Search Bar

Fun Zone Urdu Story Aik-Bar-Milona-ایک-بار-ملونا

 

Aik-Bar-Milona-ایک-بار-ملونا
Aik-Bar-Milona-ایک-بار-ملونا

وہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی ۔ نام تواس کا شاہانہ تھا مگر پیار سے گھر والے اسے شینی پکارتے تھے۔اس کا کوئی بھائی نہ تھا، نہ بہن... جب تک باپ حیات رہا، اس نے بیٹی کو آرام ، پیار اور سکون کی زندگی دی،اس کی ہر خواہش پوری کی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مغرور اور خود سر ہو گئی تھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا، تب شینی سیانی ہو چکی تھی۔ وہ اب کسی کو خاطر میں نہ لاتی ، ہر بات میں من مانی کرتی ۔ اس کو قابو میں رکھنا گھر والوں کے لئے مشکل ہو گیا۔ وہ اب سترہ برس کی ہو چکی تھی۔اس پر روپ آنے لگا۔ وہ روز بروز نکھرتی جاتی تھی۔اس کے ساتھ ہی غمزہ اداس بھی ہو رہی تھی۔انہی دنوں کھیت سے ساگ توڑتے سے اس کی ملاقات میر و سے ہو گئی۔ دونوں کے دلوں نے ایک دوسرے کے سگنلز وصول کئے اور چاہت کے سگنلز کے ذریعے آنے جانے لگے ۔ ان کے نپیچ ملا قاتیں ہونے لگیں اور پھر گہرے مراسم پیدا ہو گئے۔انہوں نے بہت احتیاط کی کہ ان کار از دنیاوالوں پر آشکار انہ ہو سکے لیکن یہ محال تھا کہ ایسے تعلق چھپتے نہیں۔ ان کے بیچ کی بات نکل گئی۔ اڑتی اڑتی شینی کی ماں زبیدہ کے کانوں تک پہنچی۔ وہ سناٹے میں رہ گئی۔ بھاگی ہوئی اپنے بھائی کے پاس پہنچی اور دل پر ہاتھ رکھ کر دکھڑا بیان کیا۔ اس کے بھائی نے مشورہ دیا کہ شاہانہ کی شادی کر دینی چاہئے ، کہیں ایسانہ ہو کہ پانی پلوں سے گزر جاۓ اور پھر اس غفلت کی تلافی ممکن نہ رہے۔



زبیدہ کے بھائی نے یہ بھی پیشکش کی کہ وہ بیٹی کو بہو بنانا چاہتاہے ،اس طرح لڑ کی گھر میں رہے گی اور مسئلہ بھی حل ہو جاۓ گا۔ شینی کی ماں نے مگر انکار کر دیا۔ کہا۔ بھائی ! مر حوم شوہر کی وصیت سے مجبور ہوں۔ مرتے دم اس نے وعد لیا تھا کہ شینی کی شادی اس کے بھائی کے لڑکے جہار سے کروں گی۔ جب اس نے یہ وعدہ لیا تھا، اپنے بھائی کو بطور گواہر و بر و بٹھالیا تھا۔ اب قول سے منکر نہیں سکتی ورنہ وہ یہ بات تنازع کی صورت برادری میں لے جاۓ گا۔ اب تم سے یہ التجا ہے کہ سر پرست بن کر میری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر عزت سے اس کی رخصتی کر دو۔ انور نے ز بیدہ کو تسلی دی کہ فکر نہ کرے ، جیساوہ چاہے گی ، ویسا ہی ہو گا۔ ماموں نے اس کے بیاہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب شینی کو علم ہوا کہ اس کو دلہن بنانے کے سامان ہو رہے ہیں، وہ سخت مضطرب ہو گئی۔ ماموں سے ڈرتی تھی ،ماں سے احتجاج بیکار تھالہذا اس نے اپنے محبوب امیر بخش عرف میر و سے کہا کہ اب دوسرا کوئی راستہ نہیں ، ماں اور ماموں مانیں گے نہیں اس لئے چلو بھاگ چلیں لیکن اس کا محبوب میر و شریف تھا یا بزدل...اس نے شاہانہ کی تجویز کی حوصلہ افزائی نہ کی اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ یہ قدم اٹھانے سے باز رہے۔ کہا۔ ہمیں شریفانہ طریقے سے ایک دوسرے کا ہونے کی کوشش کر نا چاہئے۔ تم خوابوں کی دنیا میں مت رہو ، یادر کھو کہ سیدھے طریقے سے تو تم مجھے کبھی بھی حاصل نہ کر سکو گے ۔ماموں نہ صرف انکار کر دیں گے بلکہ تم لوگوں کی بے عزتی کرنے سے بھی باز نہ رہیں گے۔


شینی نے ٹھیک کہا تھا۔ میر و کارشتہ حقارت سے ٹھکرادیا گیا اور برا بھلا بھی کہا گیا۔ وہ شدینی سے محبت کرتا تھا تبھی خاموشی سے ذلت سہہ کر ان کے گھر سے نکل گیا۔ اس ناکامی پر ایک بار پھر شینی نے اس کو بھاگنے پر اکسایا۔ منصوبہ بنانے کے باوجود عین وقت پر وہ اس منصوبے پر عمل نہ کر سکا۔ یوں روتی دھوتی شینی دلہن بنی چازاد کے گھر آگئی۔ رخصتی کے وقت گھونگٹ میں بھی اس نے ماں سے یہی کہا تھا کہ اب مجھ کو دعائیں دے کر وداع کی ضرورت نہیں۔ اگر میں میر و کی نہ بنی تو میر انام شاہانہ نہیں۔ تم مجھے چمارن کہنا۔ تم نے اپنی ضد کو پورا کیا،اب دیکھ لینا تمہاری شاہانہ کیا کرے گی۔ تب تم مجھ سے گلہ بھی مت کرنا کیو نکہ تم نے تو اپنی سی پوری کر لی ہے ۔ اماں خاموش اس کی سنا کی۔ سوچالڑ کی نادان ہے ، شوہر کا پیار مل جاۓ گا تو ماضی بھلادے گی۔ابھی غصہ ہے ،اول فول بک رہی ہے ۔ کہتے ہیں جہاں دل نہ ملیں ، وہاں مصلحتیں گرد ہو جاتی ہیں۔ شادی جسموں کا نہیں ، روحوں کا ملاپ ہے ، تجھی دلی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔ شینی کی روح جبار سے نہ مل سکی۔ وہ اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو رہی۔ شوہر بھلامانس تھا مگر اس بچارے کو اپنی دلہن کے دل میں اٹھنے والے طوفان کا علم نہ تھا۔ وہ اس کو اپنی شریک حیات قبول کر چکا تھا اور چائو سے بیاہ کر لایا تھا۔ وہ توایک نارمل آدمی کی طرح صبح کام پر جاتا، رات کو تھکا ہارا گھر آتا۔ بھی بیوی سے پیار و محبت جتلاتا اور کبھی تھکن سے چور یو نہی پڑ کر سورہتا مگر شینی کے جسم و جاں میں جوالا کو دہک رہا تھا، وہ رفتہ رفتہ آتش فشاں کے روپ میں ڈھلنے لگا۔


جس قدر وہ خود پر جبر کرتی ،اسی قدر میر و یاد آتا اور اس کی دلی تکلیف بڑھ جاتی۔ وہ ایسی عور توں میں سے نہ تھی جو قربانی دینا جانتی ہیں ، پس غصہ اندر ہی اندر دو چند ہوتا جاتا تھا۔ ہر لمحہ اپنے محبوب کی یاد اس کو بے چین رکھتی تھی۔ جلد ہی وہ اس ذہنی عذاب سے نیم جان ہو گئی۔اس کی زند گی اب اس کے لئے جہنم بن چکی تھی۔اس پر ستم یہ کہ شادی کے ثمرات بھی ملنے لگے اور وہ تین برسوں میں دو بچوں کی مان بن گئی۔ اب اس کی ذات کی تقسیم شروع ہو چکی تھی۔ ادھر بچے اور گھر بار ،ادھر محبوب کی یاد اور اس کی چاہت...اس نے کسی طرح میر و کوسند یسے بھجوانے شروع کر دیئے کہ مجھ سے ملو، میں تمہارے لئے بہت اداس ہوں۔ میر وا گرچہ شریف النفس تھا مگر تھا تو انسان۔ کچھ عرصہ اس نے شینی سے دوری بناۓ رکھی پھر دل سے مجبور ہو گیا حالانکہ وہ چاہتا نہ تھا کہ شاہانہ کی زندگی میں لوٹ کر جاۓ جبکہ وہ اب بیاہتا تھی اور یہ بات اس کے نزدیک معیوب تھی مگر شینی کو خود پر ذرا بھی قابو نہ رہا۔ وہ لگاتار اسے کسی نہ کسی طور سند کیسے بھجواتی رہی۔ اس کے پیغامات نہ تھے ۔ وہ خدا کے واسطہ دیتی تھی کہ بس ایک بار ملو۔


میر و کب تک دل پر جبر کر تا جبکہ محبوبہ دلنواز رورو کر بلاتی ہو وہ پتھر دل نہ رہ سکا۔ دونوں کی ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ محبت کا خطر ناک کھیل پھر سے جاری ہوا کہ جدائی نے جلتی پر تیل کی کام کیا تھا پھر تو یہ آگ ایسی بھٹر کی کہ آنکھوں کے آگے دبیز پر دے پڑ گئے اور سدھ بدھ ہی جاتی رہی۔ رات نصف شب گزر جاتی تو جبار گہری نیند سو جاتا۔ شینی جان خطرے میں ڈال کر میر و سے ملنے نکل کھڑی ہوتی۔ ایک رات جب وہ کھیتوں کی طرف میر و سے ملنے نکلی تو کتوں نے اسے آلیا اور بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھالیا تو اس کی خوش قسمتی کہ میر وقریب ہی تھا جس نے اس کو کتوں سے بچایا اور ان کو ڈرا کر بھگاد یاور نہ ساری بستی ہی اس رات جاگ کر ان پر حملہ آور ہو جاتی۔ اب کھیتوں میں ملنے میں خطرہ تھا۔ شینی نے میر و کو مجبور کیا کہ وہ اس کو اس کے گھر میں آ کر ملے ۔ یہ تواور بھی پر خطر راہ تھی مگر براہو عشق کا کہ اس کو لطف ہی پر خطر راہ پر چلنے میں آتا ہے۔ بالآخر محبوبہ کے مجبور کرنے پر وہ راضی ہو گیا۔ یہ کہنا چاہئے کہ اس کی مت ماری گئی کہ یہ دونوں جہار کے گھر کے اندر ملنے لگے ۔ جب رات گہری ہو جاتی اور جبار دن کی مشقت سے تھکا ہارا نیند کی آغوش میں بے خبر سو جاتاتو جان کو خطرے میں ڈال کر میر و، شینی سے ملنے اس کے گھر میں آجاتا۔ وہ اس کے آنے کے وقت سے ذرا پہلے دبے قدموں ڈیوڑھ میں جاکر کنڈی کھول دیتی تھی۔


وہ رات کے اندھیرے میں اس کے پاس آتا اور پو پھٹنے سے قبل چلا جاتا۔ ی روز تو نہ ملتے تھے ، مہینے میں تین ، چار بار میر و کو جان ہتھیلی پر رکھ کر شینی کی خوشی کی خاطر کانٹوں کی اس باڑ کو پھلانگنا پڑتا تھا کیونکہ وہ گھر سے باہر اس سے ملنے سے قاصر تھی۔ اس روز شام سے ہی بادل گھرے ہوۓ تھے۔ میر و کوشبینی کا سندیسہ ملا کہ آج ملا قات کا موسم ہے۔ موسم واقعی سہانا تھا۔ آج رات تم کو آناہی ہو گا۔ یہ سندیسہ اسے ملا تو وہ شام سے ہی رات کا انتظار کرنے لگا۔ جبار کام سے گھر آیا۔ وہ آج بہت تھکا ہوا تھا۔ سارادن تھریشر پر چڑھ کر بھاری کام نمٹایا تھا، تمام فصل سے بھوسہ الگ کر کے سمیٹ بھی دیا تھا۔ آج وہ بے حد تھک گیا تھا۔ بادل دیکھ کر اس نے کہا۔ شینی ! رات کو بارش ضرور ہو گی ، کھانا دے تاکہ میں سو جائوں۔ کھانا کھا کر بارش کے خیال سے وہ صحن میں سونے کی بجاۓ اس کمرے میں جاکر سو گیا جہاں اس کی بیوی میر و سے ملتی تھی۔ گھر میں دو ہی کمرے تھے۔ دوسرے کمرے میں ساس، سسر اور دیور سور ہے تھے۔ آج وہ بھی صحن کی بجاۓ اندر جاسوۓ تھے کہ بارش ہو گی تو نیند خراب ہو گی۔ اب شینی پریشان تھی کہ میر و کوسندیسہ بھیج چکی تھی۔ کھلے صحن میں اس کے ساتھ باہر بیٹھنا خطرے کو آواز دینا تھا، اوپر سے بارش ہوگی تو... اس کے کمرے میں دو ہی چار پائیاں تھیں۔ایک پر جبار سور ہا تھا اور دوسری چار پائی پر اس نے اپنے دونوں لڑکوں کو سلادیا تھا۔ خود اس کے سونے کو کونے میں ایک کھٹیا پڑی رہ گئی تھی۔ ابھی بوندا باندی شروع نہ ہوئی تھی۔ رات کو آدھی بیت گئی تھی۔اس نے گھڑی دیکھی اور دبے قدموں صحن پار کر کے بیرونی دروازے کی کنڈی کھول کر آگئی۔اس کے کان صحن کی جانب لگے تھے۔


نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے کھیا کو اس چار پائی کے ساتھ برابر کر کے بچھادیا جس پر اس کے بچے سور ہے تھے، کمر سیدھی کرنے کو وہ لیٹ گئی۔ کھٹکاکئے بغیر میر ودبے قدموں سے کمرے میں آ گیا۔ اسے دیکھ شینی کی جان نکل گئی۔ شینی نے آہستہ سے بازو سے پکڑ کر فرش پر بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور خود بھی اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی۔اتنے میں بارش کے گرنے کی آواز آنے لگی۔ وہ اس کے کان کے پاس منہ لے کر سر گوشی میں بولی۔ میں نے تم کو بلواتو لیا پھر منع نہ کرواسکی۔اب باہر برآمدے میں چلو، یہاں جہار اور بچے سور ہے ہیں، کسی کی آنکھ کھل گئی تو... جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ اس کو کمرے سے باہر لے آئی۔ خدا کی کرنی کہ ہلکی بارش چشم زدن میں تیز ہو گئی اور پھر موسلادھار مینہ برسنے لگا۔ پاۓ رفتن نہ جاۓ....ماندن۔ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کیا کر میں کہ کھٹکا ہوا اور سسر کے کھانسنے کی آواز آئی۔ وہ سمجھ گئی سر بارش کا جائزہ لینے بر آمدے میں آنے والا ہے ۔ تم گندم کی کوندی کے پیچھے ہو جائو، میرا ایک نظر بھینس اور گاۓ پر ڈال کر واپس چلا جاۓ گا۔ اتنے میں لاٹھی ٹیکتے سسر بر آمدے میں آگئے۔ یہ دونوں جہاں بیٹھے تھے ، وہاں ہی بیٹھے رہ گئے۔ صد شکر کہ بوڑھے کی بینائی کمزور تھی اور دیئے کی روشنی مد ہم ۔اس نے ادھر دیکھاجد ھر یہ بیٹھے تھے۔ جانوروں کو باڑے کے اندر پایاتو مڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تب ان کی جان میں جان آئی۔اگرچہ مینہ تیز برس رہا تھا مگر اب میر و کامزیدر کناموت کو دعوت دینا تھا۔


وہ برستی بارش میں چلنے کو ہوا، تبھی بچے کے رونے سے جبار کی آنکھ کھل گئی۔ بیوی کو کمرے میں نہ پا کر اس نے لالٹین ہاتھ میں پکڑی اور برآمدے میں آیا۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر ترنت میر و کو ندی کے پیچھے چپ گیا اور شینی تیز قدموں سے کمرے کو لپکی ۔اس نے شوہر کو د ہلیز پر جالیا۔ کد ھر چلی گئی تھی؟ بچے کے رونے کا ہوش نہیں ، میری نیند خراب کر دی اس نے ۔ میں دیکھنےگئی تھی کہ مویشی صحن میں تو نہیں رہ گئے ہیں، بارش ہورہی ہے تبھی.. وہ یہ کہتی جلدی سے بچے کے پاس گئی اور اس کو پہلو میں لٹا کر خود اس کے پاس لیٹ گئی۔ بھنبھنا تا شوہر بھی آکر اپنی چار پائی پر لیٹ گیا۔ وہ اب اس کے سو جانے کا انتظار کرنے لگی۔ میر وبدستور کو ندی کے پیچھے کھڑا تھا۔ مٹی کی کوندی جس میں گندم ذخیرہ کرتے تھے، اس وقت وہی اس کے جان بچانے کا ذریعہ بنی تھی۔ بارش زور د کھا کر اب تھم گئی تھی، حبس ہورہا تھا۔ جبار کو نیند نہ آرہی تھی۔ وہ اٹھ کر برآمدے میں آیا اور وہاں پڑی چار پائی پر ڈھے گیا۔ چار پائی ایسی جگہ بچھی ہوئی تھی کہ کوندی کے پیچھے سے نکل کر دروازے کی طرف جانے کار استہ بند ہو گیا تھا۔ اب جبار کے سو جانے کا انتظار لازم تھا جس سے میر و کادم گٹھنے لگا مگر جہار کے خرانٹوں کی آواز نے اس کو سہاد یا۔ وہ گہری نیند سو گیا تھا مگر سسر کو نیند نہ آرہی تھی۔اس کو اندر کو ٹھری میں گرمی لگنے لگی۔ وہ چار پائی اٹھا کر صحن میں لا یا اور بیرونی دروازے کے پاس ڈال کر سو گیا۔ اب میرو نے خود کو کوسا۔ واہ! دیہاتی کی عقل ... عورت کے کہنے میں آیا اور موت کے گڑھے میں آنچنسا۔


بوڑھا سونے کا نام نہ لے رہا تھا اور رہ رہ کر کروٹیں بدل رہا تھا۔ کم بخت نے چار پائی بھی ایسی جگہ ڈالی ہے کہ ادھر سے نکل کر دروازے تک جانے کاراستہ مسدود ہو گیا ہے تبھی اس کے سونے کا انتظار لازم تھا۔ کمرے کے اندر حبس کے باعث دم گھٹنے لگا۔ شینی کابچہ کمایا اور رونے لگا۔ شینی نے گھبرا کر بچے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ کہیں اس کے رونے سے شوہر کی آنکھ نہ کھل جاۓ اور وہ اٹھ بیٹھے ۔اس طرح چپ ہونے کی بجاۓ دم گٹھنے سے بچے نے اور زور لگا کر روناشروع کر دیا۔ گھبراکر شینی نے کس کر اس کا جبڑا اپنی مٹھی میں بھینچا کہ اس کی سانس بند ہوگئی اور ساتھ رونے کی آواز بھی۔ بچہ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ شینی نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے ہٹالیا اور اس کی ناک کے پاس ہاتھ لے جا کر سانس دیکھنے لگی۔ ابھی اس کے حواس ٹھکانے نہ آۓ تھے کہ دوسرے بچے نے پہلو بدلا اور رونا شروع کر دیا۔ اس کی آواز کو خاموش کرنے کو اس عورت نے پھر سے وہی عمل دہرایا۔ چند سکینڈ میں ہی دوسرا بچہ بھی خاموش ہو گیا۔ جبار اور سر دونوں سو گئے تو شینی آہستہ آہستہ قدم بھرتی کو ندی کے پیچھے آئی اور میر و کو بازو سے کھینچ کر کمرے میں لے آئی۔ بولی۔


اب تو کسی طرح باہر نکل جا، بچے پھر سےجاگ گئے تو باہر نہ جاسکے گالیکن تم نے ان کو خاموش کیسے کیا؟ منہ کو ہاتھ سے بند کر دیا تھا۔ اسے شک ہوا۔ کہا۔ دیکھو تو کہیں سانس تو ہمیشہ کو بند نہیں ہو گئی ؟ہاں ! ہو تو گئی ہے۔ ارے کہیں مر تو نہیں گئے ؟ ماں نے باری باری دونوں کی ناک پر ہاتھ رکھ کر سانس جانچی۔ ہاں ! مر گئے ہیں ،اب تو نکل اپنی جان بچا ! چا کھانس رہا ہے ، وہ بھی نہیں سویا۔ کھڑ کی سے ادھر کو نکل کر پچھلی دیوار سے باہر کو د جا۔ عورت کا حوصلہ دیکھ میر و کا سر گھوم گیا۔ اسے لگا اس کے پاس دیئے کی مدھم روشنی میں ان معصوم بچوں کی ماں نہیں کوئی ڈائن کھٹڑی ہے ۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔اف...اف ! تو عورت ہے کہ ڈائن ؟ یہ کہہ کر وہ کمرے کی عقبی کھڑ کی سے نکل بھاگا۔ پچھلی جانب کی دیوار پر چڑھا اور دھم سے باہر کو گیا۔ آواز پر سسر نے پکارا۔ یہ کیسی آواز تھی۔ ارے... کون ، کون کرتا وہ اٹھ بیٹھا۔ بھاگنے والا بھاگ گیا اور وہ کون کون کر تارہ گیالیکن گائوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ میر واس عورت کی سفاکی سے ڈر کر ایسا گیا کہ پلٹ کر گائوں بھی نہیں آیا۔ وہ ہم راز دوستوں سے کہتا تھا۔ یارو! سمجھ میں نہیں آتا کوئی عورت ایسی سنگ دل بھی ہو سکتی ہے کہ عشق کے پیچھے بچوں کو ہی مار ڈالے۔ میں ایسی عورت کی محبت سے باز آ یا۔ دوسری بار ملنے کا اب تصور بھی نہیں کر سکتا جبکہ شینی کے سند یسے اس اندوہناک واقعے کے بعد بھی ملا کرتے تھے کہ اک بار ملونا...  


Post a Comment

0 Comments