Search Bar

Achi Surat Bhe Kiya Buri Shae Hai -اچھی-صورت-بھی-کیا-بری-شے-ہے- Urdu Story

Achi-Surat-Bhe-Kiya-Buri-Shae-Hai-اچھی-صورت-بھی-کیا-بری-شے-ہے-
Achi-Surat-Bhe-Kiya-Buri-Shae-Hai-اچھی-صورت-بھی-کیا-بری-شے-ہے-


اب وہ پہلے ساروپ تو نہ رہا۔ عمر اور وقت کی گرد نے اصل تصویر کو دھندلا دیا ہے مگر آج بھی آئینے کے سامنے ٹھہر کر اپنا جائزہ لیتی ہوں تو نکھری نکھری صورت دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے لاکھوں میں ایک بنایا اور اس حسین چہرے کو دشمنوں کے ہاتھوں سے جھلنے سے بچالیا۔ یہ بہت دور کی بات نہیں ، دس برس پہلے کا قصہ ہے ۔ ان دنوں مجھ پر پھی کلیوں کا ساروپ تھا۔ شہابی رنگت اور نرگسی آنکھوں میں پڑے گلابی ڈورے دیکھنے والوں کو دیوانہ کئے دیتے تھے لیکن مجھے اپنے حسن کی سحر انگیزی کا قطعی احساس نہیں تھا۔ میں اپنی خو بصورتی کے جادو سے ناواقف تھی اور اس ناواقفیت میں اماں کی گہری تربیت کا ہاتھ تھا۔ جب سار از مانہ مجھے حور شمائل گردانتا تبھی اماں مجھے بد شکل اور نکمی صورت کہہ کر دھتکار دیا کر تیں۔انہوں نے بڑی دانائی سے کبھی محسوس نہ ہونے دیا کہ میں غیر معمولی طور پر حسین ہوں ۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں اپنے حسن خوابیدہ سے آشنا ہو جائوں اور خود بینی اور خود آرائی پر مائل ہو جائوں۔ خوبصورتی میں اماں بھی کسی سے کم نہ تھیں۔اگر یہ کہوں کہ حسن بانٹتے وقت خداتعالی نے میرے گھر والوں کے ساتھ بے حد فیاضی سے کام لیا تو بے جانہ ہو گا۔ مجھ سے بڑے چاروں بھائی بھی مردانہ وجاہت کا پیکر تھے۔ میں گھر میں سب سے چھوٹی اور سبھی کی آنکھوں کا تارا تھی۔اماں ، بابا گاہوں ہی نگاہوں میں مجھ پر صدقے واری ہوتے تھے۔ مگر انہوں نے اپنی اس والہانہ چاہت کا کبھی اس طرح اظہار نہیں کیا کہ میں خود سر ہو جاتی یا مجھے اپنی حسین شکل و صورت پر غرور ہو رہتا۔ پرائمری پاس کر کے سیکنڈری میں داخلہ لیا تو اسکول کی لڑکیوں نے میری صورت کو سراہنا اور مجھے باور کرانا شروع کیا کہ میں حسن کی ملکہ ہوں۔ وہ مجھ پر رشک کر تیں تو ان کی ستائش بھری نظروں کا مفہوم سمجھ کر میرا انگ انگ خوشی سے ناچ اٹھتا۔ یہ عمر کا وہ حصہ تھاجب کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش شدید ہو جاتی ہے جو حسن ہو تو دولت کی چاہ ہوتی ہے مگر مجھے تو خدا نے حسن و دولت سبھی کچھ دے رکھا تھا، خود کو خوش نصیب کیوں نہ سمجھتی ۔ انہی دنوں ایک سہیلی کی شادی میں ریان سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ میری سہیلی کا چازاد

بھائی تھا۔ بود و باش سے کھاتے پیتے گھرانے کا لگتا تھا۔ شادی کے ہنگاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ تانیہ میرے بچپن کی ساتھی تھی۔امی نے مجھ کو اس سے ملنے سے کبھی نہ روکا تھا۔ میں اس کے گھر جایا کرتی تھی۔اس کی شادی کے دنوں میں میرا اس کے وہاں آنا جانا بڑھ گیا۔ وہاں ریان بھی ہوتا تبھی اس سے آۓ دن ملاقات ہو جاتی۔ مید رسمی ملاقاتیں چند دنوں میں ہی ایک نئے رنگ میں ڈھل گئیں۔ شادی کا ہنگامہ سرد پڑ گیا لیکن میری ریان سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ وہ میری زندگی میں آنے والا پہلا ساتھی تھا۔ اس کی قربت نے مجھ کو نڈر بنادیا۔ اب اکثر اسکول سے چھٹی کر کے اس کے ساتھ کسی پارک یاریسٹورنٹ میں جابیٹھتی جبکہ اس سے قبل میں ایسی جرات کا سوچ بھی نہ سکتی تھی۔امی سے پوچھے بغیر کسی دوست کے گھر جاتے ہوۓ بھی ڈرتی تھی مگر محبت کے نشے میں ڈوب کر انسان ہر قدغن کو پار کر جاتا ہے ۔ ریان کی چاہ نے مجھے بھی اب ہر خوف سے بیگانہ کر دیا تھا۔ ریان کے بارے میں اتنا جانتی تھی کہ وہ کسی کمپنی میں منیجر ہے ۔ والد مین پنجاب کے کسی قصبے میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں۔اس کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ریان نے بتایا تھا کہ اس کے والد اس حد تک پرانے خیالات کے مالک ہیں کہ انہوں نے بھی رمیں گاڑی کا بھی سفر نہیں کیا ہے۔ وہ ابھی تک گھڑ سواری کے دور میں جی رہے ہیں، کراچی جیسے شہر میں بھی آنے کا نہیں سوچتے۔ یوں بھی سفر ان کے لئے محال تھا۔ بڑھاپے اور بیماری نے ان کو سفر کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ جب ماں کو علم ہوا کہ میں رپان سے شادی کی خواہش مند ہوں تو انہوں نے طریقے سے اپنے طور پر اس رشتے کاتذکرہ میرے بھائیوں سے کیا۔ وہ قطعی راضی نہ ہوۓ ۔ میں اپنے چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ بھلا یہ لوگ کیوں میرا ہاتھ کسی غیر خاندان کے تنہا نو جوان کے ہاتھ میں دینا گوارا کر سکتے تھے۔ گھر والے اس کے ساتھ نہ تھے تو ہی بھائی، ریان کو لاوارث کہہ کر پکار رہے تھے۔ کہتے تھے۔ تنہا بیاہنے کو آنے والا لا وارث ہو تا ہے ،ایسے کو بہن دے کر کیا ہم اپنی بہن کو بھی بے سہار ا کر دیں ؟ گھر والوں کے الفاظ پر میں بر ملا احتجاج کر سکتی تھی لیکن مسلسل خاموشی اور گم صم رہنے سے سب سمجھ گئے کہ میں رشتے کے ٹھکرادینے پر افسردہ ہوں۔ جب ریان کارشتہ میرے بھائیوں نے رد کیا تو اس نے ہمت نہ ہاری۔اس نے امی سے رابطہ رکھا اور یوں ہمارے گھر کی دہلیز پر اتنی بار اماں کے قدموں میں حاضری دی کہ بالآخر میری ماں نے منت سماجت سے بابا جان سے منوالیا۔ بظاہر اس رشتے میں کوئی خرابی نہ تھی، سواۓ اس اعتراض کے کہ ریان کے باپ اس شادی میں شامل نہ ہو سکتے تھے۔ وہ اپنے ٹھور ٹھکانے سے باہر نکلتے ہی نہ تھے۔ بڑے شہروں کی لڑکیاں ان کی نظروں میں آزاد خیال تھیں جو دیہات کی بہوئیں بننے کے قابل نہ تھیں۔ ماں، بھائیوں کو بھی سمجھائیں کہ بیٹیوں کے اچھے رشتے آج کل ملنا مشکل امر ہے اور ریان میں کوئی خرابی نہیں۔ رشتہ چونکہ تم لو گوں کو گھر بیٹھے مل رہا ہے تبھی اس کی قدر نہیں کر رہے ہو۔ غرض ماں کے سمجھانے پر گھر کے سبھی مر دراضی ہو گئے اور یوں چار ماہ بعد میری آرزو دھوم دھام کے ساتھ پوری ہو گئی۔ شادی کے بعد چند ماہ ریان نے مجھے شہر میں اپنے رشتہ دار کے گھر رکھا اور پھر گائوں چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ مجھ کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں تو خود اپنے سسرال والوں سے ملنے کو بے قرار تھی۔ جستجو تھی کہ دیکھوں یہ کیسے لوگ ہیں۔ میں نے کبھی گائوں کی زندگی دیکھی نہ تھی۔ سر سبز و شاداب کھیت ، گنگناتی ندیاں اور بلندیوں پر سے گرنے والے جھرنوں کا ترنم ، دریا کی لہروں سے پھوٹتی موسیقی اور دیہات کے بارے ایسی ہی دلفریب حکایتیں اور پر لطف مناظر کتابوں میں پڑھے تھے یا فلموں میں یہ سب دیکھا تھا۔ جب جیون ساتھی نے خود اس ان دیکھی جنت کو دکھانے کی پیشکش کی تو دل بلیوں اچھل گیا۔ شادی کے بعد پہلی بار سسرال جار ہی تھی ، دل خوف زدہ بھی تھا کہ یہ لوگ شادی میں نہ آۓ تھے ۔ خدا جانے اب کیسا سواگت ہو اور کیسے پیش آئیں۔ سنا تھا کہ دیہاتی محبت والے اور سیدھے سادے ہوتے ہیں مگر ایک اندیشہ تھا کہ وہ بہو کے روپ میں ایک شہری لڑکی کو قبول کر میں گے بھی یا نہیں۔ان کو یہ دکھ تو ہو گا کہ اپنے ہاتھوں بیٹے کے سر پر سہرانہ سجا پاۓ تھے۔ اپنے اس خدشے کاذکر ریان سے کیا تو وہ ہنس دیے۔ کہا۔ پاگل ہو گئی ہو۔ میرے باباجان بے حد مہر بان اور اچھے انسان ہیں اور یہ شادی میں نے ان سے اجازت لئے بغیر نہیں کی ۔ وہ کراچی آنے سے معذور تھے۔ ضعیف اور بڑھاپے کے کارن ہماری شادی میں شرکت نہ کر سکے مگر وہ ہم سے ناراض نہیں رہ سکتے ۔ وہ تم جیسی پڑھی لکھی چاند جیسی بہو کو پا کر نہال ہو جائیں گے ۔ غرض کتنی ہی دیر تک وہ اپنے والد کی دلچسپ باتیں بتاتے رہے اور میں ان کی باتوں میں کھو گئی۔ اس ہفتہ وہ مجھ کولے کر اپنے آبائی قصبے پہنچے۔ گائوں کے دستور کے مطابق انہوں نے مجھے سر سے پیر تک خود کوا یک بڑی سی چادر میں ڈھانپنے کو کہا تھا اور میں نے ریان کے حکم کی تعمیل کی تھی۔ ہم گائوں پہنچے۔ یہ پانچ چھ سو کچے پکے مکانات پر مشتمل ایک آبادی تھی جس کے اطراف میں کھیت ہی کھیت تھے۔ اس علاقے میں میرے نسر اور شوہر کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ راستے میں جو بھی ملا، اس نے ادب سے جھک کر ریان کو سلام کیا اور نیاز مندی سے خیریت پوچھی۔ نیم پختہ سڑک پر کافی دور سفر کرنے کے بعد بالآخر کھیتوں کے در میان سرخ پختہ اینٹوں سے بنے ایک بڑے سے مضبوط گھر کے سامنے ہمارا تانگہ جار کا۔ وسیع ڈیوڑھی پار کر کے ابھی ہم اندر پہنچ بھی نہ پاۓ تھے کہ ہماری آمد کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ ادھر ادھر کے گھروں سے لوگ نکل

ریان بھائی آگئے کا نعرہ ہر زبان پر تھا۔ ریان مجھ کو ساتھ لئے سیدھے اپنے بابا جان کے کمرے میں گئے۔ سفید پیٹیوں سے بناۓ رنگین پائوں والے پلنگ پر ملتانی چھاپے دار پلنگ پوش بچھا تھا اور اس پر گائو تکیہ سے ٹیک لگاۓ ایک تندرست و تنومند شخص بیٹھا تھا۔ قریب ہی پیل کا چمکتا طرح دار حقہ رکھا ہوا تھا جس کو وہ چلم بھی کہتے تھے۔ چلم کی دراز ” نے ان کے لبوں میں دبی تھی۔ سفید لنگی ، کرتے میں ان کاد بد بہ ثابت تھا اور لباس کی نفاست میں اجلا پن ان کی تمکنت کو ظاہر کرنے کو کافی تھا۔ ریان نے ادب سے جھک کر ان کو سلام کیا اور پھر دھیمے لہجے میں نگاہیں جھکا کر میر اتعارف کرایا۔ یہ آپ کی بہو ثمینہ ہے ، سلام کہنے آئی ہے ۔ انہوں نے رعب بھری اک گہری نگاہ مجھ پر ڈالی اور میرے بارے ایک لفظ بھی ان کی زبان سے ادانہ ہوا، صرف کہا تواتنا اچھا... میں سر جھکاۓ چند سیکنڈ کھٹری رہی تور یان گویا ہوۓ۔ ” باباجان ! کیا علم ہے ؟“ اپنے کمرے میں لے جائو اسے ۔ “ ظہر ظہر کر اور چبا چبا کے انہوں نے یہ الفاظ ادا کئے۔ میرے آنسو پلکوں تک آگئے کہ سسر نے پہلی بار دیکھ کر مجھے دعا بھی نہ دی تھی شاید کہ ان کا یہی طریقہ تھا۔ ریان مجھے کمرے میں بٹھا کر چلے گئے ۔اس کے بعد اونچی آواز سے ان کے باتیں کرنے کا آہنگ مجھ کو سنائی دینے لگا۔ وہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کر رہے تھے جیسے دونوں میں کچھ تکرار ہور ہی ہو۔ مجھ کو صرف آواز سنائی دے رہی تھی مگر گفتگو کے معنی نہ سمجھ پارہی تھی۔ میں کمرے کے ایک کونے میں دبکی تھی۔اس اثنا میں ان کی ملازمہ جنت مجھ کو شربت دینے آئی۔ میں نے پوچھا کیا کہہ رہے ہیں یہ جھگڑا ہو رہا ہے کیا...؟ نہیں بی بی ! یہ ایسے ہی بولتے ہیں بس ذرا اونچی آواز میں۔ آپ پریشان نہ ہوں ، آرام کر میں۔ ذرادیر بعد ریان آگئے۔ان کا چہرہ سرخ اور تمتما یا ہوا تھا۔ میں نے بے قرار ہو کر سوال کیا۔ کیا ہوا... کیا کچھ برا بھلا کہا ہے آپ کے باباجان نے ؟ نہیں۔ وہ بولے۔ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ تم میں یہی خرابی ہے ،ذراذراسی بات پر سہم جاتی ہو۔ اس روز کے بعد میری سسر صاحب سے کوئی بات نہ ہوئی۔ سامنا ہو جاتا تو میں نظریں نیچی رکھتی اور سلام کرتی۔ وہ ہوں“ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔اس رویے سے صاف ظاہر تھا کہ خفگی تو تھی ان کو مگر کبھی سخت لہجے میں مجھ سے بات نہ کی۔ یہاں آۓ دوماہ ہو چکے تھے۔ ایک روز ریان شہر گئے ہوۓ تھے اور میں کمرے میں اکیلی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اٹھ کر در کھولا۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ایک نوجوان اور اس کی والد ہ سامنے کھڑے ہیں۔ خاتون میرے سسر کی بہن تھیں اور ساتھ ان کے پچیس سال کا بیٹا ظفر تھا۔ یہ تعارف خاتون نے کرایا اور بولی۔ اچھا! تو تم میری بیٹی کی جگہ لینے آگئی ہو ؟ جس پلنگ پر بیٹھی ہو ، جانتی ہو یہ کس کی سیج ہے ؟ یہ میری بیٹی کی پیج ہے۔اس پر اس کے بیٹے ظفر نے کہا۔ مگر اماں جی... ہم اس کو یہ پیج نصیب نہ ہونے دیں گے ۔ ماں بولی۔ چپ رہو ،اس کا قصور نہیں ، قصور ریان کا ہے ، اس کا کیا لینا دینا۔ کیوں نہیں اس نے تو اس کو پھانسا ہے ۔اگر میری بہن کو کچھ ہو گیا تو میں دونوں کو نہیں بخشوں گا۔ نوجوان کے تیور خطرناک دیکھ کر اس کی ماں نے اسے بازو سے پکڑا اور کھینچ کر باہر لے گئی۔ یہ میری ریان کے قریبی رشتہ داروں سے پہلی ملاقات تھی۔ سسرال والوں سے ملنے کا شوق جھاگ کی طرح دل میں بیٹھ گیا۔ اسی شب آٹھ بجے دوبارہ دروازہ کھلا اور ظفر ہاتھ میں بوتل لئے بے دھڑک میرے کمرے میں داخل ہو گیا۔اس کا

چہرہ وحشت بھر اتھا۔ آتے ہی بولا۔ جانتی ہو میری بہن ریان کی دس برس سے منکوحہ تھی مگر اس نے اس کی زندگی کی خوشیوں کو روند کر تم سے شادی کر لی۔ وہ ابھی سترہ برس کی ہے اور اس نے اس عمر میں خوشی کا منہ دیکھنے کی بجاۓ موت کو گلے لگالیا۔ اس نے کالا پتھر پی لیا ہے اور اسپتال میں موت سے جنگ لڑ رہی ہے۔ میں حیرت سے ظفر کی بات سن رہی تھی۔ وہ طیش میں دیوانہ لگ رہا تھا۔ میں نے پہلی بار اس کی زبان سے ”کالا پتھر کا نام سنا تھا۔ نہیں جانتی تھی کہ دیہات میں لوگ اس سے کیا کام لیتے ہیں۔ بہر حال یہ اندازہ ہو گیا کہ مہرالنساء جور یان کی بچپن سے منکوحہ تھی،اس نے خود کشی کی خاطر یہ پتھر میں کر پی لیا تھا۔ میں تو یہاں کے حالات سے صریح بے خبر تھی۔ کیا معلوم تھا کہ ریان کی منگیتر اس کی پھپھو کی بیٹی ہے اور جب وہ سات سال کی تھی ،اس کی منگنی ہوئی تھی اور دو سال قبل اس کا نکاح ہو گیا تھا۔ رخصتی باقی تھی کہ ریان نے مجھ سے شادی کر لی۔ اس وجہ سے اس لڑکی نے کالا پتھر پی لیا اور اسپتال میں آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اف میرے خدا!

میرے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی جب ظفر نے یہ بتایا۔ میں نے کہا۔ بھائی صاحب ! مجھے کچھ معلوم نہ تھا۔ ریان نے یہ سب نہیں بتا یاور نہ میں کبھی اس سے شادی نہ کرتی مگر وہ جیسے میری آواز ہی نہ سن رہا تھا، اس نے فوراً پیچھے مڑ کر کمرے کی چینی چڑھائی اور یوں میری جانب بڑھا جیسے کوئی شکاری شکار کی طرف بڑھتا ہے۔ میں پیچھے ہٹ گئی ، دیوار سے جاگی۔ مجھے اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تبھی پاس پڑی میز پر رکھی چیز میں میں نے اٹھا اٹھا کر اس کو مار ناشروع کر دیں۔ پائوڈر کاڈ بااور شیشے کا گلدان جو بھی تھا، تاک کر مارا۔ گلدان اس کے ہاتھ میں پکڑی بوتل کو جالگا اور بوتل میں بھر اسیاں اچھل کر ظفر کے منہ اور آنکھوں پر گر گیا۔ اس کا چہرہ، بازو، قمیص سب پر وہ سیال گر گیا۔ اتنے میں سسر صاحب دوڑے آۓ اور درواز پیٹنا شروع کر دیا کیو نکہ جنت دیکھ چکی تھی ظفر تیزاب کی بوتل لئے کمرے میں گھسا ہے۔ ملازمائیں بھی دوڑی آگئی تھیں۔اتنے میں ریان بھی آ پہنچے اور ظفر کو قابو کیا۔ تیز اب جو وہ مجھ پر انڈیلنے آیا تھا، خوداسی میں نہا گیا تھا۔ وہ بری طرح مجلس گیا تھا پھر تکلیف سے بے ہوش ہو گیا، اسے اسپتال لے گئے۔ حویلی میں شور و غل تھا۔ نوکر چاکر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ نجانے کس نے پولیس کو خبر کر دی تھی۔ ڈاکٹر کے ساتھ پولیس بھی آگئی تھی۔ جس نے میرابیان قلمبند کیا۔اب یہاں رہنامیرے لئے خطرے سے خالی نہ تھا۔ پس میں نے خواہش کی کہ مجھے میرے میکے پہنچادیا جاۓ۔ پولیس کی حفاظت میں ہی میں میکے آئی تھی۔ پولیس کو میں نے یہی بیان دیا کہ مجھ پر ظفر صاحب تیزاب پھینکنے آۓ تھے مگر تعاقب میں دوڑ بھاگ کے نتیجے میں میں خود ہی مسہری سے ٹکرا کر گر پڑے چونکہ انہوں نے بوتل کا ڈھکن کھول رکھا تھا لہذا تیز اب ان ہی کے اوپر گر گیا۔ کیس چلا ، جانے کیا ہوا، کیسے چلا ، کیسے ختم ہو گیا۔ ریان مجھے لینے آۓ ، میں نہ گئی۔ بھلا کیو نکر جاتی۔ میرے والد اور بھائی سینہ سپر ہو گئے کہ ایک بار خدا نے ہماری بہن کو بچالیا ہے ، بھیجا تو سسرال والے جانے اس کا کیا حشر کر میں۔ میں خود بھی وہاں کے لوگوں اور سسرال کے ماحول سے ڈر گئی تھی۔ ریان کی منکوحہ بھی بچ گئی تھی لہذاوہاں جانے کا مطلب سوتن کو قبول کر نا یا اس کے بھائیوں کے انتقام کا نشانہ بنا تھا۔ دل پر پتھر رکھ کر میں نے ریان کی محبت کو دفن کیا اور والد صاحب کی رضا سے طلاق لے لی۔اس کے بعد دوبارہ شادی نہیں کی۔ لوگ کہتے ہیں حسن بھی دولت ہے کہ جس کو خدادے مگر میں سمجھتی ہوں بہت زیادہ خوبصورتی بھی جان کے لئے خطرہ بن جاتی ہے جیسے دولت کے پیچھے لٹیرے لگ جاتے ہیں ، ویسے ہی اچھی صورت کے پیچھے بھی میلی نگاہیں لٹیرے بن کر پڑتی ہیں۔ سوچے خدا ناخواستہ اس روزا گراپنے

ارادے میں کامیاب ہو جاتا تو میرے حسن کا کیا حال ہوتا۔ آج بھی آئینہ دیکھتی ہوں تو یہی سوچتی ہوں صد شکر کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوا اور میری صورت بگڑنے سے بچ گئی


Post a Comment

0 Comments