Search Bar

Ab Mera Koi Nahi | اب میرا کوئی نہیں ,Famous Stories TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN,



Ab Mera Koi Nahi | اب میرا کوئی نہیں ,Famous Stories TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN,

میں سروس کرتی تھی، اسی لئے شہزاد سے مانا میرے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ہم رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے مانوس ہوتے گئے۔ اس کی دکان پر اکثر میں ضرورت کی اشیاء خریدنے جایا کرتی تھی۔ یہ بات مجھ پر اس نے بہت بعد میں عیاں کی کہ وہ شادی شدہ ہے ، اب کیا ہو سکتا تھا۔ ہم دونوں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا۔ شہزاد ایک بیوی کا شوہر ہی نہیں، پانچ بچوں کا باپ بھی تھا۔ مگر میں اس کی محبت میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ مجھے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔


 میں نے تو اب اس بات کی پروا کر نا چھوڑ دی تھی کہ میں کشتی پر سوا ہورہی ہوں۔ رسوائی کے افسانے جب زبان زد عام ہو چکے تب میں نے محسوس کیا کہ عزت سے جینے کے لئے شادی کی بات کرنی ہی ہو گی۔ اس نے تو اس معاملے میں منگنیاں منہ میں ڈال لی تھیں۔ میں نے شہزاد کو مجبور کرناشروع کر دیا کہ مجھ سے نکاح کر لو ورنہ لوگ ہم کو جینے نہ دیں گے۔ وہ کہتا کہ میرا کوئی بڑا کار و بار نہیں ہے ہی ایک چھوٹی سی دکان ہے اور بس۔ اس معمولی و کان سے میں دو گھروں کا خرچہ کیونکر چلا پائوں گا؟ میں نے اس کو سمجھایا کہ اس کا حل یہ ہے کہ تم کوئی دوسر اوسید روزگار تلاش کرد تا کہ حالات بہتر ہوں پھر ہم یہ جگہ چھوڑ دیں گے۔


 لوگوں کی زبانیں بھی بند ہو جائیں گی۔ میں نے کچھ رقم پس انداز کی ہوئی تھی۔ یہ سرمایہ شہزاد کے حوالے کیا اور شہزاد نے دکانداری چھوڑ کر بزنس شروع کیا۔ قسمت کا ستارہ عروج پر تھا کہ اس کا یہ دوسرا کام دنوں میں چل نکلا۔ پھر تو جیسے دولت نے بانہہ پکڑ لی اور اوپر ہی اوپر نے کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہزاد امیر آدمی ہو گیا۔ حالات سازگار ہو گئے تو میں نے اس کو یاد دلایا کہ شہزاد یہ سب تم نے مجھ کو اپنانے کی خاطر کیا تھا۔ اب تم ایک کامیاب بزنس مین بن چکے ہو ، تو مجھ سے نکاح کر لو کیونکہ میں تمہارے سواسی اور سے شادی کے بارے سوچ بھی نہیں سکتی۔


بے شک وہ قسمت کا دھنی تھا کہ اس کا بزنس دندونی رات چوگنی ترقی کرتا گیالیکن مصروفیت کے بہانے مجھ کو آج کل پر ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ آٹھ سال اس نے محض اس سوچ میں گزار دیئے کہ وہ مجھ سے شادی کرے یانہ کرے، اس کے باوجود میرے پائے استقلال کو داد ہو کہ میں نے یہ عرصہ بھی صبر سے گزار دیا مگر کسی دوسرے کے ساتھ شادی کا بندھن باندھنے کے بارے سوچاتک نہیں۔ بہر حال ایک طویل مدت کے انتظار کا کرب سہنے کے بعد میرا اس کے ساتھ نکاح ہو ہی گیا۔ میں شہزاد کو پاکر بہت خوش تھی، کیوں نہ ہوتی۔


 اتنے عرصے کی ریاضت کے بعد میری تمنا کا اصل مجھے مل گیا تھا۔ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھنے گئی تھی۔ شہزاد کے پاس اللہ تعالی کادیا سب کچھ تھا۔ اپنا گھر تھا، گاڑی تھی اور معاشرے میں عزت کے ساتھ ایک پہچان بھی تھی لیکن اس کے ساتھ نکاح کے باوجود میرا اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔ میں مجبور والدین کے گھر میں رہ رہی تھی۔ کب تک آخر میں ماں باپ کے در پر پڑی رہی۔ شہز اد حالا نکہ معاشی طور پر اس قدر مستحکم تھے کہ مجھے علیحدہ گھر میں رکھ سکتے تھے۔ جب میں نے بار بار ان کو یہ بات یاد کرائی تو انہوں نے مسئلے کا یہ حل نکالا کہ فی الحال میں ان کے ایک دوست کے مکان میں رہوں گی جو خالی پڑا ہوا تھا۔  


تھوڑے سے سامان کے ساتھ انہوں نے مجھے اس مکان میں شفٹ کردیا۔ سب کیا هر اتو میرا اپناہی تھا۔ اصل زندگی کا اب تو اب کھلا۔ میں گھر میں اکیلی پڑی رہتی اور وہ کئی کئی دن میری طرف نہ آ پاتے تھے۔ والدین کے گھر

تنہائی تو نہ تھی۔ یہاں تنہائی نے جی بھر کر میر اشکار کیا۔ مجھ کو وحشتوں کے سمندر میں ڈبو دیا۔ بار بار شکوہ آنے پر وہ یہی کہتے کہ بزنس کی مصروفیت اور بال بچوں کی ذمہ داریاں لمحے بھر کو فارغ نہیں ہونے دیتیں۔ کیا کروں؟ بڑی مشکل سے وقت نکالتا ہوں تو تم تک پہنچتا ہوں۔


مجھے دکھ ہوتا کہ یہ اپنے بزنس اور پہلی بیوی بچوں کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ مجھے بہت غیر اہم شے سمجھتے ہوئے میرے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ آتے تو کھنچے کھنچے سے رہتے۔ بات بات پر دل شکنی کرتے۔ کوئی بات کرتی تو اس طرح تو کر جواب دیتے کہ بس منہ ہی تکتی رہ جاتی۔ ہفتوں میری طرف نہ آتے لیکن مجھ کو تو ہر حال ان کے ساتھ نباہ کرنا تھا۔ والدین کو ناراض کر کے ان سے شادی کی تھی۔ اکثر وہ مجھ کو طفل تسلیاں بھی دیا کرتے کہ شجرے تیرے لئے گھر بنانے کی مجھ کو دن رات فکر رہتی ہے۔ سوچتا ہوں کب تک دوست کا احسان اٹھائوں گا اور تم کب تک غیر کے گھر رہ پائو گی ۔


 تھوڑا سا اور صبر کر لو، تم ہی نے تو مجھے نئے گھر کے خواب دکھائے تھے۔ ایک سود اور ہو جانے دو، وہ ہو جائے تو اتنی رقم آجائے گی کہ تمہارے لئے ایک شاندار بنگلہ کی تعمیر شروع کرادوں گا۔ خدا نے میری دعا قبول کر لی اور وہ سودا ہو گیا۔ شہزاد کو اس سودے میں منافع بھی خوب ہوا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کے بعد شہزاد میرے ارمانوں کا بھی سودا کر دے گا۔ دولت آتے ہی اس کی نیت بدل گئی۔ ایک روز مجھ کو معلوم ہوا | کہ وہ مجھ سے چوری چھے کو مٹی کی تعمیر کر رہا ہے ، سوچا کہ وہ یہ کو بھی میرے لئے ہی تو نوار ہا ہے۔ سرپرائز دینے کی وجہ سے نہیں بتایا کہ مجھ کو زیادہ خوشی ملے۔


 پتا چلا کہ یہ گھر وہ میرے لئے نہیں، اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے لئے بنوا رہا ہے اور ان کی ٹیلی وقتافوقت اس زیر تعمیر کو گھی کو دیکھنے بھی جاتے رہتے ہیں۔ یہ بات ان کے ڈرائیور نے بتائی۔ یہ جان کر بڑادکھ ہوا۔ میں ہر برے وقت میں ان کے ساتھ ساتھ چلی، اپنی جوانی کے مینی دس سال ان کے انتظار میں کاٹ دیئے۔ اب جبکہ سکھ پانے کی باری آئی تو شہزاد کو فور اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو منی کو گھی میں بسانے کا خیال گیا۔ جب اس کی چھوٹی سی دکان تھی تو اس نے محبت کے وہ رنگ د کھائے کہ میں اندھی ہو کر اس کی انگلی پر ساتھ ساتھ چلتی گئی اور جب خدانے سے اچھے دن د کھائے ، اس نے میرے نصیب پر کالک مل دی۔


 میر احق بھی دوسری عورت کی جھولی میں ڈال دیا کہ جس کی جھولی تو پہلے سے ہی بھری ہوئی تھی۔ غلطی میری ہی تھی ۔ میں نے ایک شادی شدہ آدمی کے ساتھ ر سم وراہ بڑھائی ہی کیوں اور یوں جو کچھ اس نے مجھے دیا تھا وہ یہ کہہ کر پہلی بیوی کی نذر کر دیا کہ پہلا حق تو اسی کابنتا ہے کیو نکہ وہ بچوں کی ماں ہے۔ کس سے فریاد کرتی؟ یہ صدمے سے پیار ہو گئی۔ میری پیاری بھی شہزاد کے لئے مجھ سے دوری کا سبب بن گئی۔ کہا کہ تم بیار ہو۔ اکیلی کیسے رہو گی ؟ چلو میں تم کو تمہارے میکے لے چلوں۔


 وہاں تم کو کم از کم کوئی دیکھنے والا ہو گا۔ چند دن بعد جب طبیعت نجل جائے گی تو تم کو لینے آجائوں گا۔ اس بات کو مانے بنا میرے پاس چارہ کیا تھا۔ اس نے جو عارضی پناہ گاہ مجھے دے رکھی تھی اس سے بھی محروم ہو گئی۔ میکے آنے کے بعد میں شہزاد کے لوٹ آنے کا انتظار کرتی رہیں۔ دن پر دن گزرتے رہے مگر یہ مجھے لیے نہ آئے۔ لڑائی جھگڑا اور نہ کوئی رنجش، پھر یہ جدائی کیسی ؟ سمجھ میں نہ آتا تھا میرا قصور کیا ہے؟ کیا پیار ہو جانا بھی کوئی قصور تھا؟ شہزاد آفس میں میرے کال کرنے کو پسند نہ کرتے تھے۔


ایک دن مجبور ہو کر فون کر ہی دیا۔ پوچھا۔ آخر تم مجھے کس بات کی سزادے رہے ہو۔ خود آتے ہو اور نہ بلاتے ہو۔ کوئی جواب تو دو۔ تب انہوں نے بس اتنا کہا۔ آج شام تم کو جواب مل جائے گا۔ اور شام کو مجھے جواب مل گیا۔ ایسا جواب کہ میں لاجواب ہو گئی۔ انہوں نے لکھ کر بھجوایا کہ اپنے والدین کے گھر تاحیات رہ سکتی ہو تو میرے نکاح میں ر ہو گی، ورنہ میری طرف سے آزاد ہو۔ میں طلاق کے کاغذات بجھوادوں گا۔ اپنے والد سے مشورہ کر لو کیونکہ میں تم کو علیحدہ نہ تو گھر لے کر دے سکتا ہوں اور نہ کسی کو کسی جگہ رکھ سکتا ہوں۔


 میرے بچے اب بڑے ہورہے ہیں۔ وہ تمہارا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ ہوں گے اور میں ان کو کھونا نہیں چاہوں گا۔ یہ خط والد صاحب کو دکھانا ضروری ہو گیا کیونکہ وہ روز پوچھتے تھے کہ تمہارا شوہر تم کو لینے کیوں نہیں آتا؟ جب والد صاحب نے یہ خط پڑھا تو ایک لمحہ سوچے بغیر انہوں نے مردانہ انداز سے فیصلہ کر دیا کہ جو مرد اپنی بیوی کو نہیں رکھ سکتا، اس کے ساتھ جڑے رہنے میں نہ تو تمہاری کوئی معاشرے میں حیثیت ہو گی اور نہ سکھ ملے گا اور نہ ہماری کوئی عزت ہو گی۔ میں نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دنوں بعد شہزاد نے اپنے ملازم کے ہاتھ میری موت کا پروانہ بھیج دیا۔


 گویا کہ اسے کبھی بہانہ چاہیے تھا۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں ر تم نہ آیا۔ یہ خیال نہ آیا کہ جس عورت نے جوانی کے دس سال اس کا انتظار کیا، اب وہ یہ داغ لے کر کہاں جائے گی۔ کس سے فریاد کرے گی۔ کسی سے اپنا جرم پوچھے گی مگر یہ سوچنا شاید اس مرد کا کام نہیں ہوتا جس کی پہلے سے ایک بیوی اور پانی اپنے موجود ہوں۔ سو، اس نے بڑی شاطری سے اپنادامن چھڑالیا۔ آج اس واقعہ کو بیس برس ہو چکے ہیں لیکن لگتا ہی ہے کہ جیسے یہ زخم ابھی بھی لگا ہے۔


میں نے دنیا والوں سے آج تک یہ بات پوشیدہر بھی ہے کہ میں والدین کی دہلیز پر کیوں بھی ہوں۔ یہی کہتی ہوں کہ وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔ دو سال بعد چند دنوں کے لئے آتے ہیں، ان کی چھٹی کم ہوتی ہے۔ سمجھنے والے تو سمجھ ہی لیتے ہیں کہ بھی شہزاد کو کسی نے آتے جاتے نہیں دیکھا، پھر بھی بھرم رکھنے میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ خود فر میں ہی سہی۔ کبھی کبھی خود کو تسلی کے لئے خود فر میں سے بھی تو کام لیناپڑتا ہے۔ دل پر جو گزرتی ہے، دل ہی جانتا ہے لیکن کسی کو بتاتی ہیں ۔ شہزاد نے مجھے ایک میلی میں جان کر کب کا اتار پھینکا ہے۔ پھر بھی نہیں چاہتی کوئی مجھے طلاق یافتہ کہے، مجھ پر رحم کھائے۔


میرے والدین کے رشتے دار مجھ پر نسیں کہ دیکھ لیاڈ و سری عورت کے شوہر سے شادی کرنے کا انجام - اپناداغ جگ ہنسائی کے ڈر سے کسی کو دکھا نہیں سکتی۔ ورنہ تو جی چاہتا ہے بے چین کر سب کو بتادوں ، ہاں وہ بے وفا ہے، میں طلاق یافتہ ہوں اور کوئی میر انہیں کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی کہ میرے ارمانوں کا گلشن تو مدت سے بر باد ہے۔ مجھے تو خود پتا نہیں کہ میں کس جرم کی سزا کاٹ رہی ہوں۔ ہاں مگر یہ بھی ایک خود فر میں ہے ورنہ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ سزا اس لئے کاٹ رہی ہوں کہ اپنے جیسی ایک عورت کے حق پر ڈاکا ڈالا تھا۔


 جانتی تھی کہ وہ عورت غمزدہ ہوگی، سوکن کاؤ کھ جھیلے گی، اس نے تو سوکن کا کھ جھیل لیا مگر اس کا گھر آ بادر باے میں ہی بالآخر سب کچھ کھو کر خانماں برباد ہوگئی۔ سوچتی ہوں جب ان کو بیوی کے ہوتے دوسری عورت سے عشق ہو جاتا ہے، اس وقت انہیں پہلی بیوی اور بچوں کا خیال کیوں نہیں آتا۔ گلاب تر و تازہ ہوتا ہے تو دل سے لگا لیتے ہیں۔ مرجھانے لگتا ہے تو پرے پھینک دیتے ہیں۔ جرم تو دونوں کا برابر ہوتا ہے مگر سزا ایک کو ملتی ہے۔


Post a Comment

0 Comments