Search Bar

New Story Mera Ghur Rashk e Jannat Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

New Story Mera Ghur Rashk e Jannat  Teen Auratien Teen Kahaniyan


اگر زندگی کی حقیقتوں کا ذکر کیا جائے تومحبت، نفرت، بار جیت پانا مناسب چیزیں ہی زندگی کا چھ ہیں۔ ان دنوں ہم بھی زندگی کے ایک بچے کے ساتھ وقت گزارنے پر مجبور تھے کہ ہمارے والد، ہماری ماں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، تبھی اولاد کی پرورش ماں کی تنہا فہم ٹھہری تھی ج س کو امی نے ہر حال سر کر ناکتا۔ ہمارے رشتہ داروں م یں ایسا کوئی دیالوت تاجو ہماری زمب داری اٹھاتا۔ مجبوری انبان سے ہر کام کرواتی ہے۔ میری ماں جس نے زندگی میں بہت خوشحالی بھی اور بھی گھر سے تم نے نکالا کت۔ بالاتر وہ اپنے ایک دور کے رشتہ دار کے گھر پنپیں۔پ بھی اس وب سے دل میں امید لئے گتیں کہ یہ لوگ باقی ر شتہ داروں سے مختلف

ہیں اور ہمدرد دل رکھتے ہیں۔ پ انی کی دور کی کزن تھیں۔ ہم ان کو ناله نسترن کہتے تھے۔ انہوں نے امی کو دیکھتے ہی گلے لگا الباعزت واحترام سے بٹھایا۔ آئو بھگت کی، وہ توبانتی تھیں کہ جب ابو ہمارے باتھ رہتے تھے کسی شے کی کمی نہ تھی۔ ان کا اپنا بزن ت پ ر خدابنے کپاہوا کہ ان کو بزنس م یں گھاٹا ہو گی یا کسی کاڈر پڑ گیا کہ وہ روپوش ہو گئے۔ ایک دن ایسے گئے پھر لوٹے۔ دو سال تک میری ماں نے گھر سے تم نے نکالا... بالاحترجع پر بھی ختم ہو گئی اور ہم پرفاقتوں کی نوبت آئی۔ ہم پر بہن بھائی تھے۔ پانچویں اماں م یں آگے م زید گزارہ کیسے چلتا۔ بڑے بھائی نے مڈل پاس کیات۔ آگے پڑھانے کو بھی رتم در کار تھی سو ایسے میں ناله نسترن، والدہ کو اندھیرے میں امید کی کرن نظر آئیں۔ میں بھی ماں کے باتھ گئی تھی کہ م یں ان کی سب سے چھوٹی اولاد تھی۔ والدہ نے دل کھڑا کر کے ناله نسترن کو اپنے ح ال سے آگاہ کر دیا۔ وہ پھر تم بطور امداد دینے لگیں تو اماں نے کہا۔ نہیں بہن ! مجھےپ نہیں پا ہے۔ مجھ کو تو کوئی مستقل ذریب آمدنی در کار ہے، تا کہ عزت سے بچے روٹی کھا سکیں۔ انہوں نے پوچھا۔ زرینہ آپا، تم ہی کہو کہ میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟ تمہارا لڑکا بھی ابھی چھوٹا ہے، میٹرک پاس بھی نہیں ہے۔ کس طرح کی ملازمت کر پائے گا۔ مجھ کو اپنے گھر کا کام دے دو، میں صج آبائوں گی شام تک باراگھر سنبھال لوں گی۔ کیا کہہ رہی ہو آپ ؟ کیوں مجھے شرمندہ کر رہی ہو۔ تم میری بہنوں کے بیں ہو۔ کیا اب میں تم کو نوکرانی رکھوں گی۔ اس میں کیا حرج ہے۔ کام

تو مجھے کرناہے تمہارے گھر کا کپ، کسی اور در باکرہ کر لوں گی، تو غیروں سے پھر اپنوں کے پاس کام کرنا کسی ابر اہے۔ کم از کم یہاں میری عزت تو ہو گی۔ نسترن تالہ نے کچھ دیر سوپا، بالاتر انہوں نے اماں کی بات کو معقول بان کر ان کو اپنے گھر پر کام کے لئے رکھ لیا۔ لیکن ایک شرط پر کہ وہ ان کے مہمانوں اور پڑوسیوں کے سامنے پہ راز کھولیں گی کہ ان کی کزن ہیں۔ اس طرح ان لوگوں سے ان کو شرمندگی النی پڑے گی۔ وہ یہی سوچیں گے کہ اپنی عزیزہ کی مالی مدد کرنے کی بجائے اس کو نوکرانی بنالیا ہے۔ والدہ نے کہا۔ نسترنی مجھے منظور ہے میں اپنے کام سے کام رکھوں گی۔ تمہارے گھر میری عزت محفوظ رہے گی۔ دوسرے جانے کیا برا سلوک کریں، سہہ نہ سکوں گی۔ تمہار اگر تو میرا گھر ہے۔ یہاں کام سے مجھ کو غارت ہوگا۔ اماں نے نالہ کے یہاں نوکری اختیار کر لی۔ میرے بڑے بھائی سے کہا کہ تم میٹرک کر لو۔ تمہاری ناطر م یں نے کو نھی کا کام پڑا ہے۔ میری بڑی بہن نشینی کڑھائی سیکھنے ہنر مند اسکول ب نے گی۔ چھوٹا بھائی آٹھویں میں کھتا اور بڑانویں م یں۔ م یں نے پانچویں میں اسکول چھوڑ دیا اور ماں کے ساتھ ناله نسترن کی کوٹھی ب نے گی کیونکہ وہ اکیلی نہیں جاتی تھیں۔ نالہ کا گھر کافی دور کھتا اور ان کو پیدل دبانا ہو تاکتا۔ ناله نسترن بہت اغسل خاتون تھیں۔ ان کا اخلاق بہترین کھتا۔ وہ ہمارے ساتھ اپنوں جایابی لوک رکھتیں اور ماں کا احترام کرتیں جیسے بڑی بہنوں کا کیابتاہے۔ اماں نے رفتہ رفتہ ان کے گھر کا سارا کام سنبھال لیا۔ ان کے شوہر غیرتھے لیکن وہ بھی بہت اچھے آدمی تھے۔ ہماری مالی امداد وقتا فوقتا کرتے رہتے تھے۔ ہمارے محلے میں ایک کریات ا ور کھتا۔ والدہ اس سے سودا سلف لیا کرتی میں۔ ہم ان کو پاپا رمضان بلاتے تھے۔ پ مہربان دکان دار محلے داری کے سبب ہمارے حال کو بانتے ہوئے اکثر ادھار پر راشن دے دیا کر تاتا۔ اس کا ایک بیٹ ٹیلر ماسٹر تا۔ اس کی صدر بازار میں درزی کی دکان تھی۔ جب میرے بھائی شعیب نے میٹرک پاس کر لیا تو پاپارمضان نے اس کو اپنے بیٹے کے پاس سلائی کا کام سیکھنے کی خاطر ا س کی دکان پر بٹھادیا۔ وقت گزرنے لگا۔ میرے بھائی نے ہنر سیکھ لیا۔ اب وہ بھی ایک اچھا درزی بن گیا۔ ٹیلر ماسٹر نے ا س کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ وہ اچھی تنخواہ دیتا کیونکہ شعیب بہت عمدہ سلائی کر تاھت۔ گھر کے حالات کچھ سنجلے گئے تو ماں نے کچھ رتم جوڑنا شروع کر دی۔ پچھے نالہ نسترن نے مدد کی۔ اور میری بہن صبائ کی شادی ہو گئی۔ ان دنوں میری عمر بارہ سال تھی، میں ماں کے ساتھ کوٹھی باتیں۔ وہاں پرنالہ کی بیٹیاں امین اور سینی بابی کو دیکھتی۔ دونوں کا اختلاق اپنی ماں کی طرح بہت اچھاتا۔ وہ میرے ساتھ بہنوں کی طرح پیش آتی تھیں۔ میں ان کے ساتھ گزارا ہو اوقت بھی نہیں بھول سکتی۔ ان لوگوں سے م یں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان دونوں کو قیمتی اور خوبصورت لباس م یں دیکھتی تو میرا بھی دل کرتا کہ انہیں جیسے کپڑے پہنوں۔ وہ اکثر اپنے پہنے ہوئے اچھے اچھے کپڑے مجھ کو دے دیا کرتی تھیں۔ جن کو ہائی ٹھیک کرکے دیتا تو میں پہنتی۔پ کپڑے مجھ پر جاتے تھے لیکن ان کے دیئے کپڑے انبی

کے گھر پہن کر بانا مجھے اچھانے لگتا۔ تب میں اپنے کم قیمت کپڑوں کو اچھی طرح دھو کر استری کر کے پہن کر باتیں۔ وہ کہتیں کہ تم نے ہمارے والے کپڑے کیوں نہیں پہنے؟ تو بہانہ کرتی کہ امی کہتی ہیں تم ایسے اچھے کپڑے پہن کر میرے ساتھ آتی باتی ہو تو لوگ ہم کو گھورتے ہیں۔ اس لئے وہ کپڑے م یں اپنی بہن اور سہیلیوں کے گھر ہی پہن کر باتی ہوں۔ امین بانی اور بینی بابھی کے ساتھ رہ کر م یں گفتگو کے ادب آداب سیکھ گئی تھی۔ انہی کی طرح کار کھ رکھائو ، اٹھتا بیٹھتا، طریقت ، تمیز اور اچھا کھانا بنانا، عمده طریقے سے مہمان کو پیش کرنا، کبھی وصف سیکھ لئے تھے۔ اب جو مجھے دیکھتا میری تعریف کرتا۔ خاص طور پر میری ایک نالہ جویری جو نزدیکی گائوں م یں رہتی تھیں وہ مجھ کو بہت پسند کرتی تھیں۔ جب آتیں، گلے سے لگا میں اور میری بے حد تعریف کرتیں۔ ہمارے رشتے داروں کو علم تا کہ ایسی کسی گھر میں کام کرتی ہیں۔ وہ یوں بھی بہت کم آتے۔ کبھی عید پر کوئی تباتا تو حیران رهیب تا کہ اس لڑکی کی تو بہت اچھی تربیت ہوئی ہے۔ طریق تمیز اعلی درجے کا ہے۔ ابھی میرے لئے کم عمری سے ہی ارثة آنے لگے۔ میرے انداز اور عادتیں رشتہ داروں کو چونکا دیتے تھے۔ مجھ میں کوئی کمی نہ تھی بس ایک شے کے سوا کہ میری رنگت گوری نہ تھی جبکہ میرے نقوش خو بصورت تھے ، رنگت سانولی تھی اس وب سے میں دباباتی تھی۔ ایک بار، اتوار کا دن کتا۔ اطلاع ملی کہ میری پچ پچھو جو گائوں م یں رہتی تھیں فوت ہو گئی ہیں۔ امی اتوار کے دن کو بھی نہیں جاتی تھیں لہذا انہوں نے فوتگی پر بانے کی تیاری کر لی۔ بولیں۔ عذرا تم بھی ساتھ چلو تمہارے بھائی دکان پر ہیں۔ اکیلے بانے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ م یں ان کے ساتھ گائوں روانہ ہو گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کارسته ات۔ ہم تھوڑی سی دشواری سے پانچ گئے۔ کچھ دیر فونگی والے گھر بیٹھے، امی کا دل گھبرانے لگا۔ تریب ہی ان کی ایک اور کزن نالہ جویری کا گھرتا۔ وہ بھی وہاں بھی تھیں۔ جب وہ گھربانے لگیں، امی سے کہا۔ میرے ساتھ چلو۔ تھوڑی دیر وہاں آرام کر لینا۔ شام کو دوبارہ آبنا۔ امی تو نہیں پا رہی تھیں۔ وہ تالہ کے ساتھ ان کے گھر چلی جائیں جو تریب ہی تا۔ ہم ان کے گھر کے دروازے پر پہنچے دروازہ بندیتا۔ نالہ نے اپنے گھر کا در کھٹکھٹایا۔ چند لمحوں بعد ایک نہایت خوبصورت لڑ کا دروازے پر آیا۔ تھوڑی سی جھجک کے ساتھ ہم کو سلام کیا اور حبانے کا رستہ دیا۔ گھر کے اندر داخل ہوئے تو باقی افرادنے بھی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ اس نالہ کے گھر میں پہلی م رتبہ آئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ دروازہ کھولنے والا ان کا چھوٹا بیٹا ہے۔ ا س کا نام ہمایوں ہے۔ ہمایوں کو دیکھ کر مجھ کو نجانے کیا ہوا کہ میرے دل نے اس کی طرف کشش محسوس کی، یوں جیسے میں ا س کو برسوں سے باتی ہوں۔ نالہ کی دونوں بہوئیں بھی بہت اچھے اخلاق کی تھیں۔ انہوں نے ہمارے لئے کھانا تیار کیا۔ اور مجھ سے باتیں کرنے لگیں۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا، لیکن میرا دھیان کھانے سے بڑھ کر اس کمرے کی طرفت جہاں تالہ کا بیٹا ہمایوں گپاتا۔ نالہ کا گھر بہت اچھاتا۔ جس میں خوشحالی تھی، سکون کھتا اور پیار و محبت مراسلوکیتا۔ مجھی کچھ توتا اس پار دیواری کے اندر مجھ کو ان کے گھر کا ماحول اتنا اچھاگاہی پایا کہ ہمیشہ کے لئے یہاں رہ حب ائوں۔ کچھ دیر بعد ہم کو دوبارہ فوتگی والے گھر بناتا۔ لیکن میرادل وہاں حبانے کون پاه ربانتا۔ تاہم مجبوری تھی بانا توتا۔ بی پایا کہ ا س گھر سے بانے سے قبل ایک بار اور ہمایوں کو دیکھوں مگری خواہش پوری نہ ہوئی کیونکہ وہ باہر آیاہی نہیں۔ م یں باتے ہوئے اس کا دلکش سراپا آ نکھوں میں لئے ان کے گھر سے نکل پڑی۔ نیلی پیٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس وہ خوبصورت لڑکا چور دروازے سے دل میں دال ہو گپ کتا۔ اس نے میرا پین پرالیا اور مجھ کو خبر نہ ہوئی۔ اس کے بعد میں اس کو بھول کی۔ اس واقع کو تین سال گزر گئے۔ نالہ ایک مرتبہ کسی کام سے ہمارے گھر آئیں۔ مجھ کو ان کے آنے سے بے حد مسرت ہوئی۔ میں نے ان کی خوب تواضع کی، سب کا حال پال پوچھا۔ سب کی مصروفیات پوچھیں تو انہوں نے بتایا کہ باقی تو سب ویسے ہی ہیں، بس چھوٹے بیٹے ہمایوں کی رسم منگی کچھ دنوں م یں ادا ہو گی۔ آپ لوگوں نے بھی ہماری خوشی م یں شامل ہونا ہے۔ ہمایوں کی منگنی کے بارے م یں سن کر میری بنیاد پر کی اوپر اور نیچے کی پیچھے رہ گئی۔ نالہ کے ا س بیٹے کا نہیں تو نام کتا۔ وہ اپنے بیٹے کی منگنی کا بلاوا دینے آئی تھیں۔ م یں تو پھر ان کے پاس بیٹھت کی۔ اٹھ کر صحن میں چلی گئی۔ آنسو بے بات میری آنکھوں سے بہنے لگے۔ کافی دیر تک روتی رہی۔ حیران تھی کہ ایک جھلک ہی تو ا س کی دیکھی تھی۔ مجھ کو ا س کے ساتھ کچھ ایسی شدید محبت تھی، کوئی راہ رسم بھی نہ تھی، پھر کیا ہوات مجھ کو ؟ میں پاگل نہ تھی، اب احساس ہوا کہ محبت تو محبت ہوتی ہے راہور سمن بھی ہو درد تو دیتی ہے، خوامخواہ مجیب کی الجھن اور چین دل م یں اتر کر روح کاحص بن گئی۔ اب جبب خیال آتا کہ کچھ دنوں بعد ہمایوں کی منگنی ہے تو نس رکنے لگتا۔ اس کی منگنی سے ایک دن پہلے امی نے گائوں باتھ پانے کا کہا۔ م یں نے انکار کر دیا۔ نیب کی ویرانی چھائی تھی، میں نے کہا کہ طبیعت ٹھیک نہیں، اماں۔ م یں نے بنوں گی آپ حبیب کے ساتھ پلی بایئے۔ ای پلی گئیں۔ کچھ گھر کے کام سے لگا گتیں، میں نے کوئی کام نہ کیا اور خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی۔ روتی رہی، اگلے دن میری اداسی کو، کوٹھی والوں نے بھی محسوس کپ لیکن کسی کو کیا بتاتی کیوں اداس ہوں۔ امی نے مجھے از خود ہمایوں کی منگنی کا حال بتایا کہ کھاتے پیتے گھرانے کی خوبصورت میٹرک پاس لڑکی سے منگنی ہوئی ہے۔ منگی کا بڑا اچ فنکشن عتا۔ ہمایوں بھی بہت خوش لگ رہاھتا۔ اسے اور کیاپا ہے کھتا۔ اتنے اچھے گھر میں رشتہ ہواہے۔ ماں کے یہ الفانا میرے دل م یں جالے کی طرح لگے اور دل ڈوبنے لگا۔ کئی دنوں تک نجلت کی۔ انہی دنوں میرے لئے ایک رشتہ آیا۔ لڑکا ایف اے پاس اور کسی فیکٹری میں ملازم کتا۔ بہت اچھی اس کی تنخواہ تھی۔ میں اس کا موازنہ ہمایوں سے کرنے گی۔ ہمالیوں میٹرک پاس کمت، یکن وہ بہت خوبصورت کتا اور کتا بھی زیادہ است۔ م یں نے ا س رشتے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بانے کیوں میراذہن کسی کے لئے نہیں مان رہا کتا۔ ادھر م یں نے رشتے سے انکار کیا اور ہمایوں کی شادی کا کارڈ آگیا۔ مجھ کو لگا کہ میری بد قسمتی میں اضان ہو گیا ہے۔ اس کے پندرہ روز بعد شادی تھی مجھ کو پچھا بھی اچھا نہیں لگ رہاھتا۔ اس کی شادی پر امی کو بناہی عتا۔ میرابالنے کا پروگرام نہیں کتا لیکن میرا ہمایوں کو دیکھنے کو ہی سپاه ر پاتا۔ سوپا کہ صرف ایک م رتب اس خوش قسمت لڑکی کو بھی تو دیکھوں جو اس کی دلہن بنے بارہی تھی۔ م یں بھی اسی کے ساتھ بانے کو تیار ہو گئی۔ گائوں میں تدم رکھتے ہی میری بے کلی میں اضافہ ہو گیا۔ ہمایوں کو دیکھا، لگا کہ یہ تو پہلے سے بھی نکھر گیا ہے۔ اس نے بھی سرسری نظر سے مجھے دیکھا، میں نے دوبارہ نظر ملانے سے نگاہیں پرالیں، چپ چپ سیٹھی رہی اور لڑکیاں تو بہن بول رہی تھیں مگر م یں انحبان بنی رہی۔ بارات کے دن جب نکاح کے بعد ہمالیوں اور ا س کی دلہن کو بٹھا کر رسموں کا آغاز کیا گیا تو میری آنکھوں میں گویا نوں م رچیں بھر گئی ہوں۔ گہرے رنگ کے پینٹ کوٹ میں بالوں اور سرخ رنگ کے ہنگے میں اس کی زندگی کی بھی دونوں ہی خوبصورت لگ رہے تھے۔ ا س کی بیوی کا رنگ بہت ہی گورات۔ مجھ کو جیب طرح کے احساس نے گھیر لیا۔ جو کہ ملا، احساس کمتری جیابی محتا۔ جیسے تیسے شادی اختتام پذیر ہوئی اور ہم نے بانے کو سامان باندھا۔ لیکن میرےت موں میں کسی نے زنجیریں ڈال دی ہوں جیسے تم اٹھتے تھے۔ میرا اپنا دل بی میں نعت۔ عجیب کشش تھی، ایک بٹن تھی، اس گھر میں، اس گائوں میں، ان گلیوں میں لیکن واپس تو آناہی عتا۔ دل سے ہمایوں کا خیال بھی او محمل نہ ہو ا۔ لاکھ پہا، پھر بھی نہیں گھر آکر میرا دل نہیں لگا۔ میں نے سامان باندھا اور اپنی پچ پچھو کے گھر شکر گڑھ رہنے چلی گئی۔ م یں ایک ماہ کا سوچ کر آئی تھی۔ پچھو کی بیٹی سونیا پڑھائی میں مصروف تھی، ا س کے پرچے ہونے والے تھے اور پچھو کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھیں۔ م یں ایک ماہ کی بجائے دوماہ گھرن با کی اور پھر جب سونیا کے پرچے ختم ہو گئے تب وہ اور اس کی امی مجھ کو خود میرے گھر چھوڑنے آئیں۔ گھر آکروقتی طور پر جھولا ہو اد کھ یاد آگیا، وہ دگرفتگی جس کو دور کرنے کی خاطر م یں شکر گڑھ گئی تھی پھر سے مجھ پر حملہ آور ہو گئی۔ امی نے چھوسے کہا۔ اچھا ہو ا س کو لے آئی ہور ت میں خود آنے والی تھی۔ وہ بولیں۔ کیوں خیریت؟ جو رشتہ آتا ہے انکار کر دیتی ہے۔ اب اس کی غیر موجودگی میں، میں نے رشتہ طے کر دیا ہے۔ یہ مانے نہ مانے، شادی کرنا ہو گی۔ م یں کب تک اس کو بڑھانے رکھوں گی۔ تم اس کو سمجھا کر حبانا اب میں انکار ست سنوں گی۔ یہ سن کر میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے م یں چلی آئی۔ خوب روئی، پھر خود دل کو سمجھایا کہ تیری ماب بیوہ ہے، اچھے خاندان سے ہو کر بھی تمہاری ناطر دوسروں کے گھر کے برتن مانجھتی ہے۔ شرم کرو۔ ہمایوں کی شادی ہونا تھی ہو گئی، ا س نے کب تم کو پایا ہے۔ عقل کے ناخن اب ن لئے تو لوگ بھی پھر تم کو سمجھانے آئیں گے۔ سوچپ ہورہی، نہ تو یہ پوچھا کہاں رشتہ کیا ہے؟ کس سے کیا ہے؟ اور نہ دولہا دیکھنے کی آرزو کی ماں سے کہہ دیا کہ جہاں اور جس سے شادی کرنی ہے کر دو اور مجھ سے کچھ مت پوچھتا۔ م یں نے سنا بھی کہ لڑکے کی ماں آئی ہے۔ دو عورتوں کے ساتھ نالہجویری اگتیں۔ میں سمجھی کہ ان عورتوں میں سے کسی کے لڑکے سے رشتہ طے ہواہے شاید۔ نالہ کے ذریبی رشتہ طے ہوا ہو گا تو وہی ساتھ آئی ہیں ورنہ ان کے بیٹے کی شادی تو تین پارماہ قبل ہو چکی تھی۔ جب مہندی کی چیزیں لائے تب بھی تالہ آگے آگے عور تیں باتیں کرنے لگیں کہ ا س کے لڑکے کی دو ماه قبل طلاق بھی ہو گئی ہے۔ یہ کیا؟ میں حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے گی کہ کیا چند دنوں بعد طلاق بھی ہوجاتی ہے؟ اس کے بعد کیا باتیں ہوئیں، مجھے ہوش نہیں تا کہ م یں وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھی۔ واقعی تین دنوں کے اندر میری مہندی، پھر رخصتی بھی ہو گئی، اسی بھائیوں کے ساتھ جس سے میرے دل کی گرہ بندھی سسرال آ کر پتاپلا کہ اس کی بیوی اچھی لڑ کی نہ تھی۔ اس کے والد نے زیادہ حق مہر لکھوایا۔ ا س روز بھی آن بنی ہوئی تھی۔ آتے ہی لڑکی نے گڑ بڑ شروع کر دی۔ اپنے گھر والوں کو عنط شکایتیں کیں۔ وہ بھی جھٹک گئے اور ہر طرح کے الزامات شروع کر دیئے۔ گھر میں خوب رول ڈالا اور گڑ کر چلی گئی۔ اس کے والدین نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ معاملہ کورٹ تک لے گئے اور ہمایوں کو طلاق دیتے ہی بنی۔ حق مہر کی بڑی رتم کی ناطر اس بد نصیب لڑکی کا گھر بٹ گیا۔ نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ کون خوش قسمت ہے اور کون بد قسمت؟ یقیناوی بد قسمت تھی کہ جس کے والدین نے بھی سمجھداری سے کام نہ لیا۔ وہ بھی ماں باپ کے پیچھے اپنے اچھے بھلے گھر کو ٹھوکر مار کر چلی گئی۔ ہمالیوں کی دوبارہ شادی کا سلسلہ پلا توجویری نالہ کو م یں یاد آگئی۔ ہمایوں سے مشورہ کپ اس نے ان کی رائے سے اختلاف نہ کیا۔ یوں مجھ کو میری م راد مل گئی۔ ہم دونوں خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمارے دو بچے ہیں، مگر میں اس لڑکی کا گھراب اڑنے کی ذمہ دار نہیں، لیکن اللہ نے میری خوشی کو پورا کر ناتا، سوپ انبانی راحت مجھ کو ملی۔ سچے دل سے نکلی دعا اور کچھ خواہشیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس طرح پوری ہوجاتی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ 

Post a Comment

0 Comments