Search Bar

New Weekly Story Anokhi Shadi Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

New Weekly Story Anokhi Shadi Teen Auratien Teen Kahaniyan 



ہر انسان کی زندگی ایک کہانی ہے۔ کہانیاں تو بہت سنی اور لکھی گئی ہوں گی لیکن یہ ایک انوکھی روداد ہے کہ شاید ہی کسی عورت نے ایسی زندگی بسر کی ہو۔ فریکہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ کہانی اسی کی زبانی لکھی ہے۔ به صورت نہ تھی میں یہ بات بہت بعد میں مجھے پتا چلی که به صورتی کا طوق زبردستی میرے گلے میں پہنایا گیا ہے۔ پچ ہے کہ خوشیاں انسان کو خوبصورت بنادیتی ہیں اور حالات اس کو خوبصورت سے بد صورت بھی بنا سکتے ہیں۔ جن دنوں میری عمر کے تمام بچے اسکول جاتے تھے ، مجھے اسکول جانے کی اجازت نہ تھی۔ ماں نے آتے ہی جانے میرے باپ پر کیا جادو کر دیا کہ جو وہ کہتی یامان لیتے۔ یہ نی ماں میرے باپ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی۔ ابا چالیس برس کے اور یہ اٹھارہ کے ان کی خوبصورت کی لڑ کی۔ اب تو کیا میں خود اس پر فریفتہ ہوگئی۔ اب معاملہ یہ ہو گیا کہ ہر سال ایک نئے بچے کی آمد شروع ہو گئی۔ ان بچوں کی پرورش کا بوجھ مجھ پر آپڑا۔ میں ان دنوں دس برس کی تھی۔ ماں نے کہا، بیٹی فریکہ اگر تم اسکول جاؤ گی، میں اکیلی تمہارے بہن بھائیوں کو نہ سنبھال پاوں گی۔

 بہتر ہے کہ اسکول چھوڑ دو۔ میری کیا مجال کہ اگے سے انکار کرتی ۔ جو ماں کہتی وہی حکم کیا ہوتا۔ اپنے محلے کی ساتھی لڑکیوں کو رشک بھری نگاہوں سے اسکول جاتے دیکھتی اور آنسو پونچھ لیتی۔ ماں کے چھوٹے بچوں کو سنبجانا، ان کا منہ دھلانا کپڑے بدلنا، یہ سارے کام مجھے بہت مشکل لگتے تھے، اوپر سے اس زر خیز خاتون نے دو بار جڑواں بیٹیوں کو بھی جنم دیا۔ گھر میں تو بچوں کی ریل پیل ہو گئی اور ان کی آڑول میں میر املیدہ نکل گیا۔ بچوں کے پیچھے سارا دن بھاگ بھاگ کر تھک جاتی، پیٹ بھر کھانا کھانے تک کی فرصت نہ ملتی۔ ادھر کھانا کھانے بھی ادھر آواز پڑ جاتی۔ اے بیٹی فر یہ جلدی دوڑ کر آنا۔ دیکھ تو تیرے بھائی منو نے کیا کر دیا ہے، بس جو اس نے کیا ہوتا، دیکھ کر بھی متلا جاتا۔ ان کے پیمپر ، ڈائپر لگاتے ، میری بھوک اڑ جاتی۔ ماں کی شادی کو پانچ برس ہوئے اور چھ بچوں کی پیشن تیار کر ڈالی۔ مجھے اس پٹن نے اتنا لکان کرایا کہ قد چھوٹا اور ہاتھ پاوں کمزور ہو گئے۔ کپڑے تبدیل کرنے کا ٹائم ملتا ھے اور نہ نہانے دھونے کا۔ 


میری تو شکل ہی عجیب ہو گئی۔ صورت پر مسکینی کھنڈ گئی، جس باعث میں خاصی ہونق اور بد صورت ہو گئی، جو دیتا کہتا کہ لڑکیاں بڑھتی ہیں تورنگ روپ نکالتی ہیں ، اس عمر میں تو مینڈ کی بھی حسین ہو جاتی ہے اور یہ فریہ ؟ ہائے اس پر کس چڑیل کا سایہ پڑ گیا ہے کہ جوں جوں بڑی ہوتی جاتی ہے بد صورت ہوتی جاتی ہے۔ اب میں چودہ برس کی تھی۔ جس عمر میں لڑکیاں آئینے سے باتیں کرتی ہیں اور میں ڈر کے مارے شیشے کے سامنے کھٹر ی نہ ہوتی۔ سب بدصورت کہتے تھے تو انھوں نے کبھی کسی خواب کو اپنے اندر جگہ نہ دی۔ سہانے خواب دیکھنے کی عادت توان لڑکیوں کو ہوتی ہے، جو سکھ کی چھاؤں میں لیتی ہیں۔ میں نے کسی شہزادے کے بارے میں نہ سوچا۔ مجھے تو جو دیکھتا، میرے حلے پر ہنتا مذاق اڑانا۔ میرے کزن کہتے، فریہ تم ہمارے خاندان سے نہیں لگائیں۔ سر بڑا اور قد چھوٹا۔ ان کی جھپتیاں سن کر میری شکل پر ہوائیاں اڑنے لاستیں، رنگت پھیکی پڑ جاتی۔ سب میری ہونق صورت دیکھتے، کوئی اچھی سیرت کون دیتا۔ یہ بڑے زہر یلے نشتر تھے جو میرے دل پر گئے تو میری روح توپ انتی ... سوچی کاش میں بد صورت نہ ہوتی۔ اب کوئی کزن یا مہمان گھرانے میں ان کے سامنے جانے سے کتراتی، ان سے چھپنے کی کو شش کرتی۔ بچپن میں تو میں خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ اب خاندان بھر کے ماتھے پر نظر کا ایک کیسے بن گئی۔ حالات نے ہی تو مجھے بد صورتی کا یہ طوق زبردستی پہنا تھا۔


 میری ایسی صورت پر کب کوئی اچھار شتہ آئے گا۔ اچھے رشتے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ ادھر باپ کو میری شادی کی فکر پڑی تھی مگر ماں کا کہنا تھا بھی یہ چھوٹی ہے ابھی اس کی شادی نہیں کرنی۔ لڑکیاں چھوٹی بھی ہوں تو ماں باپ کو فکر مند کر دیتی ہیں کہ پالنے میں ہی وہ پرایا دھن ہوتی ہیں۔ ذراساقد نکال لیں تو اس پرانے دھن کے چوری ہو جانے کا ڈر پڑ جاتا ہے۔ وقت تو تیزی سے گزرتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے میں بائیس برس کی ہوگئی۔ اب بھی ماں کو چھوٹی لگتی تھی جبکہ ان کی اپنی پہلوٹی کی بیٹی میرے برابر کی ہوگئی تھی۔ ادھر ابا تھے کہ ہماری شادیوں کی فکر میں مرے جاتے تھے۔ ماموں ممانی جب آتے۔ امی سے کہتے ،رابعہ کب کروگی فر ینہ کی شادی، اب تو اس کی شادی کی عمر کی جارہی ہے۔ میں اس کی شادی کروں گی تو گھر کا کام کون سنبھالے گا۔ ماشاء اللہ سات چکے ہو گئے ہیں، اس کی شادی کروں تو اکیلے کیسے سنبھالوں گی تمہارے بھائی کے ان بھیڑوں کو بھی نہیں کر سکتی میں اس کی شادی۔ بالآخر ماموں اور ممانی نے تہیہ کر لیا کہ رابعہ کے چنگل سے اس بچی کو تو کسی طرح نکالنا ہے ورنہ یہ بھی اس کو نہ بیاہے گی۔ انہوں نے اکیلے میں ابا کو سمجھایا کہ اتنے اپنی عورت کے پیچھے نہ گو۔


 تمہاری بڑی لڑکی بن بیاہی رہ گئی تو چوٹیوں کے رشتے کیسے ہوں گے۔ ساری دنیاتم ہی کو مورد الزام ٹھہرائے گی کہ ایسے خود غرض ماں باپ ہیں، بچی کو نوکرانی بیناو با۔ اپنے آرام کے لئے اس کا گھر نہ بسایا۔ انہوں نے کہا۔ بھائی صاحب جب رشتے آتے تھے تو ہماری بیوی کو پسند نہ آتے،اب رشتے نہیں آتے تو کس سے بیاہ دوں؟ تم ہی کچھ اس مسئلے کا حل نکال دو۔ آنر شتہ لے آؤ، آج کی بات پکی کر دوں گا۔ کیا کہہ رہے ہو... ہاں تو کیا مذاق کر رہا ہوں۔ ماموں نے کہا۔ میرے بیٹے ولایت میں کیا خرابی ہے، خوبصورت ہے،الیف اے پاس ہے۔ میری اپنی دکان ہے ، وہی سنجالے گا۔ نوکری ڈھونڈنے کا بھی اس کا معاملہ نہیں ہے۔ آج ہی بسم اللہ کرو۔ والد نے سوچا کہ ماموں کی بہو بنے گی۔ فریہ اپنے قر میں عزیزوں کے گھر جائے گی۔ بات تو اچھی ہے لیکن لڑکا بھی اس رشتے پر راضی ہو۔ زبردستی کا معاملہ کیاتو اور غلط ہو گا۔ فریکہ کی شکل و صورت میں دیتی ہے۔ وہ بولے۔ بیٹے سے پوچھ لو۔ اگر ولایت بال کہے تو مجھے رشتہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم نے ولایت سے بات کی ہے۔ اس کو صورت شکل سے کچھ لینا دینا نہیں، بس سیرت اچھی ہو اور اس کا تقاضا ہے کہ لڑکی ایسی ہو جو نہ تو اس کی کسی بات پر اعتراض کرے اور نہ مداخلت۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو وہ ہماری خوشی کے لئے جس لڑکی سے کبھی ہم اس کی شادی کریں گے


 ، وہ سہرا باندھ لے گا۔ اللہ جانے ماموں ممانی ٹھیک کہہ رہے تھے یاممانی کو میری صورت میں ایک مسلمین نوکرانی چاہیے تھی جو گھر کے سارے کام کرے اور کسی معاملے میں مداخلت کرے، نہ ہی احتجاج، بس لبوں پر چپ کا تالا لگار ہے۔ چونکہ باپ کے گھر میں میر کی ایسی بری حالت د بھی تو مجھے بہو بنانے میں ان کو یہ سوداگھاٹے کانہ لگا۔ میں تو اس بات کو سمجھ گئی مگرابا نہ سمجھے۔ وہ سیدھے سچے دل کے آدمی تھے، فور کہاں کر دی اور شادی کی تاریخ بھی بالا بالا طے ہوگئی۔ انہیں ڈر تھا کہ بیوی کے علم میں لاتے ہیں تو ہمیں رنگ میں جھنگ نہ ڈال د ے ۔ او هر ولایت کب مجھ سے شادی کے لئے تیار تھا۔ مجھ سے کیا وہ تو کسی سے بھی شادی پر تیار نہ تھا۔ وہ شادی کرمانی نہ چاہتا تھا۔ چاہے عورت کی حور ہی کیوں نہ ہوتی۔ اس نے ماں سے کہا تھا کہ میں نے عمر بھر

شادی نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، سمجھ لو کہ میری شادی ہوگئی ہے۔ یہ کیا خرافات بک رہے ہو، تم ہمارے اکلوتے لڑ کے ہو ، تم شادی نہ کرو گے تو ہم کس کی خوشی دیکھیں گے ؟ گھر میں بہو آئے گی، ہمارے پوتے پوتی آئیں گے، میں تو دن گن رہی ہوں کہ کب بہو آئے، گھر سنبھالے اور میں آرام سے چھپر کھٹ پر بیٹھ کر ہاتھ میں اس سے کھانالوں اور جب کھانا کھالوں تو برتن بھی وہی میرے سامنے سے اٹھالے جائے۔ ماں اس زمانے میں تم کو ایسی تابعدار ہو کہاں سے ملے گی؟ آج کل کی لڑکیوں کو تم نہیں جانتی ہو ، ساس سسر کو تو کیا شوہر کو ہی تگنی کا ناچ نچادیتی ہیں۔


توبہ توبہ کروں۔ سچ کہوں تو میں نے اپنے دوستوں کی حالت دیکھی ہے۔ مجھے تو شادی اور لڑکی کے نام سے ہی نفرت ہوگئی ہے۔ ولایت بیٹا تمہاری ماں نے بھی یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے، تم مجھے ایابد ھونہ جانو۔ ایسی لڑ کی چینی ہے جو ہم سب کی خدمت کرےگی اور آف بھی نہ کرے گی۔ سمجھ لو کہ ہے زبان گائے ہے۔ زبان رکھتے ہوئے بھی گونگی ہے۔ اسی جلا کون ہے ماں؟ تمہاری پھو پھی کی بیٹی فریہ ۔ کیا تم نے دیکھا نہیں ہے اسے دیکھا ہے وہ تو چار کی بڑی بد شکل به شکل بالکل نہیں ہے، میں نقش سب اچھے ہیں، بس حلیہ اجاڑ رکھا ہے اس کی ماں نے اس کا یہاں اچھے کپڑے پہنے گی، اچھا کھائے گی، سکون سے رہے گی تو دیکھ لینا کیسی حسین ہو جائے گی کہ رشک کروگے۔ اچھاماں سب ٹھیک ہے۔ بہت بار کہا ہے شادی نہیں کرنی مجھے۔ اگر تم اپنے لئے نوکرانی کا ناچاہتی ہو تو بے شک


تمہاری خوشی کو پوری کئے لیتا ہوں مگر مجھ سے کوئی اس کا لینا دینانہ ہو گا۔ وہ تمہارے ساتھ رہے گی، تمہارے کمرے میں سویا کرے گی۔ مجھے بس کھانا پکاکر دے دیا کرے گی اور میرے کپڑے و غیر استری کر دے گی۔ تب تم کو آرام مل جائے گا۔ ٹھیک ہے ماں۔ ہاں ٹھیک ہے۔ لڑکے بس اب زیادہ بک بک مت کرنا۔ ہم تیرارشتہ فریحہ سے لے کر آئے ہیں۔ ولایت جانتاتھاماں اب آسانی سے ملنے والی نہیں ہے اور نہ ایک قدم پیچھے ہٹنے والی ہے۔ ابا کب کے بیمار چلے آرہے ہیں۔ سو بیماریاں لاحق ہیں ان کو بڑھایا گیا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ بہو کی آرزو کریں گے ہی.... سوفر یہ واقعی ٹھیک رہے گی۔ جن حالات میں رہ رہی ہے یہاں اس کو وہاں سے اچھے حالات ہی ملیں گے۔ بس یہ سوچ کر اس نے اپنے جگری دوست برہان سے کہا کہ یار اماں ابا کو کب تک ڈالوں گا، وہ تو پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اب بھی ان کی نہ مانی تو بانے صاف کہہ دیا ہے کہ ساری جائیداد ٹرسٹ میں دے دوں گا اور تم کو گھر سے نکال کر عاق کر دوں گا۔ برہان مگر کسی دلیل پر بھی ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے کہا تیری میر کی دوستی ایسی نہیں کہ وعدہ خلافی ہو۔ ہم نے اپنے اپنے بازوں پر ایک دوسرے کے نام اپنے لہو سے کندہ کرائے ہیں۔ عمر بھر ساتھ رہنے کا عہد کیا ہے اور ایک دوسرے کی خاطر شادی نہ کرنے کی بھی قسم اٹھائی ہے تو کیا اب تم وعدہ خلافی کرو گے مجھے سے ؟ اور قشم توڑ دوگے۔ یاد رکھنا اگر تم نے ایسا کیا تو میں جان دے دوں گا، خود کشی کر لوں گا مگر یہ نہیں سہہ سکتا کہ میرے ہوتے تمہاری زندگی میں کوئی اور آئے۔ ولایت نے بہت سمجھایا مگر اس نے دوست کو شادی کی اجازت دینے کی بجائے قسم کھا کر خود کشی کی دھمکی سے ڈرادیا۔ کہا کہ سمجھ لو کہ ہماری تمہاری شادی ہو چکی، اب میں سوتن برداشت نہیں کر سکتا۔ ادھر سے ماں باپ کاد با ، ادھر سے دوست کی تمہیں، ولایت ایک آزمائش میں پڑ گیا تھا۔


یہ دوست آج کا نہیں تھا، | ان کی دوستی بہت پرانی تھی۔ جب و لایت بارہ برس کا معصوم لڑکا تھا اور برہان پچیس برس کا بھر پور جوان تھا،تب سے اس نے ولایت کو اپنی دوستی کے جال میں پھانسیاتھا۔ برہان ایک یتیم لڑکا تھا۔ چھپانے اس کی پرورش کی تھی۔ چھی ظالم عورت تھی، بات بات پر شوہر سے پٹواتی اور جھوٹی شکایتیں کر کے گھر سے باہر نکال دیتی تھی۔ برہان کی زندگی کے یہ دن بہت اذیت ناک تھے۔ جب رات کو بچی گھر سے باہر کر دی تو محلے کا ایک غنڈہ قسم کا نوجوان اس کو رات بھر رہنے کے لئے پناہ دے دیتا تھا، بس تجھی سے برہان کے ساتھ معاملہ خراب ہوا، اس کی شخصیت مسخ ہو گئی اور اس کو عورت ذات سے نفرت ہوگئی۔ چھیا کے مرنے کے بعد چی میکے چلی گئی اور برہان کو اس کے والد کی موروثی جائیداد مل گئی۔ جس مکان پر اس کے چچا اور بچی کی رہائش تھی، وہ بھی حقیقت میں برہان کے والد کی ملکیت تھا۔ اس کے علاوہ بھی جائیداد تھی۔ چچا کے مرنے سے برہان کے دکھ بھرے دن تمام ہو گئے۔ وہ بلا شرکت غیرے گھر کا اور کاروبار کا مالک ہو گیا۔ بقیہ جو مکانات اور د کا نہیں کرائے پر تھیں جن کا کرایہ اس کا چپاوصول کرتا، وہ کرایہ بھی تمام اس کو ملے گا۔ مصیبت کے دن تمام ہو گئے مگر بچپن میں اس کے ساتھ ایسی ناقابل برداشت زیادتیاں ہوئیں کہ وہ غلط راستے کا مسافر ہو گیا اور اس غیر فطری عادت کا ہم سفر اس نے بارہ سال کی عمر کے ولایت کو بنالیا۔ اس پر خوب روپیہ خرچ کرتا، اس کو شاپنگ کرواتا، اچھے ہو ٹلوں میں کھانا کھلاتا اور مہنگے تحفے لے کر دیتا، روپے پیسے سے اس کی جیبیں بھر دیتا۔ اس طرح اس نے نادانی کے دور سے گزرتے ہوئے اس لڑکے کو اپنا اسیر بنالیا۔ برہان تنہار ہوتا تھا۔ وہ جب چاہتا، ولایت کو بلا کر اپنی تنہائی دور کر لیتا۔


محبت جتلاتا عورت سے نفرت کے سبق پڑھاتا اور بھی ساتھ نہ چھوڑنے کے وعدے میں لیتا۔ گویاوہ دوستوں جیسی نہیں بلکہ لیلی مجنوں بن کر زندگی گزار رہے تھے۔ اس معاملے کا علم سوائے ان دونوں کے کسی کو نہ تھا۔ تبھی جب ولایت شادی سے انکار کرتا، اس کے ماں باپ اس کو سمجھاتے کہ شادی اور بیوی کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری ہے اور تم ہمارے اکلوتے لڑکے ہو ، ہم تو تمہارے سر پر سہر ادینے کی آرزو میں مرے جاتے ہیں اور تم ہو کہ انکار کر دیتے ہو۔ بڑی مشکل سے تو یہ دن آیا تھا۔ والدین پر ولایت کو ترس آگیا اور اس نے شادی کے لئے ہامی بھر لی۔ برہان کو بھی قسم دے کر یقین دلایا کہ وہ صرف ایک ماہ اپنی دلہن کے ساتھ گزارے گا تا کہ اس کے ماں باپ کو پریشانی نہ ہو۔ اس کے بعد اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہ رکھے گا اور لوٹ کروالیں اس کے پاس آجائے گا۔ لیکن بر ہان کو اس کی بات کا یقین نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شادی کے بعد جب اس کا اپنی بیوی سے دل لگ گیا تو یہ مجھے چھوڑ دے گا اور پھر میرے پاس نہیں آئے گا۔ پس جس روز ولایت کی شادی ہوئی، اسی روز بر ہان نے خواب آور گولیوں کی شیشی پیٹ میں انڈیل کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ اس رات خوب زیادہ شراب بھی پی لی۔ چونکہ تنہار ہوتا تھا، ایک نوکر بھی اس کے پاس ہوتا تھا جو اس کو کھانا وغیر ہ بنا کر دیتا تھا۔ نوکر کا کمرہ چھت پر تھا۔ جب برہان نے خود کشی کی تو اتفاق سے نوکر کو شک ہو گیا کہ وہ زیادہ شراب پی رہا تھا، ملازم کیا کرتا، خاموش رہامگر اسے جو بھی اسے من میں بر ہان کے گرنے کی آواز سنائی دی، وہ چھت سے صحن میں دوڑ کر آیا۔


اس نے فورا ایک ہمسایے کو جگایا اور اس کی گاڑی پر برہان کو اسپتال لے جایا گیا۔ بروقت اسپتال کی جانے سے اس کی جان تو بچ گئی مگر وہ چار دن تک موت و زیست کی کشمکش میں رہا۔ ادھر شادی کے بعد ولایت خشکی کے ڈر سے برہان کی طرف نہ گیا کہ اس کا غم و غصہ کچھ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ابلہ کرے گا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ برہان اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پندر و روز بعد جب اس نے رابطہ کیا و برہان ابھی تک اسپتال میں تھا۔ ملازم کو معلوم تھا کہ ولایت کی نئی شادی ہوئی

ہے۔ لذا اس نے اس کو برہان کے احوال سے آگاہ نہ کیا تھا، بس اتناتایا کہ وہ گھر سے باہر ہے۔ کچھ دنوں کے لئے کہیں چلا گیا ہے۔ جلد لوٹ آئے گا تو وہ اطلاع کر دے گا۔ ولایت شادی کے بعد تو میرے ساتھ کچھ دن ٹھیک رہا لیکن جونہی اس کو علم ہوا کہ اس کی خاطر برہان نے خود کشی کی تھی۔ وہ دیوانہ سا ہو گیا اور دیوانہ وار اس کے گھر پہنچا۔ وہ اب ٹھیک ہو کر اسپتال سے آگیا تھا۔ ولایت نے اس کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی۔


ایک بار پھر وعدے میں ہوئیں کہ فریحہ نام کی بیوی رہے گی۔ صرف ساس سر کی خدمت گزار بن کر جیون بتائے گی اور ولایت پھر سے برہان کے ساتھ ویساہی ہو کر رہے گا جب وہ پہلے سے تھا۔ ولایت نے یہ بات مجھے بتادی اور کہا کہ یا تو میرے ساتھ اسی طرح نباہ کر و جیا میں چاہوں، اس گھر میں رہتی رہو۔ ورنہ شوہر اور باپ کے گھر میں سے کسی ایک گھر کو چن لو۔ میر کی وہی شرط ہے کہ تم میرے کسی معاملے میں مداخلت نہ کرو گی۔ ہر بات پر خاموش رہو گی اور میرے اس راز کی عمر بھر امین ہو گئی۔ اس کو بھی طشت از بام نہ کرو گی۔ میں نے کچھ دیر سوچا۔ پھر کہا اچھا ٹھیک ہے۔ مجھے آپ کی شرائط پر یہاں رہنا منظور ہے مگر میں لوٹ کر سوتیلی ماں کے پاس نہیں جائوں گی اور نہ وہ ساری دنیا میں مجھ کو گندا کر دے گی کہ دیکھو میں نہ کہتی تھی کہ اس کی شادی نہ کرو۔ یہ گھر نہ بسائے گی ، آئی تاواپس طلاق لے کر ولایت میری طرف سے مطمئن ہو گیا کیونکہ میں نے اس کو یقین دلا دیا تھا کہ اس کے والدین کو بھی اس کے ان معاملات کی ہوانہ گئے دوں گی۔


اب وہ دن بھر برہان کے گھر ہوتا اور رات کو گھر آ جاتا لیکن مجھ سے میاں بیوی جیسے رشتے کا کوئی واسطہ نہ رکھا۔ اس ایک دکھ کے سوا مجھے یہاں اور کوئی تکلیف نہ تھی۔ ساس سسر بھی اچھے تھے اور ولایت بھی مجھے کوئی اذیت نہ دیتا | تھا۔ شادی کے پہلے ماہ میں نے خوشی دیکھی تھی، اس کے بعد بھی جیون ساتھی کا قرب نصیب نہ ہوا۔ کہنے کو ہم میاں بیوی تھے۔ ایک گھر میں ایک چھت تلے رہتے تھے مگر اجنیوں کی طرح ایسی باتیں نہیں پہنیں۔ ماموں کو اندازه ہو گیا اور میر ا عم ان کو دیمک کی طرح چاٹے گا۔ انہوں نے کھوج لگالیا کہ بیٹا دن رات کد ھر ہوتا ہے، جس بیٹے کو وہ اپنا کار و بار اپنی دکان سونپنا چاہتے تھے اس کو تو پیسے

کی ضرورت ہی نہ تھی۔


اس کی بھی ضرور تھیں برہان پوری کرتا جب اصل حقائق سے ماموں آگاہ ہو گئے۔ ان کو بہت صدمہ ہوا۔ ان کی ایک جواں سال بیٹی بھی تھی۔ ابھی تو اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق تھی کہ بیٹے کی بے راہ روئی کا راز ان پر کھل گیا۔ ایک روز بر ہان کے ایک پڑوسی کی زبانی بیٹے کے بارے تمام حالات کا علم ہو گیا کہ ولایت اور برہان کی دوستی کی نوعیت کی تھی۔ وہ صدمے سے نڈھال گھر آئے۔ دون خاموش بستر پر گرے رہے اور تیسرے روز ان کی روح قفس عنصری سے پرواز

کرگئی۔ ماموں کی شفقت کے سہا رے تو میں بھی رہی تھی۔ ان کے مرنے کی دیر تھی کہ میرے سارے سہارے ختم ہو گئے۔ ساس کے رویے میں بھی شفقت کی بجائے تخت آگئی۔ وہ مجھے بد صورت اور منحوس ہونے کے طعنے دینے لگی۔ اگر گھر میں کوئی اور باقی رہ گیا تھا تو وہ میری نند در خشاں تھی جو میرا خیال رکھتی اور میرا غم محسوس کرتی تھی ۔ والدہ کی وفات کے بعد تو ولایت میں ایسی تبدیلی آئی کہ وہ گھر کے ہر فرد سے کٹ کر رہ گیا۔ ساری رات غائب رہتا۔ دن کو آتاتو پڑ کر سوار ہوتا جیسے اس کو کسی سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ تب ساس کو احساس ہوا کہ اس کا بیٹا بہت بدل گیا ہے۔ اس کو ماں کی بھی پروانہ رہی تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ میں اور در خشاں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتی تھیں۔ ساس نے ولایت سے کہا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو۔ ماں بیوی اور بہن کا سہارا ہو ، راہ راست پر آجائو ، دکان کو تالا لگ گیا ہے۔


دکان کھولو اور کار و بار سنبھال لو۔ ولایت نے ماں سے دکان کی چابیاں لے لیں اور اس کو دیا۔ رقم جیب میں رکھ لیں۔ اس طرح اپنے والد کا جو بھی سرمایہ تھاسب غصب کر لیا۔ بہن کو کچھ دیا اور نہ ماں کو۔ میری ساس کو اس قدر دکھ پہنچا کہ وہ کڑھنے لیں۔ پیار تو پہلے ہی تھیں۔ بیماری نے زیادہ شدت سے حملہ کر دیا۔ ایک روز وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جا اب گھر میں، میں اور درخشاں رہ گئے۔ درخشاں سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ میں اس کے اور وہ میرے سہارے تیار ہے تھے۔ ولایت ہم کو خرچہ بھی نہ دیتے تھے۔ پڑوس میں ایک ٹیلر ماسٹر رہتے تھے، ان کو ہمارے حالات کا علم تھا۔ وہ میں کپڑے لا کر دیتے اور ہم نند بھاوج مشین پر سلائی کر کے ان کو دیتیں۔ اپنی محنت سے گھر کا خرچہ چلا تھیں۔ اسی محنت کی کمائی سے میں درخشاں کے کانٹے کی فیس اور تعلیم کا خرچہ بھرتی تھی۔ ایک دن ولایت نے مجھ سے کہا کہ مجھ کو پھر تم چاہیے۔ میں نے بتایا کہ تم تو میں نے درخشاں کی فیس میں دے دی ہے۔ کہا کہ تم نے کیوں اس کی میں بھر کی ہے، کس لئے اس کو پڑھارہی ہو۔ کیوں نہ یہ پڑ ھے۔ میں نہ پڑھ سکی تو اس حال میں ہوں۔ یہ تو کم از کم پڑھ لے تاکہ کسی کی محتاج نہ رہے۔


اس بات کے کچھ دن بعد ایک روز در خشاں کا بج گئی تو لوٹ کر نہ آئی۔ میں بہت پریشان ہو گئی۔ پڑوس میں جا کر اس کی ہم جماعت ، آپ کا جاکر پاکر لیں۔ میں کا نچ گئی۔ ان کی ایک لیکچرار وہاں مل گئی۔ اس نے کہا۔ چھٹی ہوئے بھی دو گھنٹے گزر گئے ہیں۔ اس نے رجسٹر چیک کیا۔ در خشاں کی حاضری کی ہوئی تھی۔ میں اور پریشان ہو گئی ۔ گھر پلٹی مگر وہ نہیں آئی تھی۔ شام ہو گئی۔ اب تو میرا دم نکلا جاتا تھا۔ پاس پڑوس سے پتا کیا، کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ رات کو ولایت گھر آیا۔ میں نے بتایا کہ درخشاں کالی گئی تھی۔ ابھی تک نہیں لوٹی۔ کہا کہ اسی لئے کہتا تھا کہ کہ اس کی پڑھائی ختم کر دو۔ تم نے بات نہ مانی۔ اب دیکھ لیا انجام بھی تاتو کر وہ کہاں سے پتا | کرو؟ تھانے جا کر گمشدگی کی رپورٹ لکھوادو۔ آج رات انتظار کر لو شاید آجائے ، صبح جاکر رپورٹ درج کروادوں گا۔ وہ تو نے میں تھا سو گیا اور میں نے ساری رات انگاروں پر گزاری۔ والد کو فون کیا۔ ماں نے بتایا کہ وہ کام سے لاہور گئے ہیں۔ اور کس سے مدد مانگتی یا فریاد کرتی جب سگے بھائی کو بہن کی پروانہ تھی۔


اس رات میں بے ہوش ولایت کو جنجھوڑتی تھی اور وہ کروٹ لے کر سو جاتا تھا۔ کہتا تھاتم عورتوں کا کیا اعتبار، تم سب ایک جیسی ہوتی ہو۔ بھاگ گئی ہو گی وہ بھی کسی یار کے ساتھ میری نند ایسی نہ تھی وہ تو بہت اچھی لڑکی تھی جی چاہتا تھاخود کشی کر لوں۔ یہ کیا بھائی تھا جس کی جواں سال بہن غائب تھی اور اس کو ذرا ملال نہ تھا۔ نہ یہ احساس تھا کہ کتنی بڑی بد قسمتی واقع ہو چکی ہے اور میں اکیلی ر ور و کر نڈھال تھی۔ اس وقت میری دلجوئی کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ کئی دن گزر گئے۔ درخشاں کو مانا تھانہ ملی۔ ولایت چند دن بھاگ دوڑ و کھانے کے بعد آرام سے

بیٹھ گیا۔ اب وہ زیادہ نشہ کرنے لگا اور میں درخشاں کے غم میں دیوانی ہورہی تھی۔ اس کی جدائی میرے دل کا ناسور بنتی جارہی تھی۔ ادھر روز ولایت مجھے کہتا۔ میں تو گھر سے چلا جاتا ہوں اور تم اکیلی ہوتی ہو۔ کسی روز تم بھی غائب نہ ہو جائو۔ تمہارا کیلے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا کرو کہ تم میکے چلی جائو۔ میں نے کہا مر جائوں گی سوتیلی ماں کے گھر نہ جائو گی۔ بے شک تم مجھے مار ڈالو۔ تب کہا اچھا میں اس مکان کو فروخت کر دیتا ہوں۔ تم میرے ساتھ وہاں چل کر رہو جہاں میں رہتا ہوں۔


تم اوپر کے پورشن میں رہو گی اور میں نے اپنے دوست کے ساتھ رہوں گا۔ تم نیچے مت آنا۔ تم کو ہمارا کھاناینان ہو گا۔ تم نہ تو میرے دوست کے سامنے آنا اور نہ اس سے کلام کرنا۔ وہاں اور بھی دوست آتے ہیں ، تاش وغیرہ کھیلتے ہیں۔ اس لئے تمہار اپنے قدم رکھنا بھی منع ہے بلکہ کسی کو پتانہ چلے کہ کوئی عورت اوپر بہتی ہے۔ اور یہ بھی کسی کو مت بتانا کہ تم میری بیوی ہو۔ میں نے یہ بھی منظور کر لیا۔ بالکل

خاموشی سے اوپر ہتی تھی۔ یہ برہان کا گھر تھا نوکر اوپر آکر کھانا لے جاتا اور برتن پہنچا جاتا۔ سارادن میراکام بس کھانے بنانا، چائے بنانا، یہ تھا۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ خودولایت میرے پاس اوپر نہیں آتا تھا اور نہ برہان کے سامنے مجھ سے کلام کرتا۔ وہ نیچے کی منزل میں ہی رہتا سہتا تھا۔ وہاں ہی کھانا اور سوتا بھی وہیں تھا۔ اب می اس کے اس طرح کے عمل کا مطالب خوب اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔ وہ ایسا کر ان کو خوکرنے کے لئے کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ اس بے چاری کا کوئی سہارا نہیں ہے، اس لئے ترس کھا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ کہاں جائے گی، ہمارا کھانا بنادیتی ہے، اس کے عوض دو وقت کی روٹی کھا لیتی ہے۔ اس کے سوا میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آخر کسی دن خود ہی چلی جائے گی۔ہے کہ انسان کے برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ میر کی برداشت بھی ختم ہو گئی، صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اورمیں اپنے والد کی گھر چلی گئی۔ والد تو بوڑھے تھے لیکن ماں ابھی تک جوان تھیں۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور کہا۔


بیٹی مجھ سے ایسی ناراض ہو گئی کہ اپنے بہن بھائیوں تک کو جلا دیا۔ میرے سوتیلے بہن بھائی بھی مجھ سے پیار سے ملے۔ اگلے دن بھائی نے مجھے اخبار لا کر دکھایا کہا کہ آپ کی نند در خشاں گم ہو گئی تھی نا۔ یہ دیکھئے

اخبار ، تصویر بھی ہے۔ اور خبر بھی خود پڑھ لیجئے۔ میں نے اخبار میں خبر پڑھی لکھا تھا، پولیس نے ایک جگہ چھاپامارا، وہاں کچھ لڑکیاں اور چند او پاش مرد پکڑے گئے اور تھانے لائے گئے۔ لڑکیوں کی بھی تصویر میں اور نام لکھے تھے۔ در خشاں کا نام پڑھ کر میں ششدر رہ گئی۔ والد کو مجبور کیا کہ آپ تھانے جائے اور معاملے کا پتا ہے۔ وہ جانے سے گھبرارہے تھے۔ پھر ایک پڑوسی کو ساتھ لے کر گئے ۔ تب معلوم ہوا کہ درخشاں کو برہان نے کالج سے اٹھایا تھا کہ تمہارے بھائی نے تمہیں لیے مجھے بھیجا ہے۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ برہان کو کئی بار دیکھ چکی تھی جو ہمارے گھر پر گاڑی میں ولایت کو لینے آتا تھا۔ وہ معصوم بھی اس کے ساتھ چلی گئی اور اس مردود نے اس کو نجانے کیسے لوگوں کے حوالے کر دیا۔ جب یہ بات ولایت کے علم میں لائی گئی تو اس کو یقین نہ آیا کہ برہان اس کے ساتھ اتنا بڑاو تھو کا کر سکتا ہے۔ جس نے اس کی خاطر والدین کو کھویا، گھر بار کھویا، مکان نہ دیا اور بیوی کو بیوی نہ سمجھا۔ اس نے ایسی مذموم حر کت کی۔ دراصل وہ چاہتا تھا کہ ولایت مجھے طلاق دے دے اور بہن بھی اس کی زندگی میں موجود نہ رہے جس کی خاطر وہ گھر آتا تھا۔


وہ شخص خدا جانے کس قسم کا آدمی تھا۔ ذہنی مریض تھا یا نارمل تھاجو غیر فطری زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے کم عمری میں ولایت کے دماغ کو ایس میں گرفت کیا کہ پھر اس کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکا اور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ والدین نے شادی کی پھر بھی راہ راست پر نہ آسکا، لیکن جب بہن کے اغوا کار کا نام اور اخبار میں خبر پڑھی تو اس پر اس قدر شدید رد عمل ہوا کہ اس کی روح اسی وقت قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اس قدر گر چکی ہیں کہ اب تو یوں لگتا ہے کہ ایک نہیں ان گنت بر ہان ایسے لوگ یہاں نجانے کتنے معصوم ذہنوں کو سیدھے رستے سے بھٹکا کر تباہی کے راستے پر گامزن رکھتے ہوں گے اور نجانے کتے گھر برباد کر رہے ہوں گے  


Post a Comment

0 Comments