Search Bar

Tanhaiyaan Jo Muqaddar Tehrien | Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Tanhaiyaan Jo Muqaddar Tehrien  Teen Auratien Teen Kahaniyan


یہ اس چمکتے ہوئے شہر کراچی کی کہانی ہے جہاں بڑی بڑی کو ٹھیاں ہیں، اونچی اونچی عمارتیں ہیں، گاڑیوں کے ریل پیل ہے اور بہت دولت مند لوگ رہتے ہیں۔ بعض تو اتنے امیر کبیر ہیں، لگتا ہے کہ قارون کا خزانہ انہی کے پاس ہے۔ لیکن ضروری نہیں یہ دولت انہوں نے صرف محنت سے ہی کمائی ہو ۔ محنت کے علاوہ بھی کچھ طریقے آزمانے پڑتے ہیں۔ ایسے دائو پیچ صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو تھوڑے عرصے میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں راتوں رات امیر بننے کا شوق ہے تو بے جانہ ہو گا۔

میرے ابو جس کمپنی میں ملازمت کرتے تھے ، اس کے مالک کا نام سیٹھ عدنان تھا۔ سیٹھ عدنان کچھ عرصے قبل اتنا امیر آدمی نہ تھا۔ پھر یکا یک کاروبار میں ترقی ہونے لگی اور دولت ان کے گھر کے دروازے توڑ کر اندر آنے لگی۔ ان کا کار و بار پھیلتا ہی چلا گیا۔ اپنے ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی کارو باری روابط قائم ہو گئے۔ ایک بار انہیں کاروبار میں غیر معمولی منافع ہوا تو سیٹھ عدنان نے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ میرے ابو جان نے پہلی بار امی سے کہا کہ تم بھی دعوت میں چلنا، دوسرے لوگوں کی بیگمات بھی آئیں گی۔ امی جان ایسی تقاریب سے گھبراتی تھیں لیکن ابو کے اصرار پر چلی گئیں۔ دعوت میں ابو نے سیٹھ صاحب سے امی کا تعارف کروایا۔ امی ایف اے پاس اور بہت خوبصورت خاتون تھیں مگر زیادہ فیشن نہیں کیا کرتی تھیں۔ سیٹھ صاحب کو ان کی سادگی بہت پسند آئی۔ دعوت کے چند دن بعد وہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ امی جان اور میرے لئے کچھ تحفے بھی لائے جنہیں ہم نے خوشی سے قبول کیا۔ ابو جان نے ان کی اس عناست کو اپنی عزت افزائی خیال کیا اور بہت خوش ہوئے کہ سیٹھ صاحب نے ان کے گھر آکر ان کی شان بڑھائی۔

اس کے بعد بھی سیٹھ صاحب ہفتہ عشرے میں ایک بار ہمارے گھر آنے لگے۔ وہ امی جان کو بھا بھی کہتے اور میرے لئے ٹافیاں اور کھلونے ضرور لاتے۔ ایک روز سیٹھ صاحب ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے۔ منان میاں ہم آپ کے لئے خوش خبری لائے ہیں، پھر جو خوشخبری انہوں نے ابا جان کو سنائی تو اس کو سن کرا بوخوش بھی ہوئے اور فکر مند بھی۔ خوش اس لئے کہ کمپنی نے ان کا عہدہ اور تنخواہ بڑھادی تھی، فکر مند اس لئے کہ اس پوسٹ پر ان کو امریکا جانا

تھا۔

سیٹھ صاحب نے جن کو میں انکل کہتی تھی، ابو جان کو تسلی دی اور کہا کہ تمہارے امریکا سیٹل ہو جانے کے بعد میں تمہاری بیوی اور بیٹی کو بھی تمہارے پاس بھجوانے کا انتظام کر دوں گا۔ اس موقع کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ ابو نے ان کا مشورہ مان لیا اور امریکا جانے کی تیاری شروع کر دی۔ ابو کے امریکا جانے کے بعد گھر میں ایک طرف اداسی چھا گئی تھی تو دوسری جانب خوشحالی بھی آگئی تھی کیونکہ وہ ہر ماہ ہمیں کافی رقم بھجوانے لگے تھے۔ ابو جان کی غیر موجودگی میں انکل ہمارے گھر وقتاً فوقتاً آتے، خیر خیریت دریافت کرتے۔ اکثر بہت سی اشیائے ضرورت بھی دے جاتے۔ امی جان ان کے ساتھ تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ جاتیں، چائے وغیر ہ دیتیں مگر ان کے چہرے سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے وہ بادل ناخواستہ مہمانداری کا یہ فرئضہ نبھانے پر مجبور ہوں۔ سیٹھ صاحب کے گھر آنے سے انہیں بالکل خوشی نہیں ہوتی تھی۔ میں ان دنوں کافی چھوٹی تھی، نہیں جانتی تھی کہ سیٹھ صاحب امی جان سے کس قسم کی باتیں کر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھ کو ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ان کی باتوں سے امی کو غصہ آجاتا ہے مگر وہ ضبط کر لیتی ہیں۔

دو سال بعد ابو امریکا سے پاکستان واپس آئے۔ وہ بھی چھٹی پر انہوں نے سیٹھ صاحب سے کہا۔ میں گھر سے دور اداس رہتا ہوں ، آپ مجھ کو واپس وطن بلوائیں۔ سیٹھ صاحب نہیں چاہتے تھے کہ اتنا قابل آدمی وہ پوسٹ چھوڑ کر امریکا سے واپس آئے۔ لیکن بہت مجبور کرنے پر آخر کار سیٹھ صاحب کو ابو جان کی بات ماننی پڑی۔انہوں نے ابو کو وطن تو

بلالیا لیکن کراچی میں جگہ نہ دی بلکہ پشاور اپنی کمپنی میں بھجوادیا کہ کچھ عرصہ وہاں رہو پھر کراچی بلوالوں گا۔ امریکا سے پشاور پھر بھی بہتر تھا۔ ابو ملازمت نہ چھوڑ سکتے تھے لہذا اپشاور جا کر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ انہیں وہاں گئے تین ماہ ہوئے تھے کہ ہمیں گھر پر اطلاع ملی کی منان صاحب کا پشاور میں ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ فوت ہو گئے ہیں۔اس جانکاہ صدمے سے امی جان کی حالت بگڑ گئی۔ اگر انکل عدنان (سیٹھ صاحب) امی کو سہارا نہ دیتے اور کافی عرصہ تک اسپتال میں ان کا علاج نہ کرواتے تو امی یقیناً اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکتی تھیں۔ مگر یہ انکل کی مہر بانیاں تھیں کہ وہ یہ صدمہ برداشت کر گئیں۔

ابو کو فوت ہوئے دوسال بیت گئے۔ انکل نے نہ ہم سے کمپنی کی طرف سے دیا ہو امکان خالی کرایا اور نہ ہی کوئی نوٹس دیا۔ ہمیں ابو کی تنخواہ بھی باقاعدگی سے کمپنی کی طرف سے مل رہی تھی۔ تیسر اسال شروع ہوا تو اچانک ابو کی تنخواہ روک لی گئی اور مکان خالی کرنے کا نوٹس بھی دے دیا گیا۔ پھر ایک دن انکل عدنان سمارے گھر آئے اور امی سے کچھ باتیں کرتے رہے۔ وہ مسلسل انکار کرتی رہیں اور روتی رہیں۔ ان کے جانے کے بعد وہ مجھ سے چمٹ کر روئیں۔ وہ مجھ

کو شدت غم سے بھینچ لیتی تھیں اور ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی تھیں کہ ہائے صنوبراب تیرا کیا ہوگا؟ دوسرے دن انکل عدنان پھر آئے اور کہنے لگے دیکھو عارفہ ! میری بات مان لو اس دنیا میں تن تنہا سہارے کے بغیر جینا بے حد مشکل بھی ہے اور دشوار بھی۔ پھر تمہاری بچی کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ

میری بات مان لو۔ پھر امی نے ان کی بات مان لی اور خاموشی سے امی جان کی سادی سیٹھ صاحب سے ہو گئی۔ انکل عدنان مجھ کو بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے اپنے پانچ بچے پہلی بیوی سے تھے۔ پہلی بیوی کو انہوں نے زندگی کے ایک موڑ پر کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی۔ دو بچیاں وہ ساتھ لے گئی تھیں اور تین بیٹے انکل نے اپنے پاس رکھ لئے تھے جو بیرون ممالک کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ امی جان سے انہوں نے شادی کی تو ان کے سب دوست ان کی تعریف کرنے لگے۔ وہ ایک بے کس و مجبور عورت کا سہارا بنے تھے جو ان کے مرحوم ملازم کی بیوہ تھی۔ سبھی انہیں ایک عظیم انسان کے نام سے پکارنے لگے۔

امی نے نہ جانے کس مجبوری کے باعث سیٹھ صاحب سے سادی کر لی تھی مگر وہ خوش نظر نہیں آتی تھیں۔ ابو کی جدائی کا صدمہ انہیں اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی کہہ بیٹھتیں کہ اللہ تمہارے ابو کے قاتلوں کو سزا دے۔ مجھے شک ہے کہ وہ اپنی موت نہیں مرے بلکہ انہیں مارا گیا ہے۔ میں ان کی باتوں کو نہیں سمجھتی تھی اس لئے چپ رہتی تھی۔ جب امی کی سیٹھ عدنان سے شادی ہوئی تو میں سات سال کی تھی۔ آٹھ سال تک امی اس کے بعد زندہ رہیں۔ ایک دن وہ مجھ کو روتا چھوڑ کر ابو کے پاس چلی گئیں۔ ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی تھی۔ امی کے بعد ظاہر ہے اب صرف انکل عدنان ہی کا سہارارہ گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ امی کی وفات کے بعد وہ مجھ سے آنکھیں نہ بدل لیں۔ میر امیڈیکل میں سیکنڈا ایئر تھا اور میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ انکل عدنان میرے اخراجات برداشت کر رہے تھے۔ دن گزرتے گئے۔ حالات معمول کے مطابق رہے۔ میں آیا کے ساتھ امی والے بنگلے میں رہتی تھی جبکہ انکل عدمان اب کبھی کبھی آجاتے تھے۔ ورنہ زیاد تر وہ اپنے دوسرے بنگلے میں ٹھہرتے تھے۔ ایک دن وہ آئے تو مجھے بلا کر کہنے لگے کہ صنوبر میں ایک مسئلے کے بارے میں کچھ پریشان ہوں۔ مجھ کو تم کوئی مشورہ دو۔ پھر بولے میرے ایک دوست کی بیٹی تمہاری عمر کی ہے ، اس کے لئے ایک رشتہ آیا ہے لیکن میرے دوست کی عمر ذر از یادہ ہے، بس تم میری عمر کا سمجھ لو مگر بے انتہا دولت مند ہے ، تمہاری کیا رائے ہے ؟ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ انہیں کیا جواب دوں۔ بس میں نے انہیں ٹالنے کے لئے کہہ دیا آپ کی عمر کچھ زیادہ تو نہیں ہے۔ حالانکہ انکل کی عمر پینسٹھ سال سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔ لیکن چہرے کی سرخی اور دولت کی فراوانی سے وہ اپنی عمر سے دس سال چھوٹے نظر آتے تھے۔ میرے جواب پر بے حد خوش ہوئے۔ بولے مجھے تم سے یہی مید تھی کہ تم بہت سمجھدار ہو بالکل اپنی ماں کی طرح۔ ایک روز پھر آئے۔ کہنے لگے صنوبر بے بی آج اگر تمہاری امی زندہ ہوتی تو وہی تم سے بات کر تیں لیکن بیٹی اب میں ہی تمہارا باپ ہوں اور ماں بھی، میں چاہتا ہوں کہ تمہیں تمہارے گھر کا کر دوں تاکہ تمہاری ماں کی روح کو سکون مل جائے۔ اس بات کا میں کیا جواب دیتی۔ میں خاموش تھی۔ مجھے اب آگے پڑھانانہ پڑھیانا کلی طور پر ان کے اختیار میں تھا۔ میں نے کہا۔ انکل جیسی آپ کی مرضی۔ بولے سا باش بیٹا مجھ کو تم سے یہی امید تھی۔ وہ لوگ بہت اچھے ہیں اور بہت دولت مند بھی ہیں، مجھ سے بھی زیادہ۔ میں نے سمجھا کہ کسی دوست کا بیٹا ہو گا جس سے یہ میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ایک دن آگئے کہنے لگے صنوبر بے بی ادھر آئو اس کاغذ پر دستخط کر دو، نہ میری منگنی ہوئی نہ بارات آئی، میں نے لڑکے کو نہ اس کے گھر والوں کو دیکھا، بس نکاح نامے پر دستخط کرا کر چلے گئے۔ ہفتے بعد میری رخصتی کا سامان آ گیا۔ نہایت مختصر سی تقریب تھی۔ انکل کے دوست کی دو بیگمات آئیں، انہوں نے مجھے گھر پر دلہن بنایا اور میں ایک بڑے بنگلے سے رخصت ہو کر اس سے بھی زیادہ شاندار اور بڑے بنگلے میں آگئی۔ پھولوں بھری پیج پر دلہن بنی بیٹھی تھی اور دولہا کے قدموں کی چاپ کا انتظار کر رہی تھی۔ دولہانے میراگھونگٹ اٹھایا، میں نے انہیں دیکھا تو سن ہو کر رہ گئی۔ یہ تو انکل عدنان کے بزنس پارٹنر شعیب صاحب تھے۔ کئی بار ہمارے گھر آئے تھے ، میں بھی انہیں انکل شعیب کہا کرتی تھی۔ اس کے بعد تو کئی دن میں چھپ چھپ کر روتی رہی، کہاں جاتی میرا تو کوئی بھی نہ تھا۔ مجھ کو انکل عدنان پر بہت غصہ تھا، مجھ سے کتنا بڑا دھوکا کیا تھا۔ صرف اپنے کاروبار کے بندھن کا مضبوط کرنے کے لئے۔ شادی کے جو ارمان لڑکی کے دل میں ہوتے ہیں، میرے دل میں بھی تھے جن پر انگارے برس گئے تھے۔ مگر میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ میں اب انکل عدنان سے شعیب کا سرمایہ علیحدہ کرا کر ہی دم لوں گی۔ نئی عمر میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ میں نے پیار محبت میں مبتلا کر کے رفتہ رفتہ شعیب کے دل پر قبضہ کر لیا۔ کافی سرمایہ اپنے نام کرالیا۔ اس کے بعد ان کے کان بھرنے شروع کر دیئے۔ انکل عدمان کے خلاف مگر شعیب بڑا کامیاب بزنس مین تھا۔ اپنی زندگی میں عدنان سے علیحدہ نہ ہوا۔ البتہ ان کی وفات کے بعد میں نے ان کا سرمایہ انکل عدنان کے کاروبار سے الگ کرنے کی ٹھان لی۔

مجھے یہ علم نہیں تھا کہ شعیب کی پہلی بیوی اور بچے بھی ہیں اور وہ کہاں ہیں۔ مجھے تو انہوں نے ایک علیحدہ گھر میں رکھا ہوا تھا۔ ان کی وفات کے بعد وہ لوگ آگئے۔ وہ سب امریکا میں رہتے تھے۔ انہوں نے آتے ہی ان کا کاروبار سنبھال لیا۔ روپیہ پیسہ جائیداد سب کچھ البتہ جو بنگلہ ، رقم اور زیورات شعب میرے نام کر گئے تھے وہ مجھے قانونی طور پر مل گئے۔ اس میں بھی سیٹھ عد مان نے ہی میری مدد کی ورنہ مجھے شعیب کی بیوہ اور بچے پھوٹی کوڑی بھی نہ لینے دیتے۔ شعیب کو فوت ہوئے چھ سال گزر چکے ہیں مگر میں نے پھر سادی نہیں کی۔ میری روح بے سکون وبے چین ہو گئی ہے، آوارہ دیتے کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ڈولتی پھرتی ہوں۔ گھنٹوں سڑکوں پر کار دوڑاتی ہوں کہ کبھی تو سکون ملے


Post a Comment

0 Comments