بہن خالہ کے گھر پرورش پانے لگے جو ہم سے محبت کرتی تھیں۔ ان کی اپنی بھی ایک بیٹی تھی جس کا نام رجا تھا۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ اس کے ساتھ کی وجہ سے بھی میرا دل بہل گیا۔ وقت گزرتا رہا۔ میں نے اور رجا نے میڑک پاس کرلیا۔ اب ہم دونوں کا خالو سے یہی اصرار تھا کہ کالج جانا ہے اور آگے پڑھنا ہے۔ مگر خالو نہیں چاہتے تھے ہم کالج پڑھنے جائیں۔ وہ گاؤں میں رہتے تھے جبکہ لڑکیوں کا کالج شہر میں تھا۔ خالہ کے اصرار پر بالآخر انہوں نے ہم کو شہر کے کالج جانے کی اجازت دے دی۔والد کبهی کبهار مجھ سے ملنے شہر آتے مگر مجھے اپنے ساتھ گاؤں نہیں لے جاتے تھے کیونکہ وہاں سوتیلی ماں اور ان کے بچے تھے جو مجھے قبول نہ کرتے۔ خالہ اور خالو ہمارے ساتھ شہر آئے اور داخلہ کروا دیا۔ ہمارا روز شہر سے گاؤں آنا دشوار تھا لہذا گرلز ہوسٹل میں رہنے لگیں۔ یہاں آئے ہم کو بمشکل سال گزرا تھا کہ خالو کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا۔ خالہ کی تو گویا دنیا ہی أجڑ گئی۔ جب ہم گھر پہنچے شام ہوچکی تھی۔ انہوں نے خالو کو ہمارے پہنچنے سے پہلے دفن کردیا تھا۔ رجا اپنے والد کا آخری دیدار بھی نہ کرسکی۔ خالو کو فوت ہوئے بیس دن ہی گزرے تھے کہ ان کی پہلی بیوی کے بیٹے ساہیوال سے آئے اور خالہ کا تمام سامان انہوں نے ٹرک پر لدوا لیا۔ خالہ کو کچھ خبر نہ تھی کہ آگے یہ لوگ ان کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں مگر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہ اپنے باپ کی دوسری بیوی کو گھر بدر کرنے والے ہیں۔ چار ماه تک وه نجانے کیا سوچ کر خاموش رہے۔ پھر ایک دن آئے اور سوتیلی ماں کو ہم سب بچوں سمیت گھر سے نکال دیا اور مکان پر قفل لگا کر چلے گئے۔ تب خالو کا ایک پرانا اور وفادار نوکر کام آیا اور وہ ہم سب کو خالو کے ایک دوست کے گھر لے آیا۔ اس نے اپنا ایک خالی مکان رہنے کو دے دیا اور گھر میں ضرورت کا سامان اور راشن وغیرہ بھی ڈلوا دیا۔ اسی نے والد کو بھی اس دربدری کی خبر کردی۔ والد مجھے اور چھوٹی بہن کو لینے آگئے مگر خالہ نے ہمیں ان کے حوالے نہ کیا۔ والد سے کہا۔ تمہارے بیٹے نے میری بہن کی جان لی مگر تم نے کیا کیا؟ | اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔ جان تو میری بہن کی گئی۔ اب جس گھر میں وہ قاتل ہے، اس گھر میں اپنی بھانجیوں کو نہ بھیجوں گی۔ خدا جانے تمہارے گھر والے ان معصوم بچیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں؟ کچھ سوچ کر والد نے خالہ کی بات مان لی اور ہم کو ان ہی کے پاس رہنے دیا۔ البتہ ہمارے خرچے کے لئے رقم بھجوانے لگے۔ اس رقم سے خالہ بھی اپنا گزارہ کرنے لگیں۔ تاہم اب وہ عیش نہ رہے تھے۔ گاڑی، نوکر، گهر حتی کہ فرنیچر اور ضرورت کا سامان بھی ان کے سوتیلے لڑکے اٹھا لے گئے تھے۔ دوسروں نے رحم کھا کر جو دیا اس پر تکیہ کیا۔ یوں بیچاری نے دوباره جینے کا سامان کیا۔

خالو کے کچھ دوست ان کے بیٹوں کے پاس گئے کہ آپ لوگ اپنے والد کی بیوی اور ان کی بچی کا خیال کریں، سوتیلی ماں کا جو حق بنتا ہے وہ بھی دو تاکہ اس کے گزارے کی صورت نکلے۔ اس پر انہوں نے یہ بیان دیا کہ دوسری بیوی اور ان کی بیٹیوں کا وراثت میں کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اس عورت کا تو نکاح ہی ہمارے باپ کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ خالہ اپنے دیور کے پاس فریاد لے کرگئیں، اس نے بھی ساتھ نہ دیا اور خالہ کے بارے میں صاف کہہ دیا کہ یہ عورت میری بھابی نہیں ہے ورنہ کبھی تو میرا بھائی ان سے متعارف کراتا۔ ایسے بے نام اور خفیہ نکاح کو ہم نہیں مانتے۔ وہ لوگ گاؤں کے مولوی صاحب کے پاس بھی گئے مگر وہ بھی خالو کے بااثر رشتے داروں سے خوفزدہ ہوکر اس معاملے سے انجان ہوگئے۔

خالہ ناچار خاموش ہو بیٹھیں کہ ان کی طرف سے لڑنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ ایک تنہا اور کمزور عورت تھیں۔ ان طاقتور لوگوں کا مقابلہ نہ کرسکتی تھیں۔ میں اور رجا ان حالات سے بے نیاز کالج جانے کو بے قرار تھیں کہ کسی صورت ہمارے لئے پڑھائی کا رستہ پھر سے کھلے۔ ایک دن ایک عورت جو محلے میں رہتی تھی، خالہ سے ملنے آئی۔ اس نے بتایا کہ وہ شہر جارہی ہے۔ رجا نے مجھ سے کہا کہ کیوں نہ ہم اس کے ساتھ شہر چلے جائیں اور کالج جاکر معلوم کرلیں کہ دوباره داخلے کی کیا صورت ہے۔ ہم نے چند دنوں کے لئے چھٹی کی درخواست دی تھی، اب تو ہمارا نام بھی خارج کردیا گیا ہوگا۔ ہم نے خالہ سے کہا کہ ہم کالج جاکر معلومات لینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اجازت دے دی اس عورت کی ہمراہی میں مگر جو ٹائم اس عورت نے بتایا تھا، اسی ٹائم ہم بس اڈے پہنچے تو وہ وہاں نہ ملی۔ ہم دونوں کالج جانے کو شہر کی بس میں سوار ہوگئے۔ جب شہر کے اڈے پر أترے ہمیں پتا چلا کہ پرس تو کہیں گرگیا ہے۔ بس آگے جا چکی تھی۔ میں اور رجا پریشان کھڑی تھیں کہ اب کالج کیسے جائیں اور پھر واپس کیونکر لوٹیں گے۔ کرایہ تو ہے نہیں... اسی سوچ میں غلطاں تھے کہ دو لڑکے ہمارے قریب آئے اور دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئی ہیں اور کہاں جانا ہے۔ میں نے بتایا کہ میرا پرس بس میں گرگیا ہے اور مجھے پتا نہیں چلا جبکہ رقم اسی میں تھی۔ اپنے گاؤں کا بھی بتایا۔ اس نے کہا۔ پریشان مت ہو، میں بھی اسی گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ جتنی رقم چاہئے مجھ سے لے لو۔ بعد میں لوٹا دینا۔ اس وقت یہ لڑکا فرشتہ رحمت نظر آیا اور ہماری جان میں جان آگئی۔ اگر آپ پسند کریں تو جہاں جانا ہے آپ کو ہم چھوڑ آتے ہیں۔ رجا بولی، ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ہم نے تھوڑی دیر کے لئے گرلز کالج جانا ہے اور کچھ معلومات لے کر واپس اپنے گاؤں جانا ہے۔ اس پر وہ دونوں ہمارے ساتھ ہولئے۔ کالج پہنچ کر انہوں نے کہا۔ اگر آپ نے جلد واپس آنا ہے تو ہم یہیں ٹھہر جاتے ہیں شاید آپ لوگوں کو ہماری ضرورت پڑ

جائے۔ ٹھیک ہے، آپ کچھ دیر ٹھہرئیے، ہم ابھی آتی ہیں۔ ہم نے صرف کالج آفس سے معلومات لیں اور باہر آئیں تو ان کو سامنے کے ریسٹورنٹ کے باہر منتظر پایا... فورا ہی وہ لڑکا جس نے اپنا نام مصور بتایا تھا، ہماری طرف تیزی سے آیا۔ کہنے لگا۔ چلئے ہم آپ کو بس اڈے پہنچا دیں اور ٹکٹ لے کر بس میں سوار کروا دیں۔ ہم کو اس کی یہ پیش کش غنيمت لگی۔ شام کے چار بجنے والے تھے۔ بھوک ستانے لگی تھی۔ ابھی دو قدم چلے تھے کہ مصور نے کہا۔ اگر برا نہ مانیں تو کچھ کھالیں۔ اس نے تو جیسے میرے دل کی بات کہہ دی تھی۔ پرس کھو گیا تھا، پہلے ایک روپیہ نہ تھا، ایسے میں یہ پیش کش ٹھکرانے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ گھر سے جو کھایا پیا تھا، اب ہضم ہوچکا تھا۔ ہم کو ہچکچاتے پاکر وہ بولا۔ اپنے گاؤں کی لڑکیاں اپنی عزت ہوتی ہیں... ہچکچائیے نہیں، جو خرچہ ہوگا وہاں پہنچ کر ہم آپ سے لے لیں گے، یہ أدهار رہا۔ مصور کهانا لے آیا اور ہم چاروں نے بس اڈے پہنچ کر وہاں بیٹھ کر کھایا کیونکہ بس کے آنے میں کچھ دیر تھی۔ واپسی کا ٹکٹ انہوں نے لیا۔ان کے ساتھ یہ سفر بہت خوش گوار گزرا۔ وہ یکے پر ہمارے ساتھ گھر تک آئے اور ہم ان کو خالہ کے پاس لے گئے۔ خالہ کو احوال بتایا۔ انہوں نے بھی لڑکوں کا شکریہ ادا کیا۔ کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں، ہم آپ کے پڑوسی ہیں اور پڑوسیوں کا حق ہوتا ہے۔ ان کو کرایہ اور کھانے پر خرچ ہونے والی رقم دینے کی کوشش کی مگر مصور نے لینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد مصور اور راشد خالہ سے ملنے دوباره گهر آئے لیکن میں سمجھ گئی کہ وہ خالہ کے بہانے دراصل ہماری وجہ سے آتے ہیں۔ ایک دن میں اور رجا پڑوس میں ان کی بیٹی کی شادی میں گئے، وہاں مصور اور راشد موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ شادی کے گھر میں اس نے مجھے اپنا فون نمبر دیا اور پھر ہمارا رابطہ رہنے لگا۔ اب میں کبھی کتاب کبھی کاپی لینے کے بہانے کتابوں کی دکان پر جانے لگی۔ رجا ساتھ ہوتی۔ وہاں مصور اور راشد بھی آجاتے اور ہم ملاقات کرلیتے... مصور نے مجھے اور راشدنے رجا کو تحفے بھی دئیے جن کا ذکر ہم نے خالہ سے نہ کیا۔ ہم نے ایف اے پرائیویٹ طالبات کے طور پر کرنا تھا لہذا کبھی کبھی کالج جانا ہوتا۔ جب جانا ہوتا، میں مصور کو فون پر بتا دیتی، تب وه اڈے پر آجاتا، ہمارے ساتھ کالج جاتا اور واپس آتا ... مجھے اس کے ساتھ ہونے سے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ مصور اور راشد آپس میں کزن تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں کی منگنیاں ہوچکی ہیں۔ مصور نے مجھے یقین دلایا کہ وہ شادی مجھ سے ہی کرے گا کیونکہ اس کو اپنی منگیتر پسند نہیں ہے۔ میں بھی اس کی باتوں میں آگئی، جبکہ رجا کہتی تھی کہ یہ ویسے ہی ہم سے دوستی رکھتے ہیں، شادی اپنی اپنی منگیتروں سے ہی کریں گے۔ مصور سے جب میں یہ بات کہتی، وہ قسمیں کھانے لگتا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ جونہی ملازمت ملے گی، وہ رشتہ کے لئے اپنی والدہ کو میری خالہ کے پاس لائے گاخالہ کو بھی کسی طرح سن گن ہوگئی کہ میں مصور سے شادی کے خواب دیکھ رہی ہوں۔ انہوں نے سمجھایا کہ تم ایسی سوچ کو خیال میں نہ الاو۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ کسی بھی وقت تمہارے والد آکر تم لوگوں کو لےجاسکتے ہیں۔ مجھ پر تمہاری ایک بڑی ذمے داری ہے۔ اپنے ذہن کو صاف رکھو ورنہ دل کا یہ گھاؤ عمربھر، بهرتا نہیں ہے۔ میری اور اپنی والدہ کی مثال دیکھ لو۔ہم نادان کچی عمر کی لڑکیوں پر کب یہ پندونصائح اثر کرتے ہیں، ألا نصیحت کرنے والے ہی زہر لگتے ہیں۔ ایک دن مصور نے مجھے فون کیا کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں شہر جارہا ہے، بہتر ہے میں اس سے مل لوں۔ اس نے مجھے کتابوں کی دکان پر آنے کا کہا۔ جب میں وہاں گئی تو کہنے لگا۔ تین ماہ کے لئے جارہا ہوں۔ بہتر ہے کہ ہم کچھ دیر کہیں بیٹھ کر بات کرلیں۔ وہ مجھے ندی کنارے لے گیا۔ ہم وہاں درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ کر باتیں کررہے تھے کہ اس کے دو کزن وہاں سے گزرے۔ یہ اس کی منگیتر کے سگے بھائی تھے۔ انہوں نے پاس اگر اس سے کچھ سوالات کئے۔ وہ بری طرح گھبرا گیا۔ اس وقت تو وہ چلے گئے مگر بعد میں سخت باز پرس کی۔ اس نے ان سے کہا کہ یہ راشد کی دوست ہے میری نہیں۔ وہ شہر جانے کی بجائے اسپتال داخل ہوگیا۔ اس واقعہ کے ہفتہ بعد اس کی کزن اپنی بہن کے ساتھ خالہ کے گھر آئی۔ مجھ سے پوچھا۔ کیا تم میرے منگیتر کے ساتھ ملاقاتیں کرتی ہو اور تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ میں نے کہا۔ کچھ نہیں، ہم رجسٹریشن نمبر لینے شہر کے کالج جارہی تھیں، وہ ہم کو اڈے پر مل گیا۔ وہ بھی اسی بس میں جا رہا تھا۔ ہمارا پرس کھو گیا تھا تو اس نے مدد کردی۔ اس کے سوا ہمارا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔ وہ بولی۔ میرے بھائیوں نے تو متعدد بار تم دونوں کو ساتھ دیکھا ہے۔ بہرحال اب خبردار ہوجاؤ اور اس کا خیال چھوڑ دو ورنہ بہت پچھتاؤ گی۔ اس کی منگیتر نے یہاں تک ہی بس نہ کیا۔ ایک دن اس کی ماں بھی خالہ کے گهر آگئی اور ان کو کہا کہ اپنی بھانجی کو سمجها لو۔ یہ مصور کا پیچھا چھوڑ دے ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ تب خالہ نے پھر سمجهایا۔ بیٹی اب کوئی ایسی غلطی نہ کرنا ورنہ ہمارا یہاں رہنا یہ لوگ دوبھر کردیں گے۔ میں بہت روئی اور مصور سے نہ ملنے کا عہد کرلیا۔ جب اس کا میڈیکل چیک آپ ٹھیک ہوگیا، اس کا فون آیا ایک بار مل لو۔ بے شک اس کے بعد نہ ملنا۔ اس نے کہا کتابوں کی دکان پر میں نہیں آؤں گا۔ راشد تم کو وہاں سے میرے پاس لے جائے گا۔ اس کی منت سماجت پر میں دکان پر گئی وہاں راشد موجود تھا۔ اس کے ساتھ ہولی۔ ہم کھیتوں سے کافی آگے نکل گئے۔ جب میں راشد کے ساتھ مصور سے ملنے جارہی تھی، بدقسمتی سے اس کے ایک رشتہ دار نے ہم کو دیکھ لیا۔ میں تو برقع میں تھی مگر راشد کی شامت آگئی۔ اس رشتہ دار نے جاکر راشد کے ہونے والے سسر کو بتادیا، جس پر ان لوگوں نے جهگڑا | کیا۔ تب مصور کی ماں ہمارے گھر تصدیق کرنے آئی۔ میں نے مصور کو بچانے کی خاطر یہ جھوٹ بولا کہ میرا تعلق مصور سے نہیں ہے بلکہ میں راشد ہی سے ملنے کے لئے مصور کا سہارا لیتی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اس جھوٹ کا خمیازه راشد کو سخت بھگتنا ہوگا۔ اس کے سسر نے بیٹوں کو کہا کہ جاکر راشد کی خبر لو۔ پس ایسا جهگڑا بڑھا کہ بچارے راشد کا انہوں نے بازو توڑ کر رکھ دیا۔ یہی نہیں اس کی منگنی بھی ٹوٹ گئی حالانکہ وہ بے قصور تها۔ اس جھگڑے سے خوفزدہ ہوکر مصور شہر چلا گیا اور کافی دن گاؤں نہ لوٹا۔ انہی دنوں والد ہم سے ملنے آئے۔ خالہ کے حالات ایسے تھے کہ وہ ہم کو ساته لینے جانے پر مصر ہوگئے اور میں چھوٹی بہن کے ہمراه مجبور والد کے ہمراہ ان کے گاوں والے گھر آگئی جہاں طوعا و کرہا ہمیں ان کے گھر والوں نے قبول کرلیا کیونکہ اب ہم بڑی ہو گئی تھیں اور ہماری ماں بھی نہ رہی تھی۔ یہاں میرے لئے کسی شے کی کمی نہ تھی، جہاں جانا ہوتا گاڑی پر جاتی۔ ہر طرح کا آرام تھا مگر میں اداس تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ دکھ تھا کہ وہ سوتیلا بھائی جو میری ماں کا قاتل تھا، ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے پهرتا تها۔ مجھے اسے بھائی کہنا پڑتا اور ادب سے پیش آنا پڑتا تھا۔ اب میں اپنے والد کی گاڑی میں کالج جاتی۔ اس طرح میں نے پرائیویٹ طالبہ کے طور پر ایف اے کے پرچے دیئے جبکہ رجا بچاری نے میرے آجانے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ کالج جاسکی اور نہ پرچے دے سکی۔ سالانہ امتحان ختم ہوگئے۔ رزلٹ آیا، میں پاس ہوگئی تھی۔ انہی دنوں میں نے خالہ کے پاس جانے کی ضد کی تو ابو مجھے چند دنوں کے لئے ان کے گاؤں لے گئے جہاں خالہ رہتی تھیں۔ مجھے مصور کی یاد ستانے لگی۔ کرید لگ گئی کہ اب وہ کس حال میں ہے؟ ملازمت ملی یا نہیں؟ رجا سے پوچھا۔ اس نے ٹال مٹول سے کام لیا... ایک روز پتا چلا کہ اس کی شادی ہے۔ تب رجا نے کہا۔ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ مصور کا خیال چھوڑو۔ تم نے اس کی خاطر خواہ مخواه بے چارے راشد کو مصیبت میں ڈالا۔ رجا کی شادی ایک اچھے گھرانے میں ہوگئی۔ خالہ بھی اس کے ساتھ چلی گئیں۔ آخری عمر میں بیٹی اور داماد نے سہارا دیا۔ اس کی قسمت نے یاوری کی۔ آج رجا اپنے بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ہے۔ والد نے میری چھوٹی بہن کی شادی اپنے کزن کے بیٹے سے کردی ہے مگر میں نے ددھیال میں کسی رشتے کو قبول نہ کیا کیونکہ میں ان کو اپنی ماں کا قاتل سمجهتی ہوں۔ اب جب بھی سنتی ہوں کہ کسی لڑکی نے شادی شدہ مرد سے شادی کی ہے، کسی سوتن کے ہوتے پسند کی شادی کرلی ہے، تو میرا دل رونے لگتا ہے۔ کاش! لڑکیاں ایسا قدم اٹھانے سے پہلے اپنا انجام سوچ لیں۔


Post a Comment

0 Comments