Search Bar

Bud-Dua-Say-Bachna-بددعا-سے-بچنا urdu story تین عورتیں تین کہانیاں,

 

Bud-Dua-Say-Bachna-بددعا-سے-بچنا


کہتے ہیں کہ دعا سے زیادہ بددعا جلد اثر پذیر ہوتی ہے۔ کیوں کہ بد عاد کے دل کی آہ ہوتی ہے جو سیدھی انسانوں کا سفر طے کرتی ہوئی عرش بریں پر خالق حقیقی کے سامنے پیش ہو جاتی ہے۔ جب میں نے چھٹے حالوں گرد سے آئے ہوئے پیروں والی افلاس زدہ اسی ممو کو دیکھا تو مجھ کو بے اختیار ماضی کی متناز یاد آگئی جس کا باپ ایک کامیاب ھیکے دار تھا۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ ہماری کلاس میں ایک بے حد غریب بیوہ کی لڑکی نور جہاں اور دولت مند ٹھیکیدار کی بیٹی ممتاز پڑھا کرتی تھی۔ اسکول کے زمانے کی معصومیت پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان میں چپل کپیت . ضرورت کی دوستی اور اپنے کام نکلوانے والے تعلق قطعی نہیں ہوتے۔


 اس لیے ہماری دوستیاں بھی پر خلوص تھیں ۔ نور جہاں بہت ذہین اور کلاس میں اول آنے والی لڑکی تھی۔ اس کے بر عکس ممتاز چھڈی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ، ہر وقت اپنے باپ کی دولت اپنی چھاتی گاڑی کا ذکر کرنے کی وجہ سے لڑکیاں اس سے دور دور رہتی تھیں اور وہ خود لڑکیوں کے ہر گروپ میں گھسنے اور اپنی جگہ بنانے کی ناکام کوشش کرتی۔ خاص طور سے ہمارے ساتھ رہنے کی ہر وقت اس کی کوشش ہوتی تھی۔ کیوں کہ ہمارے گروپ میں نور جہاں اپنی نرم  بیعت، محبت اور خلوص کی عادت کی وجہ سے بہت ہر دل عزیز تھی۔ اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اگر کسی کی سمجھ میں کوئی سبق نہ آتا تو وہ اس کو آدھی چھٹی میں باقاعدہ پڑھایا کرتی تھی۔ اس کی ہر دل عزیز متاز کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ ہمیشہ کوشش میں ہوتی کہ اس کی بے عزتی کرے۔ اپنی حاسد مزاجی کی وجہ سے اس کو نور جہاں میں صرف ایک کمزوری نظر آتی کہ وہ غریب بیوہ ماں کی لڑ کی ہے۔


 ہمارے گروپ کی کوئی لڑکی نہیں چاہتی تھی کہ وہ ہمارے ساتھ اکٹھے بیٹھے مگر آدھی چھٹی ہوتے ہیں ہم لوگوں کی طرف لپتی اور درمیان میں آ کر بیٹھ جاتی۔ بات بے بات مذاق اڑانی، طنز کر لی۔ اس کا نشانہ عام طور پر نور جہاں ہونی جو اپنی از خاموت فطرت کی وجہ سے اس کو جواب نہ دیتی۔ کئی بار اس کی بد تمیزی کے بارے میں ٹیچر سے شکایت کی گئی۔ اس کو ڈانٹ بھی پڑی مگر اس نے کوئی اثر نہ لیا۔ ایک دفعہ اس نے نور جہاں کی پیوند گی شلوار کو دیکھ کر کہا۔ اس کے پاس بہت پرانی شلوار میں ہیں، وہ جمعدارنی کو دینے کی بجائے کل اس کو لا کر دے دے گی۔ ہم سب نے غور سے نور جہاں کی ٹانگوں کی طرف دیکھا۔ پانچھے کے پاس ایک پیوند نظر آیا جو شاید اس کی سلائی کرنے والی ماں نے بڑی مشاقی سے پرانی شلوار میں لگا دیا تھا۔ اتنی بڑی توہین بھی اس صابر لڑکی پر اثر انداز نہ ہوئی۔ اس نے ممتاز کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اپنے پیوند لگے کپڑوں میں خوش ہے۔ کلاس کی بیشتر لڑکیوں کا خیال تھا کہ ممتاز سی نودو لتے خاندان کی فرد ہے۔ جو جابجا اپنے ھیکیدار باپ کے پیسے کا ذکر کرتی رہتی ہے۔



اسی زمانے میں پتا چلا کہ نور جہاں کی شادی اس کے کزن سے ہورہی ہے جو کینیڈا سے آیا ہے۔ ہیڈ مسٹر لیں اور دوسری ٹیچرزنے اس کی والدہ کو سمجھایا کہ نور جہاں بہت ذہین ہے، اس کو تعلیم مکمل کرنے دی جائے مگر سلائی کرنے والی بیوہ غریب ماں کا جواب تھا کہ اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے اور سارا خاندان اس شادی کے حق میں ہے۔ یہ وہ زمانہ جب غریب رشتے داروں سے ملنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اور خاندان کے فردایسے گھرانے کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ شادی کے دن ہم سب سہیلیاں اس کی پھوپھی کے بڑے سے گھر پہنچ گئیں۔ وہاں کی خواتین دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نور جہاں کا خاندان سوائے اس کے خاصا متمول ہے۔ گھر میں شادی کا ہنگامہ تھا۔ ابھی نور جہاں دلہن نہیں بنی تھی ، وہ مایوں کے پیلے کپڑوں میں ایک کونے میں بیٹھی تھی، ہم سہیلیوں کو دیکھتے ہی خوشی سے اٹھ کر ہم لوگوں سے چمٹ گئی۔


بارات کے آنے کا غلغلہ ہوا اور اس کے چچا ایجاب و قبول کے لیے کمرے میں آ گئے جہاں نور جہاں کے مایوں کے سوٹ پر کسی سہاگن کا سرخ دوپٹہ اوڑھا کر ایجاب و قبول کر لیا گیا۔ اس کی امی ایک طرف کھٹری خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں اور سب ان کو نکاح کی مبارک باد دے رہے تھے۔ ابھی نکاح کا ہنگامہ کرنے میں ختم نہیں ہوا تھا کہ خواتین کو چیرتی ہوئی متناز کرے میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی تھی۔ سب خواتین کی موجودگی میں اس نے بہت زور سے کہنا شروع کیا کہ نور جہاں تم نے مجھے اپنی شادی میں نہیں بلایا۔ مگر میں تم کو یہ پیسے دینے آئی ہوں۔ یہ صدقے کے پیسے ہیں، میرے والد نے بجھتے ہیں کہ یتیم لڑکی کی شادی میں کام آئیں گے۔ اس نے شاید جان بوجھ کر ایک روپے کے نوٹوں کی گڈی بھجوائی تھی تاکہ دیکھنے میں رقم زیادہ لگے۔ اس سے پہلے کہ نور جہاں یا اس کی امی کوئی جواب دیتیں، نور جہاں کی پھوپھی آگے بڑھیں اور پر سابیں سو کا نوٹ نکال کر نور جہاں پر سے وار کر ممتاز کی طرف بڑھادیا کہ لویہ سوروپے بھی صدقہ ہے، ہماری طرف سے۔ تم سب پیسے اپنے ابا کو دے دینا، تمہارے کام آئیں گے اور اب یہاں سے چلی جائو، اس سے پہلے کہ میں نوکروں سے دھکے دے

کر نکال دوں۔


بارات میں آئی ہوئی خواتین جو نکاح کے وقت دلہن کے کمرے میں موجود تھیں، حیرت سے اس بد تمیز لڑکی کو دیکھ رہی تھیں مگر بات اس لیے نہ بڑھی کہ وہ سب آپس میں رشتہ دار تھیں۔ نور جہاں جو گٹھڑی بنی ہوئی تھی، میٹھی لرز رہی تھی۔ اے الله... ایک دن اس پر ایس آئے کہ خود صد قہ مانگے مجھے روتی ہوئی تو جہاں کی آواز سنائی دی۔ نور جہاں شادی کے بعد کینیڈا چلی گئی۔ ہم لوگ تعلیم اور اس کے بعد اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ سالہا سال گزر گئے۔ پھر ایک دن میری دوست شہناز نے اپنے بیٹے کی شادی کا بلا وادیا۔ بارات کو کینیڈا کے شہر مونٹریال جاتا تھا۔ شہناز بہو بیاہ کرلائی۔ تیکھے نقوش والی معصوم کی نازک لڑ کی ولیمہ کے استقبالیہ میں جھکی جھکی پلکوں کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھی تھی۔


میں اس کو منہ دکھائی دینے اسٹیج پر گئی اور منہ دکھائی دے کر جب پیٹی تو دلہن کے پاس بیٹھی اس کی ماں ایک دم کھڑے ہو کر مجھے غور سے دیکھتے ہوئے لیٹ گئی۔ تم نے مجھے پہچان نہیں، میں نور جہاں ہوں۔ یہ سن کر میں نے اس کو دوبارہ گلے لگایا۔ ساری محفل میں وہ میرے ساتھ ایک میز پر بھی پرانی باتیں کرتی رہی۔ میں نے اس کو بتایا کہ اگلے ہفتے میں کراچی جارہی ہوں، صرف اس ولیمہ کی وجہ سے رک گئی تھی۔ یہ سن کر اس نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا۔ مقتوں کی روشنی میں اس کے ہاتھ میں ہی ہوئی ہیرے اور زمردی انگوٹھیاں جگمگ جگمگ کر رہی تھیں۔ اس نے مجھے دو سو ڈالر دیئے کہ یہ ان کا صدقہ ہے اور میں کراچی جا کر کسی غریب لڑکی کو دے دوں۔ میں کراچی میں اپنی بہن کے ساتھ چین میں میٹھی باتیں کر رہی تھی کہ اس کی ملازمہ نے اطلاع دی کہ اسی مو آئی ہے۔ بہن نے اس کو باورچی خانے میں ہی بلا لیا۔


کپڑے جن پر جابجا پیوند لگے تھے۔ ٹوٹی ہوئی چپل، بال ایسے جیسے عرصہ سے ان میں کنگھی نہ کی گئی تھی ۔ کھانستی ہوئی ایک عورت آ کر زمین پر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ پرانے کپڑوں کی گٹھڑی اور بچے ہوئے کھانے لینے کے بعد اس نے جھک کر سلام کیا۔ میں نے جب نور جہاں کے دیئے ہوئے دو سو ڈالر اس کے ہاتھ میں تھمائے تو اس کے چہرے پر نظر پڑی اور غور سے دیکھنے کے بعد حیرت سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ سئیں.... و ممتاز تھی۔ ممتاز ، یہ تم کو کیا ہو گیا۔ اپنا اصل نام سن کر وہ چوکھی ۔ لوگوں کے گھروں میں جھاڑو بر تن کرنے والی اس ممو کو کوئی اس کے اصلی نام سے پہچان لے۔ یہ اس کے لیے بڑی بات تھی۔ مجھے پہچان کر وہ بلک بلک کر رو دی۔ اس نے بتایا کہ اس کی پہلی شادی والدین نے ایک امیر آدمی سے کر دی تھی مگر وہ بے حد عياش تھا۔


اس کا سارا جہیز اور زیور، شراب، جوئے اور غلط عورتوں پر خرچ کر کے تہی دامن ہو گیا۔ ماں باپ اس کی مدد کرتے رہے مگر دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اس کو اندازہ ہو گیا کہ یہ گھر وہ نہیں بس پائے گی۔ اس کے اپنے مزاج میں بچپن سے خود سری تھی۔ ماں باپ کے گھر آ کر اس نے باپ سے ضد کی کہ اس کے شوہر پر نان نفقہ اور خلع کا مقدمہ کرے۔ شوہر بھی ایک پیسے کا والے کا بیٹا تھا۔ بہت عرصہ نان نفقہ کا مقدمہ چلا۔ اس کے باپ کا کاروبار بھی کھانی کھانے میں جارہا تھا۔ نان نفقہ تو اس کو کیاملتا۔ ہاں خلع ضرور مل گیا۔ اس عرصے میں بھائیوں کی شادی ہو گئی۔ ممتاز ماں باپ کے گھر اپنی لڑکیوں کے ساتھ ٹھاٹھ سے رہتی تھی۔ مگر پھر بھائی کے بچوں اور اس کی بیٹیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔ بھائیوں کے دل میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہونے کی کیوں کہ ماں باپ ممتاز کا ساتھ دیتے تھے۔


 والدین کے مرنے کے بعد بھائیوں نے ہر کام میں دخل دینے اور بچوں کے جھگڑنے کی وجہ سے اس کو صاف کہہ دیا کہ وہ اب اپنا انتظام کرے ۔ ماں باپ نے اس کی مقدمے بازی پر بہت پیسہ خرچ کیا تھا۔ بھائیوں نے مزید پیسہ دینے سے انکار کر دیا کہ اب اس کو اپنی کفالت خود کرنی ہو گی۔ وہ تھوڑے دن اپنے ایک رشتہ دار کے گھر رہی مگر وہ لوگ اس کو دو بیٹیوں کے ساتھ اپنے گھر ہمیشہ کے لیے رکھنے کو تیار نہ تھے۔ اس کی جانے والی ایک عورت نے اس کا دوسرا نکاح ایک غریب آدمی سے کر دیا۔ اس سے اس کے ہاں ایک اور لڑ کی پیدا ہوئی۔ وہ ملک مزدور ایک دن مشین پر کام کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے محروم ہو گیا۔ گھر میں فاقوں کی نوبتة گئی تو اس نے گھر سے باہر نکل کر نوکری ڈھونڈی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے خاطر خواہ نوکری نہ ملی۔ اب وہ لوگوں کے گھر روٹی پکانے کی نوکری کرنے لگی اور ان کے گھروں کے بچے ہوئے کھانے پر اس کا گزارا تھا۔ دو سو ڈالر ہاتھ میں پکڑ کر اس نے ان دیکھی خاتون کو دعائیں دیں جس نے اپنی بیٹی کا صدقہ اس کو بھیجا تھا۔


 اس کو نہیں معلوم تھا کہ یہ وہی عورت ہے جس کی شادی کے دن وہ بڑی رعونت سے اس کو صدقہ کے پیسے دینے کے بہانے بھر کی بارات میں بے عزتی کر کے اپنی انا کو تسکین دینے آئی تھی اور جس نے اس کو بد دعادی تھی کہ خدا کرے کہ تم لوگوں کے دینے ہوئے صدقے پر گزر بسر کرو۔ مجھ کو وہ دن یاد آگیا لیکن پھر میری ہمت نہ ہوئی کہ اس کو یہ سب یاد دلاتی۔ پی ہے بڑا بول انسان کے سامنے بھی نہ می آجاتا ہے۔ اس لیے ھمنڈ اور غرور سے بچنا چاہیے اور اس سے بھی زیادہ کیا د ی کی بددعا سے بچنا چاہیے کیوں کہ کسی کادل و کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔


Post a Comment

0 Comments