Search Bar

Es Shehar Khamoshan Mein Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Es Shehar Khamoshan Mein  Teen Auratien Teen Kahaniyan


میرے والد گورکن تھے اور ہم قبرستان میں رہتے تھے۔ ہمارا گھر وہاں جنازہ گاہ کے عقی طرف تاپ دو کمروں کا چھوٹا گھرت جس کا من والد نے قبرستان سے اینٹیں اکٹھی کر کے خود چ اردیواری کھڑی کر کے بنالیات۔ مصحن کی دیوار سے ایک دروازہ قبرستان کی جانب کھلتایتا۔ پہلے ہمارے  دادا اس قبرستان کے گورکن تھے تجربہ کام ابا نے سنبھال لیا۔ میرے دو چپاتے، وہ کسی اور طرف کے قبرستانوں م یں ذرایب روزگار کی خاطر نکل گئے۔ میرے والد کی شادی ہوئی تو وہ اپنی دلہن کو اسی گھر میں لے آئے جہاں ابارہتے تھے۔ ہم تین بہن، بھائی اسی گھر م یں پیدا ہوئے۔ لوگ کہتے تھے کہ قبرستان خوفناک جگ ہوتی ہے اور ان کو یہاں آنے سے خون آتاعت لیکن ہم تو پیدا ہی یہاں ہوئے تھے، اسی جگ قبروں کے کھیل کود کر بڑے ہوئے، اس لئے ہمیں قبرستان سے ڈر نہیں والدہ کو ابا کی گور کنی کا پیش پسندن تا لہذا انہوں نے مجھ کو پڑھانے کا عزم کر لیا تا تا کہ ہم اس ماحول سے باہر نکل گئیں جبکہ ابا کو اپناکر پیارات۔ اس وب سے نہیں کہ ان کو قبرستان بہت پسند تا، دراصل وہ اس کام کے سوا کوئی دوسرا کام بانتے ہی نہ تھے۔ پڑھے لکھے نہ تھے اور شہر میں مکان حنرید ان کے بس کی بات تھی ا س لئے ان کو یہیں رہتارا تا کہ الله تعالی نے ان کی روزی کو اسی جگ سے وابستہ کر دیاتا۔ یوں بھی ان کے بقول، پ کوئی ایسی بری جگ نہیں تھی۔ ویرانی سہی لیکن نہایت پر سکون بھی۔ وہ اور ان کا کتب تبرستان کے اندر بڑے سکھ پین سے رہتے تھے۔ شہر کا شور و غوغ، آلودگی اور دھواں اور نہ ہی پڑوسیوں کی جنگ جھک بن بلائے مہمان آ کر بلا وب پریشان نہ کرتے تھے۔ اپنے وہ عزیز جن کو واقعی ہم سے محبت تھی، ملنے آجاتے۔ ٹریفک کے حادثات کا ڈر بھی نہ تا۔ ہر طرف بہو کا عالم ہو تا۔ ایا پر امن سنایا کہ اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی تھی۔ یہاں صرف نئی پرانی، پی پی، چھوٹی بڑی، قشم قشم کی قبریں تھیں جو کسی سے کچھ کہتی سنتی نہ تھیں، بس چپ پاپ اپنی جگ پڑی رہتی تھیں۔ یا امتحان کی تیاری بہت اچھی ط رح ہوتی۔ اگر بھی گلہ ہو ابھی تو اپنے جیسے زندہ لوگوں سے جو یہاں آ کر انسانیت سے گری ہوئی ح رکت کرتے اور اب ان کو دیکھ لیتے۔ اکثر کو تو نصیحت کرکے چھوڑ دیتے۔ کبھی کبھار دو ہاتھ بھی کسی کے بٹنے پڑباتے تھے، سو بٹر دیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذکر ہے مجھے اپنے گھر کی مغربی دیوار کی جانب سے کچھ ایسی آواز میں سنائی دیں جیسے کوئی آہستہ آہستہ زمین کھود رہا ہوں۔ م یں اسکول کی کتابیں سامنے رکھ کر پرچے کی تیاری کر رہی تھی۔ ابا نے مجھے سے لالٹین لے لی اور باہر چلے گئے۔ لالٹین کی روشنی مدھم تھی۔ رات کا وقت تھا اور وہ دبے پائوں پل رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہمارے مکان کی باب پشت کئے اپنے کام میں منہمک ہے۔ اس کو ابا کے قریب آنے کا احساس تک نہ ہوا۔ جب وہ اس کے سر پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ وہ ایک لمبی داڑھی اور مسیلی جٹ ائوں والا بھکاری ہے۔ ا س کا کاسہ اور لاٹھی پاس پڑے تھے اور ایک گٹھری بھی تھی۔ گلے م یں مال تھی۔ ابا کو دیکھ کر بھاگنے کی بجائے ان کے پائوں پڑگیا۔ بولا۔ اللہ کا واسیلہ تم کو بھائی ! مجھے معاف کر دور میں ایک غریب بھکاری ہوں، اپنے چھ ماہ کی کمائی یہاں دفن کر رہا تا کہ کوئی مجھ سے اچک لے۔ اللہ کی ستم رات بھر اسی منکر سے نیند نہیں آتی تھی، گٹھڑی کو سر کے پیچھے رکھ کر سوتاہوں کہ کہیں کوئی بھی ابا نے کہا۔ اگر تو چ کہہ رہا ہے تو گٹھڑی کھول کر دکھادے۔ واقعی اس میں بہت کی ریزگاری اور کچھ نوٹ بھی تھے۔ روپے والے سکوں کا تو انبار لگاتا۔ ابا نے ا س وعدہ پر ا س روز اس کو چھوڑ دیا کہ وہ آئندہ اپنی رفتم و بانے یہاں نہیں آئے گا اور نہ کسی قبر کی بے ح رمتی کرے گا۔ کچھ دن گزرے کہ رات کے سناٹےمیں پیروی ہی آواز سنائی دی۔ ابان باکر بھکاری کی گردن دبوچ لی اور کہا تو وہی ح رکت کرنے آگی؟ وہ کھا کر بولا۔ سرکار م یں قبر کی بے ح رمتی نہیں کر رہا، اپنی دبائی ہوئی رستم نکال رہا ہوں۔ م یں یہ شہر چھوڑ کر بارہاہوں، اسی لئے پر بھی نکال رہا ہوں۔ وعدہ ہے کہ پھر بھی آپ کویہاں نظر نہیں آوں گا۔ قبرستان میں رات کے وقت کبھی کبھی چلے کاٹنے والے اور عملیات کرنے والے بھی آجاتے تھے۔ بادو ٹونے کرنے والے یہاں آ کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتے۔ ایسے مشکوک لوگوں کو میرے والد خوب پہنتے تھے۔ اکثر کا کام تو صرف قبروں کی مٹی اٹانا پرانی ہڈیاں و با تعویذ دفن کرنا ہوتا لیکن کچھ ایسے بھی دیکھے گئے جو مشکوک لوگ نہ ہوتے ابل ابر صاف ستھرے مگر چور پکے ان میں بھی ہوتے تھے۔ برائم پیش تو قبرستان کو اپنی جنت ب نتے۔ وہ ان گورستان کی ہولناکی کے اندر اپنے ہولناکب رم چھپانے آجاتے تھے۔ ایسے بہت سے عجیب و غریب واقعات ابا کی یادداشت میں موجود تھے جن کو سن کر حیرت ہوتی تھی۔ بہرال ایک واقع تو ایسا ہوا کہ جس نے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تا۔ اب بتاتے تھے۔ ی منب سے ذرا پہلے کا وقت تا۔ وہ گھر کی دیوار کے پاس باہر کی طرف پڑی پارپائی پر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ ابھی اذان ہوئے تو اٹھ کر مسبدبائیں۔ اتنے م یں ان کو سامنے کچھ دوری پر بھی قبروں کے پاس دو عورتیں نظر آئیں۔ دونوں نے برقعے اوڑھ رکھے تھے جوتبونا تھے۔ ایک عورت ایک تازہ قبر کے پاس بیٹھ گئی جہاں پیچھے اینٹیں پڑی تھیں اور دوسری ابا کو پارپائی پر بیٹھے دیکھ کر ان کی طرف چلی آئی۔ ا س کے ہاتھ م یں آدھ کلو میٹھے چنے ایک کاغذ کے اندرلپٹے ہوئے تھے۔ جس زمانے کا ذکر ہے، تب کو نہیں بلکہ سیر، آدھ سیر کاوزن را تا۔ عورت نے ابا سے کہا کہ آپ ان پر ناتھ پڑھ دیں، میں نے ان کو مس کے دروازے پر بانٹتاہے۔ آبانے عورت بن کر احترام کیا۔ کہنے لگے۔ تم میاں ر کو، میں درودونات سبد کے امام صاحب سے پڑھوا کر لاتا ہوں، وہ سب م یں ہی ہیں۔ ابا پنے لے کر مسېد کے اندر پلے گئے اور وہ عورت وہاں پارپائی پر بیٹھ گئی۔ دراصل وہ ای کو وہاں سے ہٹاناپاہتی تھی تا کہ دوسری عورت جو تازہ قبر کے پاس موجود تھی، وہ اپنا کام کر لے۔ ابانپ سوچ کر اس دوسری عورت کے بارے سوال نہ کیا کہ اپنے کسی عزیز کی قبر پر آئی ہو گی۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب سے نا تھ پڑھواکر چنے لے آئے اور عورت کے ہاتھ میں کاغذ کا پڑادیا۔ عورت نے مٹھی بھر کر ان م یں سے چنے ابا کو دیئے اور دوسری عورت سے بولی۔ نماز ہولے توپ باقی بھی تم بانٹ دیتا۔ ا س نے چنے ابا کے حوالے کر دیئے اور پتی بنی۔ ذرا دیر بعد ازان ہو گئی اور پھر چند لوگ جو کہیں ارد گرد تھے، مسجد کے اندر چلے گئے۔ جب ابانماز کے بعد باہر آئے انہوں نے دیکھا کہ وہ عورتیں وہاں نہیں تھیں۔ ابھی وہ باہر ہی تھے کہ ان کو دور سے ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ آواز کی سمت پل دیئے۔ آواز اسی تازہ قبر کے پاس سے آرہی تھی جہاں کچھ دیر قبل وہ دو عورتیں بیٹھی تھیں۔ تریب پہنچے تو عجیب احوال دیکھا۔ دو قبروں کے نچ کی گہرائی میں پارپار پختہ اینٹیں اوپر تلے رکھ کر پار دیواری بنائی گئی تھی جس کے اندر ایک ناباپ لینا ہو الفتا۔ ایک اینٹ اتفاق سے گر گئی تھی، شاید اس بچے کے پائوں کی ح رکت کی وب سے لیکن الله تعالی نے اس ننھی سی حبان پر کرم کیا اور اس کو محفوظ رکھا۔ اینٹ کا ذراباکوتا بچے کے پیر پرت جس کی وب سے وہ تکلیف سے اور بات جبکہ بازی اینٹیں ایک دوسرے کے سہارے جوں کی توں موجود تھیں تاہم اس کے ہاتھ، پائوں پلانے سے وہ اس کے نازک وجود پر کسی بھی وقت گر سکتی تھیں۔ بچے کو بہت ڈھیلے ڈھالے انداز سے کپڑے میں لپینا پاتا۔ والد نے کمال ہوشیاری سے آن اینٹوں سے بنی بغیر چھت کی قبر کے اندر سے بچے کو اٹھالیا۔ وہ ململ کے کپڑے میں لپٹا ہواتا۔ الٹ کا شکر ادا کیا کہ ناز ک ت ا بی بروقت بحپالپات۔ کسی بھی وقت اینٹوں کے گرنے سے اس کی بان خداجانے وہ شقی القلب عور تیں کدھرسے وہاں آئی تھیں اور کدھر کو روات ہو گئی قیں مگر ا س پھول سے معصوم کی موت کا اپنی طرف سے پورا اہتمام کر گئی تھیں لیکن جس کو اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ والد اس وقت امام صاحب کو ساتھ لے کر تری کتنے پلے گئے، وہاں باری تفصیل لکھوادی۔ الله تعالی نے اسی وقت اس بچے کی پرورش کے اسباب بھی پیدا کر دیئے کہ کتنے کا ایک کلر ک جو بے اولادت، ا س نے بچے کو گود لینے کی خوابش ظاہر کی چونکہ وہ نیک اور اچانان کتاب ذاتانیدار نے بھی اس کے سپرد کر دیا۔ اس طرح جی کو اطمینان ہوگیا کہ معصوم شھیک ہاتھوں میں پائپ جب بپ پانچ برس کا ہو ، وہ شخص ابا سے ملنے آیا اور ا س بچے کو بھی باتھ لایا۔ وہ بے حد پیارا اور خوبصورت ت۔ گود لینے والے کی بیوی اس کی بہت پیارے پرورش کر رہی تھی۔ پھر وہ اسکول جانے لگا۔ وقت گزرتا رہا۔ اس نے ایف ایس سی کر لی اور پیر اس کو پولیس کی نوکری بھی مل گئی۔ ان کی زندگی م یں آخری بار جب وہ ان سے ملنے آیا تو پولیس کی وردی پہنے کھتا۔ ا س نے جھک کر ابا کے پیر چھوئے اور کہا۔ چپابان بابا بان ہمیشہ مجھ کو آپ کی عزت و تکریم کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اگر میرے لائق کوئی کام ہو تو ضرور بتانا، مجھے آپ ہر وقت حاضر پائیں گے۔ جب بھی پ واقع یاد آتا ہے، سوچتی ہوں نجانے وہ کون بد نصیب ماں اور بد کردار باپ ہو گا جس کو اس نعمت سے محرومی متر میں ملی اور دنیا کی لعنت کے ساتھ آخرت کے عذاب کے بھی وہ حق دار ہوئے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اولاد صرف نیک لوگوں کو عطا کرے جو اس کی اس نعمت کی حفاظت کر سکیں اور شکر کے بطور اس نعمت پر بجو در ہیں۔

 


Post a Comment

0 Comments