Search Bar

Andhere Main War Urdu Story Inpage Story

 

Andhere Main War Urdu Story Inpage Story


یہ میرے والد کی داستان حیات ہے۔ ہم زمیندار لوگ ہیں۔ میرے دادا نے کا فی زمین چھوڑی تھی جس کا تنہا وارث میراباپ بنا کیو نکہ دادا کی صرف ایک ہی اولاد نرینہ تھی۔ باقی اولادیں جو لونڈیوں باندیوں سے ہوئیں، اس کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملا۔ میرے والد کی شادی دادا جان نے پندرہ سال کی عمر میں کر دی تھی۔ اس وقت وہ صاحب شادی کے مفہوم سے بھی ناآشنا تھے۔ میری والدہ میرے والد سے عمر میں تقریبا دس سال بڑی تھیں۔ جب میرے بابا جان جیون ساتھی کے تصور سے آگاہ ہوئے تو والدہ ڈھلتی عمر کے کنا ہم دو بھائی اور ایک بہن تھے، دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ لہذا ہماری پرورش بہت ناز و نم سے ہورہی تھی۔ گھر بھی بظاہر پر سکون نظر آتا تھا۔ میری والدہ شریف الطبع خاتون تھیں۔ انہوں نے بھی والد صاحب سے جھگڑانہ کیا اور نہ ہی ان کی غیر معقول قسم کی سرگرمیوں پر روک ٹوک رکھیا۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں کا وقت اچھا گزر رہا تھا۔ امی جان کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بابا جان نے دوسری شادی بھی نہ کی، یہاں تک کہ ہم تینوں بچے جوان ہو گئے۔

 ان دنوں میں اٹھارہ سال کی اور میرا بڑا بھائی میں سال کا تھا جب یہ واقعہ ہوا۔ ہمارے گائوں سے کچھ میل دور ایک قبیلہ آباد تھا۔ ہم ان لوگوں کو زیادہ نہیں جانتے تھے ، بس انہوں نے ہمارا اور ہم نے ان کا نام ہی سن کر رکھا تھا۔ اس قبیلے میں ایک شادی ہوئی تو میرے باباجان کو دعوت ملی۔ یہ دعوت انہوں نے بابا جان کو اس لئے بجھوادی تھی کہ وہ علاقے معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ چونکہ قبیلے والے باباجان کوایک باعزت شخصیت گردانتے تھے۔ انہو نے بڑی آئو بھگت کی اور نکاح کے وقت کچھ آدمیوں کے ہمراہ ان کو بھی اندر کمرے میں بھیج دیا کہ آپ دلہن سے نکاح کا عندیہ لیں۔ نیز مولوی صاحب نے بھی کہا کہ آپ چونکہ بزرگ ہیں اس لئے آپ لڑ کی سے پوچھیں کہ تم کو فلاں کے لڑکے کے ساتھ رشتہ منظور ہے یا نہیں۔ ۔ جب میرے بابا جان نے اس و ہن جنداں سے پوچھا کہ تجھ کو فلاں ابن فلاں کے ساتھ یہ نکھار صاف انکار کر دیا کہ مجھ کو ہر گز یہ شخص بطور شوہر منظور نہیں ہے۔

میرے ساتھ زبردستی ہورہی ہے۔ یہ سنتے ہی وہاں برادری میں شور مچ گیا۔ لڑکی کے باپ اور بھائیوں نے کلہاڑیاں سونت لیں کہ آج ہم اس کے ٹکڑے کر ڈالیں گے۔ اس نے بھری برادری میں ہماری عزت خاک میں ملادی ہے۔ اس دن اگر بابا جان بطور معزز مہمان موجودنہ ہوتے تو یقین و در عین اسی وقت ختم ہو جاتی مگر قبیلے والے مہمان کی بات کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ بابا جان نے کہا کہ دیکھو بھائیو یا تم مجھ کو اس شادی میں مدعو نہ کرتے اور اب اگر تم نے مجھے اس قدر عزت بخشی ہے تو میری رائے کا احترام بھی تم پر لازم ہے۔ تم لڑکی کو قتل نہیں کرو گے۔ میں اس لڑکی کی جان کی امان چاہتا ہوں، باقی جو شرط تم رکھو وہ مجھے منظور ہے۔ کچھ مردوں نے شور مچایا کہ نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم ایسی عورت کی زندگی کی امان نہیں دے سکتے جو اس قدر بے حیا ہے۔ اس کا قتل کیا جانا ہی ٹھیک ہے تاکہ آئندہ کبھی کوئی عورت اس قسم کی جرات دو بار نہ کر سکے۔ لڑکے والے خاص طور پر اس بات پر مصر تھے کہ دلہن جنداں کے بھائی اس کو فورا قتل کر کے خود تھانے میں پیش ہو جائیں۔ دلہن کے باپ نے کہا غیرت مند کے لئے پانی کا چند اشجاعت کا نشان ہوتا ہے۔

کم از کم برادری اور قبیلہ والے تو ایسے مردوں پر فخر کرتے ہیں۔ باقی قانون کیا کہتا ہے، اس کی ہم کو پروا نہیں۔ بڑا

ہنگامہ ہوا، بابا جان کسی صورت لڑکی کے قتل کئے جانے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ اس دروازے کی چوکھٹ پر سے ہٹتے ہی نہ تھے۔ بابا جان کے اصرار اور سمجھانے پر بالآخر جنداں کے باپ اور بھائیوں نے کلہاڑیاں نیچے کر لیں لیکن انہوں نے لڑکی کو اپنے گھر رکھنے سے انکار کر دیا۔ باباجان نے لڑکی کی جان بخشی کے عوض اپنے پلے سے تاوان کی رقم جو انہوں نے برادری کے مشورے سے طے کی ادا کر دی اور جنداں کو اپنے گھر لے آئے۔ جنداں بڑی خوبصورت تھی ۔ وہ اندھیرے کمرے میں بیٹھتی تو اس کا چہرہ ایسا چمکتا تھا کہ جیسے تاریکی میں دینے کی لو۔ جب وہ بابا جان کے ساتھ گھر آئی تو اس کو دیکھ کر ہم سب کی آنکھیں چکا چوند ہو

گئیں۔ میری بہن اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ گھر میں اس کی ہم عمر آگئی تھی۔ مگر ماں کا رنگ جنداں پر نظر پڑتے ہی سنولا گی اور وہ دل پر ہاتھ رکھ کر جہاں کھڑی تھیں وہیں بیٹھ گئیں۔ مردہ آواز میں اتنا پوچھا کہ یہ کون چھو کر کیا ہے ؟ باباجان نے جواب دیا شہزادی! رنج نہ کر یہ تودو دن کی مہمان ہے۔ آج یہاں رہے گی۔ میں ہوتے ہی چلی جائے گی۔ لیکن صبح ہوتے ہی بابا جان نے اس سولہ سال کی روپ متی سے نکاح کر لیا اور میری ماں ان کے دل سے ایسے اتر گئیں جیسے کوئی اپنے تن سے میلے کپڑے اتار کر پرے پھینک دیتا ہے۔ باباجان اگر ذرا ہوش مندی سے کام لیتے تو نوبت یہاں تک نہ ہوتی۔ وہ چنداں کو اس کے مقام پر رکھتے اور جو مقام اس گھر میں میری ماں کا تھا، انہیں اسی پر رہنے دیتے۔ مگر جنداں کے حسن کا فسوں ایسا تھا کہ وہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔

باباجان کو سوائے اس کے کوئی اور نظر ہی نہ آتا تھا۔ جیاوہ کہتی تھی وہ آنکھ بند کر کے مان لیتے تھے۔ اب گھر کی عبارانی میری ماں نہیں بلکہ جنداں تھی اور میری ماں کی حیثیت اس کے سامنے نوکرانیوں جیسی ہو گئی۔ ماں اس بات کو برداشت نہ کر سکیں اور پیار ہو کر پینگ سے لگ گئیں۔ ان کی حالت دن بدن بڑھتی ہی جارہی تھی اور باباجان کو ذرا بھی اس بات کی پروانہ تھی کہ اس کے بچوں کی ماں جیتی ہے کہ مرتی ہے۔ ماں کھل کھل کر ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہورہی تھیں اور باباجان انہیں ڈاکٹر د کھانے کے بھی روادار نہ تھے جیسے وہ خود ہی چاہتے ہوں کہ یہ جلدی ہی ایسی آگ میں جل کر ختم ہو جائے۔ اس پر جنداں تھی کہ پائوں زمین پر نہ رکھتی تھی۔ ہم سب کو بھی وہ اپنانو کر اور نظام ہی سمجھتی تھی۔ ہم جو ناز و نعم سے پلے تھے وہ ہم سے اپنے جوتے تک اٹھوانے گئی تھی اور ایسے چھوٹے موٹے اور گھٹیا کام کرنے کو کہتی تھی جیسے وہ ہماری حیثیت کو گھٹانے کا تہیہ کر چکی ہو۔ اگر ہم اس کا حکم نہ مانتے تو باباجان ہم کو برا بھلا کہتے اور مارنے تک سے گریز نہ کرتے۔

ہمارا جیب خرچ انہوں نے بند کر دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو، جو چھ مانگنا ہو اپنی چھوٹی ماں سے مانگو۔ تمہارا جیب خرچ بھی وہی تم کو دے گی۔ برداشت کی حد ہو چکی تھی۔ ہمارے نانا ماموں اور چا بھی نہ تھے کہ ہم ان کے یہاں بھاگ جاتے رہنا نہیں تھا اور بے عزتی نہ سہی جاتی تھی۔ ماں مردہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بستر پر سسک رہی تھی۔ وہ میرے

والد کے ماموں کی بیٹی تھیں اور باپ کی طرف سے ترکہ میں بہت کچھ لائی تھیں۔ اس کےباوجود میرے بے وفا باپ کے ہاتھوں اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہو چکی تھیں۔ ماں کے تمام زیورات جنداں کے قبضے میں تھے۔ میرے معصوم بہن جب ماں کی ایسی حالت و میتی تھی تور ور و کر دیوانی سی ہو جاتی تھی۔ میرا بھائی قاسم خانے کا بہت تیز تھا۔

بے شک وہ بابا جان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا تھا لیکن اس کو باپ کی اس بڑھاپے کی شادی کا بہت صدمہ تھا۔ وہ مجھ کو کہتا تھا کہ آئمہ ! میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ میں جنداں کو جان سے مار ڈالوں گا۔ یہ ڈائن ہے جس نے ہماری خوشیوں کو نگل لیا ہے اور میں اس کو تسلی دی کہ صبر کرو۔ باباجان کی زندگی کتنے روز کیا ہے؟ اس کے بعد ہم جنداں کو دیکھ لیں گے۔ ایک دن بابا جان زمینوں کا حساب دیکھنے جارہے تھے کہ انہوں نے ہم دونوں کو بھی اپنے ساتھ لیا اور کھیتوں پر آگئے۔ ہماری زمین گائوں میں تھی اور گھر تیس چالیس میل کے فاصلے پر تھا۔ باباجان نے کہا کہ فصلوں کا حساب کتاب کرنا ہے اور مزارعوں میں ان کا حصہ تقسیم کرنا ہے۔ المذاچند دن یہاں رہنا ہو گا۔ ایک دن گزارا، میں بڑے بھائی قاسم کی بے چینی کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ مجھ کو سخت مضطرب نظر آتا تھا جیسے کسی نے شیر کو پنجرے میں بند کر دیا ہو۔ وہ یہاں بابا جان کی پابندیوں کے ساتھ شہر نانہیں چاہتا تھا۔ شام سے کچھ پہلے وہ کہنے لگا۔ میرے پیٹ میں شدید درد ہو رہا ہے ، میں واپس جانا چاہتا ہوں تا کہ علاج کرا سکوں۔ اس کا اضطراب اور پریشانی دیکھ کر باباجان نے قاسم بھائی کو جانے کی اجازت دے دی۔

مگر تاکید کر دی کہ طبیعت ٹھیک ہو جائے تو فور واپس لوٹ آنا۔ قاسم چلا گیا۔ میرے تو وہم و گمان میں کبھی نہ تھا کہ وہ خوفناک ارادے سے گھر لوٹ گیا ہے۔ رات کو جہاں جنداں سوتی تھی آج وہاں میری بہن سکینہ سورہی تھی۔ یہ جنداں کا بستر تھا، اسی کا کمرہ تھامگر بستر پر جنداں نہیں بلکہ سکینہ تھی۔ جندال نے اس روز میری بہن سے کہا کہ سکینہ تیرا با باز مینوں پر گیا ہے۔ بڑی خوابگاہ میں مجھ کو اکیلے سونے سے ڈر لگتا ہے، تم آج میرے ساتھ آ کر سو جائو۔ میری والدہ کے پاس ان کی خدمت گار سوتی

تھی۔ لذا میری بہن سوتیلی ماں کے کہنے پر اس کے کمرے میں سونے چلی گئی ۔ نہ جانے قاسم کے دل میں نفرت کی آگ کب سے بھٹک رہی تھی، آج اس کو موقع مل گیا۔ یہ رات ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ ہمارے گائوں میں بجلی نہیں تھی، گھر میں مکمل اندھیرا تھا۔

وہ باڑے کی دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوا۔ اس نے سیدھا جنداں کے کمرے کا رخ کیا اور اندھیرے میں کلہاڑی تول کر اس پر وار کر دیا۔ بہن سکینہ بے چاری سسکی بھی لے نہ سکی۔ میر ابھائی قاسم اس کو سوتیلی ماں سمجھ کر کلہاڑی سے ٹکڑے کر کے چلتا بنا۔ سویرے نوکر ہانپتا کانپتا ہوا آیا۔ بابا جان کو اس نے صورت حال بتلائی ۔ ہر طرف اس واقعہ کی دھوم مچ گئی کہ بھائی نے بہن کو قتل کر دیا ہے۔ گائوں میں جب کوئی باپ یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کو قتل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آوارہ اور بد چلن تھی۔ حالانکہ بات اتنی تھی کہ جب سکینہ جنداں کے پلنگ پر سوگئی تو جنداں کاڈر پھر بھی دور نہ ہوا۔ شاید چھٹی حس آج اس کی رہنمائی کر رہی تھی یالہ کو اس کی زندگی منظور تھی اور سکینہ کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ جنداں وہاں سے اٹھ کر خواب گاہ سے متصل کمرے میں جاسوگئی کیونکہ وہ کمرہ زیادہ محفوظ تھا۔ شاید قاسم اس کے بعد کہیں ایسی جگہ روپوش ہو جاتا کہ پولیس اس کو گرفتار نہ کر سکتی۔ ہم زمیندار لوگوں کے بہت سےٹھکانے ہوتے ہیں۔ روپے پیسے کی برکتوں سے ایسے معاملات و با لئے جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد لوگ بھول بھول جاتے ہیں کہ کچھ ہوا تھا۔ لیکن قاسم کو یہ اس لئے گوارانہ ہوا کہ اس طرح اس کی مرحومہ بہن پر انگلیاں اٹھائی جاتیں اور اس کو آوارہ اور بد چلن کہا جاتا بلکہ وہ بے گناہ اور معصوم تھی۔

پس وہ خود ہی تھانے حاضر ہو گیا۔ اس نے اقرار جرم کر لیا کہ وہ اپنی سوتیلی ماں جنداں کو مارنا چاہتا تھا لیکن دھوکے سے بہن پر وار ہو گیا اور وہ ماری گئی۔ شاید قدرت کو ہی منظور تھا۔ بھائی کو پھانسی کی سزا ہوگئی۔ ماں صدمے کو برداشت نہ کر سکیں اور ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ بعد میں ان کا انتقال ہو گیا۔ والد صاحب بھی اس کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ ان کے مرتے ہی جنداں ہمارا گھر چھوڑ کر چلی گئی اور میں بد بخت یہ سارے صدمات سہنے کے لئے اکیلی ہی رہ گئی۔

 


Post a Comment

0 Comments