Search Bar

Mohabbat Raas Na Aye Urdu Story Teen Auratien Teen Kahaniyan

 


Mohabbat Raas Na Aye  Urdu Story Teen Auratien Teen Kahaniyan


اس کا نام امیر زادی تھا مگر وہ امیر زادی نہ تھی، کسان زادی تھی، ایک چرواہے کی بیٹی لیکن شکل صورت سے کسی شہزادی سے کم نہ تھی۔ یہ اس کی موہنی صورت ہی تھی کہ جو میر اماموں زاد و سیم خان اس پر مر مٹا تھا۔ ممانی کا بالکل ارادہ نہ تھا کہ وہ امیر کو بہو بن کر گھر لے آئے، اسے تو اپنی بھانجی خان زادی کو بہو بنانے کا ارمان تھا، لیکن ہمارے ماموں نے اس کا یہ خواب خاک میں ملا دیا۔ ان کو بیوی کے رشتے دار ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ یہ ہر وقت ماموں کے گھر آتے رہتے ، جب آتے کئی دن تک جاتے اور لوٹ جانے کا نام نہ لیتے۔ ماموں لحاظ کے مارے خاموش رہے مگر اندر اندر کڑھتے تھے کہ ان لوگوں کے گاہے گاہے آنے جانے سے ان کے گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا تھا۔ جب وسیم نے باپ کے ڈیرے پر جا کر بتایا کہ وہ خان زادی سے شادی نہیں کرناچاہتاتو ماموں کی باچھیں کھل گئی۔ وہ کب چاہتے تھے کہ بیوی کی بھابھی بہو بن کر گھر میں آجائے۔ وسیم خان بیٹا تو تھا پھر کہاں تمہار ا شتہ کروں؟ بابا جان میرو آپ کو کیسی لگتی ہے ؟ بہت اچھی لڑکی ہے وہ ماں باپ کے پیار سے محروم یتیم بھی ہے، میرے دور کے رشتے دار کی بیٹی ہے، غیر نہیں ہیں یہ لوگ، اس کے چچاصاحب داد خان سے جا کر بات کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس کا رشتہ میں دے دے گا۔ وہ اگر امیر زادی کے بدلے پاس تھیٹر میں بھی مانگے تو میں دے دوں گا لیکن تیری خوشی ضرور پوری کروں گا۔ محبت خان نے کہا۔ تو پھر بات کرو نا بابا جان۔ چاچاصاب سے ، لیکن اماں کا کیا بنے گاوہ تو طوفان اٹھادے گی، کیسے منائیں گے اسے؟ بات منوانے کا گر میرے پاس ہے۔ کہہ دوں گا کہ دوسری شادی کر رہا ہوں اور نہ میری بات مان لو۔ نہیں مانو گی تو طلاق دے کر چلتا کر دوں گا۔ باباتم ایسی بات کروگے میری ماں سے؟ ارے بیٹا چ بیچ تھوڑا ہی ایسا کرنے چلا ہوں۔ بس عورت کو دھمکانے کو ہی تو ایک حربہ ہے ہم مردوں کے پاس ورنہ اتنے بڑھاپے میں کیا میری مت ماری گئی ہے جو میں اور شادی کروں گا۔ خاندان میں سبھی نے دو دو چار چار شادیاں کر رکھی ہیں مگر میں نے ایک ہی کی۔ پوچھو تو کیوں؟ اس لئے کہ مجھ کو تیری ماں کے سوا کوئی دوسری عورت بھائی ہی نہیں۔ اچھا تو کسی بات کی فکر نہ کر، میں سنبھال لوں گا یہ معاملہ لیکن ہر گز تیر ار شتہ تیرے ماں کے رشتے داروں میں نہیں کروں گا۔ یہ بڑے میچڑ لوگ ہیں۔ مفت خورے ،میرا بس چلے تو ان کو اپنی دو بلیز بھی پیار نہ کرنے دوں لیکن کیا کروں تیری ماں سے محبت ہے۔ میں اس کو آزار نہیں دینا چاہتا۔ یوں باپ بیٹے میں باہر ہی باہر معاملہ طے ہو گیا۔ وسیم کے باب میرے والد کے پاس آئے، کہا کہ تم رشتہ لے کر امیر بی بی کے گھر جائو اور اس کے چاچا چاچی سے بات کرو جنہوں نے اس کو پایا ہے۔ یہ لوگ تم کو ہر گز انکار نہ کریں گے۔ ماموں کی بات بھی کی تھی۔ امیر بی بی کے چچا سے والد صاحب کی گاڑھی چھنتی تھی۔ ہر بھلے برے وقت میں ہمیشہ وہ ان کام آتے تھے۔ دونوں پیری بدل بھائی بنے ہوئے تھے۔ امیر کا گھر ہمارے گھر سے متصل تھا۔ میر اور اس کا چین ایک آنگن میں گزرا۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی۔ ہم بھی اپنی کوئی بات ایک دوسرے سے منہ چھپاتے تھے۔ میں اسے پیار سے میرو کہتی تھی۔ مجھ کو میر د کے سب دکھ معلوم تھے۔ اس کے چاچا چاچی بے شک اس کے سرپرست بلکہ اب اس کے والدین تھے لیکن سگے ماں باپ کا بدل کوئی نہیں ہوتا۔ میر کو اپنے والدین سے محرومی کا بہت کھ تھا۔ جو اس کے بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ وہ حسرت سے کہتی۔ اے کاش! میں ایک بار اپنے شعور میں آنے پر ان کو دیکھ لیتی ، ان کی صورت کو یاد کر لیتی۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم ماں اور باپ کی شکل و صورت کیسی تھی۔ میں اس کی دلجوئی کرتی۔ کبھی کبھی وہ رو بھی پڑتی۔ میں اس کو چپ کرائی۔ اس کے آنسو پونچھتی تھی وہ مجھ کو اپنانا غمگسار اور راز دار جھتی تھی۔ ہم ایک ایسے پہاڑی گائوں میں رہتے تھے جہاں کے رسم ورواج آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بہت عجیب و غریب تھے بلکہ یہ ایسے رسم ورواج تھے جو عورت کو پیر کی جوتی اور مرد کو سرکاتاج بناتے تھے۔ میاں اور بیوی کے خوبصورت اور مقدس رشتے میں کوئی توازن نہ تھا۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کا خیال رکھتا تو اس کو زن مرید کہہ کر نظروں سے گرادیا جاتا تھا۔ اگر وہ سیر و تفرت کی غرض سے بیوی کو ساتھ لے کر کہیں جاتا تو خاندان بھر ہی نہیں، سارا گائوں ہی اسے نظروں سے گرادیتا تھا۔ برادری والے اس پر ہنستے اور آوازے کستے تھے۔ کہتے لو وہ آرہا ہے عورت کا غلام۔ یہ اب ہم مردوں میں بیٹھنے کے لائق نہیں۔ خیر ماموں نے بیوی سے اپنی بات منوالی اور وہ امیر چینی کی شادی اپنے لخت جگر و سیم سے کر کے اس کو بیاہ کر گھر لے آئے۔ وسیم کی تو وہ چاہت تھی۔ وہ میر سے بہت پیار کرتا تھا مگر گھر والوں سے چھپ کر سب کے سامنے درشتی سے اس کے ساتھ ہم کلام ہوتا تھا کیونکہ ہمارے علاقے میں یہ رواج صدیوں سے چلا آرہا تھا کہ جب تک مرداپنی دلہن کو مار پیٹ نہ لے وہ کچہری میں گردن او چی کر کے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ یہاں تو دوسری شادی کرنے والے مرد کی بھی پیٹھ ٹھو کی جاتی تھی۔ اس کو شاباش دی جاتی تھی۔ ہمارے یہاں مرد عورتوں کی گلہ بانی سے ہی معاشرے میں قیام پاتے تھے۔ جس مرد کی جتنی زیادہ بیویاں ہوتیں، اسی قدر وہ زیادہ قابل تحسین اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا | تھا۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے دل میں گھر کر لیتی، ایسے مرد کی تو شامت ہی آجاتی تھی کہ وہ گھر والوں کے سامنے بیوی سے پیار کی بات تک نہیں کر سکتا تھا۔ اب یہی حالات میر رکے ہوئے ۔ اگرچہ وہ شوہر کی خدمت گزار اور ساس سسر کی فرمانبردار تھی۔ پھر بھی سسرال میں ہر کسی سے د یکی دیگی ر ہتی، تیز بخار میں بھی گھر کے کام نمٹاتی، تب بھی شوہر اس کے ساتھ نرم لہجے میں مخاطب ہو سکتا تھا اور نہ گھر والوں کے ڈر سے اس کو آرام کرنے کو کہہ سکتا تھا۔ وسیم کو دن بھر ماں بہنوں کے سامنے بیوی سے درشت لہجے میں بات کرناپڑی اور رات کو میر سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا تھا، وہ منہ چلا لیتی تو اس کے پیر پٹڑ لیتا۔ کہتا۔ میر و تو جانتی تو ہے اگر میں تجھ سے سب کے سامنے تحکمانہ لہجے میں بات نہ کروں، تجھ پر حکم نہ چلائوں تومان ایک دن بھی مجھے اور مجھے سکون سے گھر میں نہ رہنے دے گی۔ زیادہ تونے اصرار کیا اور میں نے تیری بات مان لی تو وہ طلاق کرانے سے بھی نہ رکے گیا۔ بس تو صبر سے یہ دن گزار دے ، جب ہمارے دو چار چکے ہو جائیں گے تو باز مین اور گلہ بانٹ دے گا تب ہم علیحدہ ہو جائیں گے۔ ابھی اگر میں علیحدہ گھر میں رہنے کی بات کروں گا، یہ لوگ میری دوسری شادی کرادیں گے اور تجھے تیرے چاچا کے گھر بھجوا دیں گے ، تب تیری چاچی بھی تجھ کو نہ رکھے گی، کہاں جائے گی تو میرے گھر والے مہی سو چھیں گے کہ میر وہی ہمارے بیٹے کو علیحدہ گھر میں رہنے پر اکساتی ہے، کیا تو یہ چاہتی ہے کہ برادری والے ہماری محبت سے جل کر میری دوسری شادی کرادیں ؟ میر و بھی سوچتی کہ یہ بچے ہی تو کہتا ہے بے چارہ، یہ کالے پہاڑوں کے رہنے والے دقیانوسی لا علم لوگ، اگر میں نے ہوش سے کام نہ لیا تو سوکن آنے کیا دیر لگے گی، پس میر وچپ چاپ غلامی کی چکی میں پستی رہی۔ جانوروں کے لئے گھاس اکٹھا کرتی، تندور پر اتنے بڑے کنے کے لئے چالیس پچاس روٹیاں تھوپتی، گھر کے ہر فرد کی خدمت کرتی کہ یہاں بہو لائے ہیں اسی لئے تھے تبھی تولڑ کی کے وارث بیٹی کے رشتے کے عوض سو پچاس بھیڑ بکریاں لے لیتے تھے کہ سسرال میں کیا ہے اور سسرالی بھی یہ سود خوشی سے طے کر لیتے کہ لڑکی کے ساتھ یہاں جو سلوک ہو ، اس کے وارث سر نہ اٹھا سکیں۔ میر و کام سے تھک جاتی تو کبھی روتی کبھی آنسو پی جاتی مگر زبان سے ایک لفظ نہ ہیں۔ اللہ نے صبر کا اجر دیا۔ میر و کے چار بیٹے ہو گئے، اب وہ بیٹوں والی ماں تھی۔ بیٹے جو ایسی نعمت تھے جن کے ہونے سے سسرال میں عورت کی قدرو قیمت بڑھ جاتی تھی۔ وہ سب دکھ بھول کر ان کی پرورش میں کھو گئی۔ شوہر کی طرف سے بھی دل ٹھنڈا تھا۔ پیار تو کرتاتھا مگر سب کے سامنے میٹھانہ بول سکتا تھالیکن اکیلے میں ضرور دلجوئی کرتا۔ اکثر رات کو سب سے چھپا کر بھی اخروٹ کبھی چلغوزے کا اڑا لے آتا۔ کبھی خوشبودار پھولوں کے گجرے چھپا کر مٹی کی خالی ہانڈی میں رکھ دیا اور رات کو ان سے میرو کی کلائیاں سجادیتا۔ یہ تختی تو ساس کے جاگنے سے پہلے ہی یہ مرجھائے ہوئے پھولوں کے گجرے صندوق میں چھپادیں۔ کہیں ان کی خوشبو ساس ندوں کے نتھنوں تک نہ پن جائے۔ ایک روز اس کی ساس نے تین گائیوں کا دودھ دوھ کر بھری ہوئی بالٹیاں کمرے میں رکھ دیں اور خود جیٹھانی کے گھر چلی گئی ۔ میر و کاچوٹالڑ کار ونے لگا کہ مجھ کو دودھ دو۔ وہ بولی ۔ ذرا صبر کر ، دادی کو آ لینے دے، وہ اپنے ہاتھ سے سب کو بانٹے گی۔ ہمیں کبھی دے گی۔ لڑکے کو بھوک گئی تھی، وہ نہ مانا، ضد کرنے لگا۔ ماں صحن میں گئی تو پچ نے گلاس میں بالٹی سے دودھ نکالا اور پینے لگا۔ میر و کمرے میں واپس لوٹی، گلاس اس کے ہاتھ سے چھینے گئی لیکن وہ تقر یاسارا دودھ پی چکا تھا، گلاس میں دو گھونٹ باقی تھا۔ لڑکا گلاس ماں کو تھما کر باہر بھاگ گیا۔ یہ سوچنے گئی کہ اب یہ جھوٹے دو گھونٹ بالٹی میں نہ ملائوں۔ گرانا بھی ٹھیک نہ تھا، سو اس نے بچے کے بچے ہوئے دودھ کو خود پی لیا۔ شومئی قسمت اسی دم اس کی ساس کمرے میں داخل ہوگئی، اس نے جو بہو کولیوں سے گلاس لگائے دیکھا ٹھنک گئی۔ گلاس کے باہر دودھ لگا ہوا تھا۔ اس نے گلاس میرو کے ہاتھ سے چھین لیا اور شور مچانے لگی کہ میر و بالٹی سے دودھ کے گلاس نکال بھر بھر کر پی جاتی ہے۔ اس قدر واویلا کرنے گئی جسے اس نے بہو کو بد کاری کرتے پکڑ لیا ہو۔ بولی۔ مجھے کئی دنوں سے شک تھا کہ کولی دودھ پر آتا ہے، آج چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ جب گالیاں اور گو سے بھی کم پڑنے لگے تو وہ اس کو مارنے پر اتر آئی۔ تبھی وسیم گھر آگیا۔ اس نے جو ماں کو مارتے دیکھا۔ بیوی کا قصور پوچھا۔ بس پھر کیا تھا، اس کو زن مرید ہی نہیں، بے غیرت قرار دے دیا گیا۔ گھر پر ہی پنچائیت بیٹھ گئی، لاکھ وسیم نے کہا کہ کیا میری بیوی کا اتنا بھی حق نہیں جو سارے گھر کا کام کرتی ہے، جانوروں کو چار وڈالتی ہے، بھیڑ بکریوں کا گلہ سناتی ہے، سب سے بڑھ کر میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے، کیا ہوا جو اس نے ایک گلاس دودھ بالٹی میں سے لے بھی لیا تو اس گستاخی پر پنچایت کے بڑوں نے سر پکڑ لیا کہ اس بد لحاظ کو ہمارا بھی لحاظ نہیں ہے، کس قدر بے حیائی کی باتیں کر رہا ہے۔ برادری نے فیصلہ کر دیا کہ سگی بینی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس منہ زور ہو اور بیٹے کا غرور توڑنے کو اور ہولے آئے اور وسیم کی دوسری شادی کرادی جائے۔ انجام اس معاملے کا وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بہو کا سر جھکانے کو اس پر سوتن لانے کے انتظام ہونے لگے، وسیم خان کے تایا چپاور کے بڑے تھے ، انہوں نے مل کر اس کو دوسری شادی پر مجبور کیا۔ اس نے لا کھ منع کیا مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔ ساری برادری اس پر تھو تھو کرنے لگی۔ جو بیوی کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا اس کو سیدھی راہ پر لانا لازم ہے ورنہ یہ برباد ہو کر رہے گا۔ ماں بھی اس کی نافرمانی پر اسے بد دعائیں دینے گی۔ بالآخر و سیم خان اور اس کے والد نے ہتھیار ڈال دیئے۔ برادری کے لوگوں نے وسیم کا نہیں بلکہ اس کی والدہ کا ساتھ دیا تھا۔ جواں سال شادی شدہ افراد اسے کہہ رہے تھے کہ ابھی تو صرف ایک عورت اور چار بچے ہی تمہاری ملکیت ہیں اور تم ابھی سے بوڑھے ہو گئے ہو۔ یہاں کتنے بڑے ہوں تو مقام بنتا ہے۔ مرد جتنی زیادہ شادیاں کریں اتنی اولاد بڑھتی ہے۔ اولاد زیادہ ہو تو قبیلہ مضبوط ہوتا ہے۔ غرض اس قدر لعن طعن ہوئی کہ وسیم کو مجبور دوسری بار دولہابنا | پڑا۔ اس نے روتے ہوئے دل کے ساتھ سہرا باندھ لیا۔ وسیم بجھا بجھا تھا مگر ماں اور بہنیں خوش تھیں۔ باپ بھی برادری میں سر خرو تھا کہ گھر میں دوسری بہو گئی تھی جس نے مزید بیٹوں کو جنم دے کر قبیلے کی طاقت بڑھائی تھی۔ یہ نی بہو سگی بی بی کی وہی بھانجی تھی جس کو بہو دیکھنے کے اسے ارمان تھے۔ ارمان پورا ہوا دل میں ٹھنڈ ک پڑ گئی۔ میر واپنی کوٹھری میں شب بھر سکتی رہی۔ میر ونے حسب روایت بزرگوں کے فیصلے کا احترام کیا۔ اس نے نئی دلہن سے کوئی جھگڑا نہ کیا۔ سوتن سے جھگڑا بنتاہی نہ تھا۔ وہ اپنے گھر سے بھاگ کر تو اس کے گھر میں نہیں لکھی تھی ، نہ اس کے دل میں کسی کے لئے بغض و عناد بھرا ہوا تھا۔ وہ توبس اپنے بچوں کی اور اپنی خیر چاہتی تھی۔ وسیم نے دوسری شادی برادری کے دبائو میں آ کر کر تولی تھی لیکن وہ اپنی نی نویلی دلہن سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا جس پر اس کی ماں کو دلی تکلیف دیتی تھی، لیکن انسان اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے، وسیم بھی مجبور تھا کہ اس کی دل پسند زندگی کی ساتھی تو اس کی پہلی بیوی میر وہی تھی۔ اس کشمکش میں گھر جہنم اور زندگی موت بن گئی، بچے الگ پریشان تھے۔ میر و کونہ سہی اس کے بچوں کو تو سکھ چین اور گھر والوں کا پیار نصیب تھا۔ اب منی ماں کے گھر میں آجانے سے گھر والوں کی توجہ اس کی طرف رہنے لگی اور بچوں کی طرف ان کے پیار میں کی گئی۔ میر نے خود کو سمجھایا کہ اگر یہی ہم پہاڑی باسیوں کا طرز معاشرت ہے تو بس اسی طرح جیئے جائو اپنے بچوں کی خاطر ، جیسا کہ قبیلے کی اور عور تیں جیون بھی رہی تھیں۔ اور بھی تو یہاں کتنی ہی سوتنوں کے ساتھ صبر سے رورہی تھی۔ ساس جو سناتی وہ سن لیتی اور چپ رہتی۔ شوہر البتہ اب بھی پہلے جیا تھا۔ وسیم بدلا اور نہ اس کا پیار کم ہوا۔ پہلے بھی وہ تنہائی میں اس سے اظہار محبت کرتا تھا اور اب بھی تو کیا فرق پڑا جو اس کی زندگی میں ایک اور عورت آگئی۔ نئی آنے والی کے نصیب میں تو شوہر کے پیار کی وہ دولت نہیں تھی جس سے اس کی جھولی میں بھری ہوئی تھی۔ بالآخر ایک اور چال چلی گئی کہ اس کا پیار و غرور سبھی کچھ چھن گیا۔ قبیلے کی دور شتے دار بوڑھی عورتوں نے جو اس کی سوتن کی رشتہ دار تھیں، یہ گواہی دے دی کہ جب میرو کی ماں فوت ہوئی تھی تو وسیم کی ماں نے اس تین ماہ کی بلکتی روتی ہوئی بچی کو اپنی چھوٹی بیٹی کے جنم لینے کے کے کچھ عرصہ بعد ایک روز اپنا دودھ پلانے کی کوشش کی تھی۔ یہ امر وسیم کی ماں کو تو یاد نہ رہا تھا لیکن گواہی دینے والی عورتوں نے کہا کہ ہم کو یاد ہے یہ بات۔ اگرچہ یہ ایک مشکوک بیان تھا لیکن ہر قبیلے کے بزرگوں نے اپنے گائوں کے مولوی سے صلاح مشورے کی خاطر رجوع کر لیا جس نے کہا کہ اگرچہ پی نے وسیم کے ساتھ اس کی ماں کا دودھ نہیں پیالیکن اس کے بعد پیدا ہونے والی اس کی کسی چھوٹی بہن کے ساتھ اگر پی لیا تو بھی وہ اس کی دودھ شریک بہن ہوگئی۔ یوں اس کا وسیم سے نکاح جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ مزید کسی بڑے عالم دین یا مفتی کے پاس نہ جا سکے۔ اسی بیان پر اکتفا کیا کہ اگر معاملہ مشکوک بھی ہے تو اب وسیم اور امیر بی بی کو مستقبل میں بطور میاں بیوی ساتھ نہ رہنا چاہئے۔ گائوں کے مولانا نے تو میں بات کہی کہ دودھ شریک بہن بھائی میں نکاح جائز نہیں مگر یہ امر کو ئی ثابت نہ کر سکا کہ جو گمان این دو نوں کے بارے بوڑھی عورتوں نے ظاہر کیا ہے وہ درست ہے بھی یا نہیں، حتی کہ وسیم کی ماں بھی خود ہی کہتی تھی کہ خدا جانے ان بوڑھی عورتوں کو کون سا واقعہ یاد آیا ہے اب۔ جبکہ مجھے تو کیا کچھ دیا نہیں۔ یہ قبا کی تو پھر تعلیم سے دور تھے۔ وہ اسی بات پر کہ معاملہ مشکوک ہے، اڑ گئے۔ یوں بھاری میر کو اس کے شوہر سے دور کر دیا گیا۔ اس کا وسیم سے پردہ کروادیا گیا اور پھر طلاق بھی کرادی گئی۔ اس کے بعد جب تک میر وزند رہی ، نہ تو وہ اپنے شوہر کی شکل دیکھ سکی اور نہ بھی بات کر سکی۔ اس علیحدگی کے بعد اس کو بھی کسی نے ہنستے نہ دیکھا۔ بچوں کی خاطر اس کو علیحدہ مکان میں رکھا گیا اور خرچہ بھی دیا جاتا تھا لیکن وہ وسیم سے نہ مل سکتی تھی

 


Post a Comment

0 Comments