Search Bar

Manzil Kahan Hai Tere Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Manzil Kahan Hai Tere Teen Auratien Teen Kahaniyan

یہ کہانی میری خالہ کی ہے جو آج سے پچیس سال پہلے اغوا ہوگئی تھیں۔ اس کہانی کو پڑھ کر آپ سوچیں گے انسان پر انسانوں کے ہاتھوں کیسے کیسے ستم ہوتے ہیں اور کتنی عورتیں یہاں صرف انسانی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ان کو انصاف دلوانے والا آج بھی کوئی نہیں۔

ہمارے نانا ایک خوشحال آدمی تھے۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی اور جائیداد بھی کافی تھی۔ اس لیے بچوں کی پرورش انتہائی نازونعم میں ہورہی تھی۔ گھر میں خوشی اور بے فکری کا یہ زمانہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ نانا جان دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ میری امی، خالہ اور ماموں چھوٹی عمروں میں یتیم ہوگئے۔ ہماری نانی اس وقت جوان تھیں جب وہ اچانک بیوہ ہوگئیں۔ دوبیٹیاں اور ایک بیٹا، یعنی تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ان کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ وہ بےحد خوبصورت تھیں۔ تین بچوں کی ماں تو کجا، اب بھی غیرشادی شدہ لگتی تھیں۔ اس لیے بیوگی ان کے لیے اور بھی عذاب جان بن گئی۔

شوہر کے فوت ہوجانے سے نانی جان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ جب کمانے والا نہ رہا تو خوشحالی کب تک رہتی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گھر کا سامان بیچ بیچ کر گزارہ ہونے لگا۔ زمین اور جائیداد کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔ جب نظام چلانے والا ہی نہ رہا تو معاشی حالات کا دگرگوں ہوجانا ایک یقینی امرتھا۔

مجبور ہوکر ہماری نانی کو گھر سے باہر قدم نکالنا پڑا وہ بھی جائیداد کے معاملات کو سنبھالنے کے سلسلے میں۔ یہ بات ان کے دیوروں کوسخت ناگوار گزری۔ انہوں نے طرح طرح کے الزامات لگانے شروع کردیئے۔ ان کے چال چلن کے بارے میں باتیں اُڑنے لگیں۔ گویا بیوہ ہونا کوئی بہت بڑا جرم تھا جس کی سزا انہیں ملنی ضرور تھی۔

آخر کار خاندان والوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ذکیہ (ہماری نانی) کی دوسری شادی کرادی جائے اور ان کے بچے اپنے چچاؤں کے پاس رکھے جائیں۔ چچا تو پہلے ہی اس تاک میں تھے کہ کسی طرح یہ ہمارے قبضے میں آجائیں تو ہم با آسانی ان کی جائیداد پر ہاتھ صاف کرسکیں۔ باقی لوگ شاید اس بات کو نہ ہوں مگر ذکیہ خوب سمجھتی تھیں۔ وہ تو بہت روئی پیٹی مگر ان کے میکے والو نے نہ سنی۔ سسرال والے ایک دن آکر دونوں بچیوں کو لے گئے اور بیٹا اس وقت کیونکہ ڈھائی سال کا تھا اس لیے وہ ہماری نانی ہی پاس رہنے دیا گیا اور ہماری نانی کی دوسری شادی کردی گئی۔ اس وقت میری امی کی عمر گیارہ سال تھی اور خالہ صبا بمشکل آٹھ سال کی تھیں۔ خالہ بڑی شوخ اور شرارتی تھیں۔ وہ خوبصورت بھی تھیں، بالکل ماں جیسی صورت پائی تھی۔ ان کے چچاؤں کو یہی فکر تھی کہ کسی طرح جائیداد سے ان یتیم لڑکیوں کو محروم رکھا جائے۔ انہوں نے پہلے امی جان کی شادی کی اور ان سے جائیداد کا حق لکھوالیا۔ ابا جان نے کہا کہ مجھے جائیداد کی ضرورت نہیں، اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، ہمیں صرف لڑکی کا رشتہ چاہیے،

ہمیں پیسے کی لالچ نہیں ہے۔ ادھر سے اطمینان ہوگیا اور ماموں تو ابھی چھوٹے سے تھے۔ اب ایک خار باقی تھا یعنی امی کی شادی کے بعد خالہ صبا رہ گئیں۔ انہوں نے ان کے لیے بھی جلدی سے شتہ ڈھونڈا اور شادی کردی۔ حالانکہ وہ اچھے لوگ نہ تھے اور خالہ بھی بہت کم عمر تھیں۔ ایسی لڑکی جس کے سر پر نہ ماں کا سایہ ہو،

نہ باپ کی شفقت اور نہ ہی چچاؤں نے پلٹ کر خبر لی ہو۔ سسرال والوں نے سوچا اس کا تو کوئی ہے نہیں، انہوں نے خالہ پر خوب ستم ڈھائے اور ایک دن شوہر نے نشے کی حالت میں خالہ کو رات کے وقت مارپیٹ کرگھر سے نکال دیا۔ اس نے سوچا کہ کہیں پاس پڑوس میں جا بیٹھے گی، صبح واپس آجائے گی یا میکے چلی جائے گی۔ جب صبا کئی دن تک گھر نہ لوٹی تو اس کے شوہر نے میکے جاکر پتا کیا مگر وہ وہاں بھی نہ گئی تھیں۔ اس نے خالہ کے چچاؤں کو بتایا کہ تمہاری بھتیجی بُرے چلن کی تھی، کسی شخص سے ملتی تھی ایک دن غائب ہوگئی، يقيناً اس کے ساتھ بھاگ گئی ہے، بہتر ہے کہ اس کی تھانے میں رپٹ لکھوادی جائے۔ اس بیان پر پورے خاندان میں ہلچل مچ گئی۔ ان لوگوں نے تھانے میں بھی رپورٹ درج کرادی۔ پھر سارے خاندان والوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو یہیں دفن کردیا جائے۔ تلاش کرنے سے مفت کی بدنامی ہوگی، اب جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔

میری نانی بہت روئیں پیٹیں کہ میری بیٹی ایسے بھاگ جانے والی نہیں، ضرور اس کے ساتھ کوئی مسئلہ. ہوا اس کو تلاش تو کرو مگر کون تلاش ہے۔ کرتا۔ امی اپنے گھر اور بچوں میں مصروف تھیں، سوتیلے نانا بھی اس چکر میں پڑنا نہ چاہتے تھے۔ صہ پھر دن ہفتوں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ یہاں تک کہ. چوبیس سال گزر گئے۔ نانی کے ایک دیور کا صرف ایک بیٹا تھا جو فوت ہوگیا اور دوسرا دیور بے اولاد ہی تھا۔ اس طرح یہ دونوں جائیداد کے لالچی انسان جنہوں نے جائیداد کی خاطر ہماری نانی کو ان کے بچوں سے جدا کیا اور بچوں کو تکالیف میں ڈالا، خود بھی بے اولاد ہی مرگئے اور یتیموں کی جائیداد ان ک کسی کام نہ آئی۔ آخرکار میرے ماموں جب جوان ہوئے تو یہ جائیداد ان کو ہی ملی یعنی حقدار کا حق اس کو مل کر رہا مگر اس جائیداد کی وجہ سے نانی بیچاری نے بے حد دکھ اٹھایا اور اپنی معصوم بچیوں سے جیتے جی دور کردی گئیں۔ فروری کی ایک خشک شام تھی، جب دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے میرے ماموں جان کھڑے تھے۔ امی جان نے پوچھا، کیسے آنا ہوا۔ کہنے لگے ہماری کھوئی ہوئی بہن کا پتا چل گیا ہے، وہ ایک دیہات میں موجود ہے۔

ہمارے شہر کی ایک لڑکی کافی پہلے گم ہوگئی تھی جو اسی دیہات میں فروخت کی گئی، وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تو اسی نے آکر بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت جو اپنا اصلی نام صبا بتاتی ہے، موجود ہے اور اپنے شہر کا نام اور اپنے رشتہ داروں کے نام بھی بتاتی تھی جو کہ ہمارے ہی نام تھے۔ ماموں جان نے جب سنا تو بے چین ہوگئے۔ ماموں جان نے امی سے مشورہ کیا۔ انہوں نے بھی . تم كسى عورت یا آدمی کو اس دیہات میں بھیجو جہاں جود ہے تاکہ پتا تو چلے کہ وہ واقعی ہماری بہن ہے کہ نہیں۔ امی اور ماموں نے محلے کی ایک عورت اور اس کے شوہر کو تیار کیا جن عزیز اس گاؤں کے قریب رہتے تھے، وہ وہاں گئے۔ پھر وہ عورت صبا خالہ کے گھر کسی طرح پہنچی اور ان کو جاکر ہماری نانی جان کا خط دیا۔ صبا خالہ اپنی والدہ کا خط پڑھ کر بے قرار ہوگئیں۔ عورت اور اس کا شوہر واپس آگئے اور حالات بتائے۔ اب تو ہماری نانی جان رونے پیٹنے لگیں کہ میں

صباء

خود جاؤں گی اپنی بیٹی کے پاس۔ ماموں جان نے نانی جان کو سمجھایا کہ جلدی نہ کرو، پہلے میں خود جاکر تصدیق کرتا ہوں، پھر آپ کو لے چلوں گا۔ ماموں نے اس آدمی کی منت سماجت کی کہ مجھے اس دیہات میں لے چلو، وه راضی نہ ہوتا تھا۔ پھر اس شرط پر راضی ہوا کہ میں صرف آپ لوگوں کو ان آدمیوں کے نام اور گھر کا پتا دیتا ہوں جہاں پر آپ کی بہن رہتی ہے۔ مگر میں ان کے گھر آپ کے ساتھ نہ جاؤں گا۔ ان لوگوں سے دشمنی مول نہیں لے سکتا۔

خیر ماموں جان نے اس شخص سے ان لوگوں کا پتا لے لیا۔ اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو تیار کیا۔ اگلے دن وہ اس گاؤں کو روانہ ہوگئے اور اس آدمی کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئے۔ بہن نے بھائی کو پہچان لیا۔ دونوں گلے مل کرخوب روئے۔ اس آدمی کا نام روشن تھا جس کے گھر میں خالہ صبا اس کی بیوی بن کر رہتی تھیں۔ روشن نے بھائی اور بہن کے ملنے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس نے ماموں کو بتایا کہ میں نے آپ کی بہن کو پچیس سال پہلے ڈھائی ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اس زمانے میں ڈھائی ہزار روپے بھی کافی رقم تھی۔ اب خالہ صبا تـ آدمی سے دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی۔ بڑا بیٹا شادی شدہ تھا، بیٹی سب سے

چھوٹی تھی۔ ان لوگوں نے ماموں کی آؤ بھگت کی بلکہ خالہ سے ملنے لیے آنے والوں پر کوئی اعتراض بھی نہ کیا لیکن انہوں نے خالہ جان کو

ہےاس ماموں کے ساتھ میکے بھیجنے سے منع کردیا۔ وہ کہتے تھے جس کو ملنا ہو، شک ہمارے گھر آجائے مگر ہم اپنی عورت کو جانے نہیں دیں گے یا پھر اپنی کوئی عورت آپ لوگ اس کے بدلے میں ہمارے پاس امانت چھوڑ جاؤ، یہ اپنے رشتہ داروں سے مل کر واپس آجائے گی تو پھر تم لوگ بھی اس کے بدلے میں چھوڑی ہوئی عورت آکر ہم سے لے جانا۔ غرض یہ کہ وہاں سے خالہ کو لے کر آنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ماموں جان نے پولیس کی مدد حاصل کرنی چاہی تو بھی خاندان والوں نے ساتھ نہ دیا اور صاف کہہ دیا کہ ہم پہلے تمہاری وجہ سے کیا کم بے عزت ہوئے، جو اب رہی سہی کسر پوری کرنی ہے۔ ہمیں پولیس کی خواریاں نہیں بھگتنی۔

جو ماموں جان بغیر خالہ کو لیے واپس آگئے۔ نانی جان کو آکر حال بتایا تو وہ تڑپنے لگیں کہ میں ہر صورت میں صبا کے پاس جاؤں گی، چاہے کچھ ہوجائے۔ انہیں بار بار غش آنے لگے اور وہ بیمار ہوگئیں۔ ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ لہذا یہ فیصلہ ہوا کہ امی جان نانی اور ماموں دوبارہ گاؤں جائیں گے اور ان لوگوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے۔ اگر وہ لوگ خالہ صبا کو تھوڑے دنوں کے لیے ساتھ بھیجنے پر راضی ہوگئے تو ٹھیک ورنہ الله کو منظور، ملاقات تو ہوجائے گی۔ امی،نانی جان اور ماموں پھر گاؤں روانہ ہوگئے۔ ہم نے یہ چار دن الله الله کرکے کاٹے۔ پانچویں دن تقریباً دوبجے دوپہر سب لوگ واپس آن پہنچے۔ ہماری جان میں جان آئی۔ میں نے پہلی بار اپنی گمشدہ خالہ کو دیکھا۔ ساتھ ان کا بڑا بیٹا اختر اور لڑکی سیکنہ بھی آئے تھے۔ خالہ تو امی جان سے کہیں زیادہ بڑی لگتی تھیں۔ چہرے پر جھریاں پڑچکی تھیں اور غموں کی دھوپ نے ان کی آنکھوں کی چمک کو دھندلا دیا تھا۔ امی جان نے بتایا کہ وہ لوگ کسی طرح خالہ کو بھیجنے پر رضامند نہ تھے۔ مگر ان کے بڑے بیٹے نے ساتھ دیا کہ میں اپنی ماں کو لے جاتا ہوں اور میں ہی واپس لے آؤں گا، اس لیے وہ بھی ساتھ آیا ہے۔ خالہ کے گزرے وقت کی کہانی سب نے سنی اور سب ہی روتے رہے۔ بڑی ستم بهر داستان تهى ـ وه ایک ایک ظلم کو یاد کرکے روتی اور کہتی تھیں کہ اب کبھی واپس نہ جاؤں گی۔ اپنوں کی شکلیں تک بھول گئی تھیں۔ برسوں پہلے جب پہلے نہ نے نشے کی حالت میں رات کے وقت گھر کا

دروازہ کھول کر باہر گلی میں دھکا دیا تھا تو خالہ بیچاری ایک جاننے والی کے گھر رات کو پناہ لینے کی خاطر چلی گئی تھی۔ اس عورت کا نام زبیدہ تھا۔ خالہ نے سوچا تھا کہ رات کو زبیدہ آپا کے پاس گزار لوں گی، صبح سوچوں گی کہ کیا کروں۔ خالہ نے بتایا۔ جب میں زبیدہ کے گھر پہنچی اور اس کو ماں لگالیا۔ بڑی تسلی دی اور خاطر تواضع بھی کی۔ کہنے فکر ہوکر یہاں سوجا۔ میں صبح ہی تم کو تمہارے میکے پہنچا دوں گی۔ صبح اس نے شوہر کو ساتھ لیا اور مجھے تانگے میں بٹھا کر بسوں کے کہا تو اس گلے سے اڈے پر لائی۔ یہاں سے ہم لاری میں بیٹھے۔ میں راستوں سے ناواقف تھی۔ مجھے کچھ پتا نہ چلا کہ یہ مجھے کہاں کرجارہے ہیں۔ جب ہم ایک گاوں میں اُترے تو یہ مجھے کسی اور گھر میں لے آئے تھے۔ جگہ معلوم نہیں کون سی تھی مگر یہ اجنبی لوگ تھے۔ مجھے یہاں چھوڑ کر یہ دونوں میاں بیوی غائب ہوگئے۔ میں نے رونا شروع کردیا تو ان لوگوں نے مجھ پر بہت سختی کہ کہ چپ رہو اور پچھلی زندگی کو بھولا دو کیونکہ ہم نے تم کو رقم دے کر خریدا ہے۔ پھر میرا نکاح زبردستی کردیا گیا۔ میرا شوہر مجھے ایک دیہات میں لے آیا۔ جہاں اس کے کچھ رشتہ دار پہلے سے رہتے تھے۔ یہ لوگ مجھ سے بہت محنت کراتے تھے، مارتے بھی تھے ، کبھی رحم بھی کھاتے تھے،

میں روتی تھی، کبھی چپ ہوجاتی تھی، پھر بچے ہوگئے اور زندگی ایسے ہی گزرتی گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ خالہ صبا واپس جانا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ واپس جانے پر راضی ہی نہ تھیں۔ ماموں اور نانی جان بھی ان کو واپس بھیجنے پر تیار نہ . آخر کار ماموں نے کسی طرح ان کے بیٹے اختر کو سمجھا بجھا کرچلتا کردیا۔ سکینہ نے بھی ماں کو چھوڑ واپس جانے سے انکار کردیا۔ اختر کو بہت غصہ آیا جاتے جاتے وہ یہ دھمکی دے کرگیا کہ میں اپنی ماں کو واپس لے کر جاؤں گا یا تم لوگوں سے بدلہ لوں گا۔ ماموں جان وکیل کے پاس گئے تاکہ قانونی تحفظ حاصل کرسکیں۔ اس نے کیس کا مشورہ دیا اور ماموں نے ان لوگوں پر کیس کردیا۔ چند مہینے اس طرح گزر گئے۔ خالہ صبا کبھی نانی جان کے پاس رہتیں، کبھی امی جان پاس تو کبھی میرے ماموں اور ممانی کے گھر رہتیں، مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جلد ہی تمام رشتے داروں کے رویے بدلنے

لگے۔ سب خالہ صبا کو طنز کا نشانہ بنانے لگے۔ سکینہ الگ پریشان رہتی، رشتے دار مشورہ دیتے تھے کہ سکینہ کی شادی کر دو اور خالہ صبا کی بھی کہیں شادی کر دو تاکہ وہ لوگ آکر انہیں پھر نہ لے جاسکیں۔ پہلے خاوند پاس گئے۔ وہ نشے میں ادھ موا ہوکر زندہ لاش بن چکا تھا۔ اس

نے خالہ کے حالات میں دلچسپی نہ لی۔ امی جان اپنے معاملات میں الجھی ہوئی تھیں۔ ممانی بھی خالہ کی پروا کرنے پر تیار نہ تھیں۔ نانی جان بوڑھی ہوکر خود ایک ذمہ داری بن چکی تھیں۔ ان دو عورتوں کا بوجھ خاندان والوں پر بڑھ گیا۔ اب سبھی خالہ اور اس کی بیٹی کو بوجھ سمجھنے لگے۔ اس دوران ایک مرتبہ میں ماموں کے گھر گئی تو خالہ نے روکر مجھے کہا۔

نجمہ، اللہ کے واسطے تم ہی ان لوگوں کو سمجھاؤ کہ اب میری اور شادی نہ کریں۔ مجھ بوڑھی ہڈیوں کو مذاق نہ بنائیں، میری عمر اب شادی کرنے کی

نہیں رہی۔ وہ رورو کر کہتی تھیں کہ میں ساری زندگی ان لوگوں کی خدمت کرکے گزار لوں گی مگر ان کو کہو میری شادی نہ کریں۔ ان کی باتیں سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ مگر میں کیا کرسکتی تھی، صرف

تسلی ہی دے سکتی تھی۔ میں نے کہا خالہ آپ فکر نہ کریں، یہ لوگ آپ کے اپنے ہیں، کوئی دشمن تو نہیں ہیں۔ یہ لوگ وہی کریں گے جو آپ کے حق میں اچھا ہوگا۔ اس دوران خاندان میں مختلف رشتے دار زیر بحث لائے جانے لگے۔ آخر کار ایک رشتہ پسند کرلیا گیا۔ اس آدمی کا نام منیر تھا، پہلی بیوی

وفات پاچکی تھی اور اولاد بھی جوان تھی۔ گھر بار چلانے کے لیے ایک عورت کی ضرورت تھی۔ اس سے نے خالہ کا نکاح پڑھوادیا۔ اس نکاح کی تقریب میں ہماری امی جان ن شرکت واپس آکر امی جان نے بتایا کہ آدمی تو بس ٹھیک ہی لگتا ہے، اب آگے صبا کی قسمت۔ اب خالہ کی شادی کو سال ہوچکا ہے۔ ہم لوگ ابوظہبی آچکے ہیں۔ خالہ کی دل بیٹی بھی ان کے ساتھ رہتی ہے، یہ دونوں ماں بیٹی نئے گھر میں کس حال میں ہیں۔ اللہ جانے، لیکن مجھے تو جب بھی خالہ جان کی زندگی یاد آتی ہے۔ میں ایک خلش سی پیدا ہوتی ہے۔ سوچتی ہوں بعض عورتیں کتنی بدنصیب ہوتی ہیں جن کو عمر بھر چین سے جینا میسر نہیں آتا، جیسا کہ ہماری خالہ صبا ہیں جن کی زندگی کے پچیس سال انسانی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ


Post a Comment

0 Comments