Search Bar

Urdu Khanai Naiki Ko Bara Dil Chahyeah

 

Urdu Khanai Naiki Ko Bara Dil Chahyeah

جام پور میں ہمارے چا چارہتے تھے۔ وہاں سے کئی بار بلاوا آیا کہ میری بیٹی کی شادی ہے ، آپ لوگ گوہر کی شادی پر ضرور آنا۔ چاچا کی بیٹی گوہر سے میری بڑی دوستی تھی۔ ملتان سے جام پور جانا ابا کے لئے مشکل تھا کیونکہ ان کو مل سے چھٹی نہ ملتی تھی۔ بہر حال امی اور میرے اصرار پر انہوں نے بھائی فاخر کے ہمراہ ہم کو شادی میں شرکت کو جام پور اور چچا کے گھر بھیج دیا۔

ہم عین شادی کے دن پہنچے تھے۔ رات کو بارات آئی تھی۔ ہم نے تھوڑی دیر آرام کیا، پھر نہا دھو کر لباس وغیرہ تبدیل کیا اور شادی میں شرکت کو تیار ہو گئے۔ چونکہ بارات دور کے ایک گائوں سے آنی تھی لہذا گوہر کو بھی سر شام دُلہن بنادیا گیا تھا۔ دولہا والے شام چھ بجے بارات لے کر آگئے۔ ان کے آتے ہی شادی کی رسومات شروع ہو گئیں۔ جب دلہن کی ر خصتی کا وقت آیا تو وه خوش خوش رخصت ہوئی مگر اس کی سہیلی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تبھی میں نے اس لڑکی کے بارے میں صنوبر سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور اس قدر کیوں رو رہی ہے ؟ میری کزن نے بتایا کہ اس کا نام نور ہے۔

یہ ہمارے محلے کی لڑکی ہے ، اس کو شادی کے سال بعد طلاق ہو گئی تھی، اپنی گزری ہوئی خوشیوں کو یاد کر کے رو پڑی ہے شاید۔ امی کو یہ

سن کر بڑاد کھ ہوا۔ بھائی فاخر بھی قریب موجود تھے۔ انہوں نے بھی صنوبر کی بات سن لی اور نور کے دکھ کو دل سے محسوس کیا۔ نور ایک بے حد خوبصورت لڑکی تھی۔ ایسا حسن کم ہی دیکھا تھا۔ فاخر بھائی کو یہ لڑکی اچھی لگی۔اگلے روزامی سے کہا کہ آپ میرے لیے لڑ کی تلاش کر رہی ہیں، اگر نور کو بہو بنالیں تو نیکی ہو گی۔ طلاق یافتہ ہے تو کیا ہوا، اس کو دوبارہ گھر بسانے کا حق تو ملنا چاہیے۔ ماں نے چاچی سے بات کی۔ وہ بولیں لڑکی اچھی ہے، طلاق بھی اس کو ناحق ہوئی تھی۔ حالات ہی ایسے بن گئے تھے، مگر ایک بات اور بھی ہے کہ نور کا ایک بیٹا بھی ہے۔ کیا آپ لوگ اس کے بیٹے کو قبول کر لیں گے کیونکہ اس لڑکے کے باپ کو پھانسی ہو چکی ہے قتل کے الزام میں ... اب ہم کو نور کی زندگی کی کہانی سے اور بھی دلچسپی ہو گئی۔ چاچی سے استدعا کی کہ سارا واقعہ بتایئے کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کو کیوں طلاق ہوئی

اور اس کے شوہر نے کس کو اور کیوں قتل کیا تھا۔ تب چاچی نے بتایا کہ نور کے والدین پرانے پڑوسی ہیں۔ یہ بچپن میں گوہر کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، ہنس مکھ اور چنچل بچی تھی۔ جب پندرہ برس کی ہوئی ، اس کے باپ نے اس کی شادی اپنے ایک رشتہ دار کے لڑکے سے کر دی اور یہ بیاہ کر گائوں چلی گئی۔ اس کے سسرال والے کافی سخت لوگ تھے اور نور سے بہت کام لیتے تھے۔ یہ کھیتوں میں کام کرنا نہ جانتی تھی مگر گائوں والوں کا تو اپنا طرز زندگی اور اپنی ریت پریت تھی۔ وہ کام تو لیتے مگر پیار بھر اسلوک بالکل نہ کرتے تھے۔

نور کا شوہر دیہاتی نوجوان تھا۔ وہ شیخی باز قسم کا غصہ والا شخص تھا۔ ایک بار پانی لگانے کی باری اس کی تھی۔ وہ پڑوسی سے الجھ پڑا جو پانی کی باری مانگ رہا تھا۔ دونوں میں تلخ کلامی ہو گئی اور پھر گالم گلوچ تک نوبت پہنچی تو طیش میں آکر جانباز یعنی نور کے شوہر نے پڑوسی کے سر پر درانتی اُچھال دی جس کی نوک اس کے سر میں جاکر پیوست ہو گئی۔ دماغ کے اندر جانے کہاں ضرب آئی کہ وہ آدمی آنا فانا بے ہوش ہو گیا۔ اس کو شہر کے اسپتال لے گئے لیکن اسے ہوش ہی نہ آیا اور وہ بے ہوشی کے عالم میں فوت ہو گیا۔ جانباز گرفتار کر لیا گیا۔ کیس چلا اور اس کو عمر قید کی سزا ہو گئی۔ جب جانباز گرفتار ہوا، نور امید سے تھی لیکن ایک ماہ تک خود اس کو بھی علم نہ تھا کہ وہ امید سے ہے۔ جب اسے علم ہوا تو اس نے کم

عقلی کے سبب ساس کو نہ بتایا بلکہ اپنی ماں کو بتایا۔ اس کی ماں نے سوچا جانے جانباز کو کیا سزا ہوتی ہے۔ وہ جیل سے زندہ بھی نکلے گا یا نہیں، کیا پتا اس کو پڑوسی کے قتل کے جرم میں پھانسی ہو جائے۔ ایسے میں اگر میری بیٹی نے بچی یا بچے کو جنم دیا تو یہ پابند ہو جائے گی اور بچہ میری لڑکی کی دوسری شادی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ پس اس نے بیٹی کو تلقین کی کہ ایک دو ماہ صبر کر لو اور ابھی یہ خبر کسی کو نہ دو۔ وہ نور کو اپنے گھر بے آئی جبکہ جانباز جیل میں تھا۔ ادھر جانباز کو اندازہ تھا کہ اگر وہ پھانسی لگنے سے بچ بھی گیا تو عمر قید ہو گی تب وہ طویل عرصے تک جیل میں ہی رہے گا۔ اس نے یہ سوچ کر نور کے باپ کو بلوایا اور پوچھا چا چا تم بیٹی کے بارے میں اب کیا سوچ رہے ہو ؟ میرے کیس کا کچھ پتا نہیں، کیا فیصلہ ہو ۔ کیا وہ لمبے عرصے تک میرا انتظار کر سکتی ہے۔ نور کے والد نے کہا۔ بیٹا ابھی تو ہم تمہارا انتظار کرتے ہیں اور اللہ سے اچھی امید رکھتے ہیں۔ لیکن تم کو اگر عمر قید ہوگئی تو ہم تمہارا انتظار نہیں کریں گے۔

میری بیٹی کم عمر ہے ، اس کی دوسری جگہ شادی کا تو سوچنا پڑے گا۔ سسر کے منہ سے یہ بات سن کر اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور دل کو ٹھیس لگی۔ کہا کہ ٹھیک ہے میں آپ کی مجبوری پر کچھ دن غور کرنے کے بعد جواب دوں گا۔ جانباز نے سوچا، غور کیا اور پھر نور کو جیل سے ہی طلاق بھجوادی کہ وہ تو قتل کے جرم کا مرتکب ہو چکا تھا، خواہ طیش میں یا غصے میں ، دوسرے کی جان تو چلی گئی تھی، فریقوں نے تگڑاو کیل کیا ہوا تھا جبکہ اس کے باپ کے پاس اچھے وکیل رکھنے کے بھی پیسے نہ تھے یقین تھا کہ سزا ہونی ہی ہے۔ لہذا اس نے یہی سوچا کہ میری زندگی برباد ہو گئی،

بیچاری نور کو کیوں پابند رکھوں۔ اس کو آزاد کر دینا ہی ٹھیک ہے۔ نور کو طلاق مل گئی۔ وہ بہت روئی۔ ماں سے کہا کہ میں جانباز کی قید سے تو آزاد ہو گئی مگر ایک اور پابندی کی تو اسیر ہوں، اوپر سے تم نے میرے امید سے ہونے کی خبر بھی چھپائی۔ اب ساس سسر کو بھی علم نہیں ہے کہ میں ان کے بیٹے کی اولاد کو جنم دینے والی ہوں ، ماں اب بتائو میرے ہونے والے بچے کا کیا بنے گا؟ بہتر ہے کہ اب بھی جانباز اور اس کے والدین کو خبر کر دو۔ ماں نے کہا کہ ابھی تمہارا کچھ نہیں بگڑا۔ کیوں نہ اس کو اس دنیا میں آنے ہی نہ دیا جائے۔ ویسے بھی عمر بھر ایک قاتل کا بچہ ہی کہلائے گا۔ بھلا ایک قاتل کی اولاد کا کیا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ یہ تو عمر بھر تمہارے لئے بھی کلنک کا ٹیکہ بنارہے گا۔ نور اس امر پر راضی نہ ہوئی۔ اس نے کہا کہ بے شک مجھے طلاق مل گئی ہے لیکن میں اپنے بچے کو زندگی دوں گی اور اس کو ہر گز دنیا میں آنے سے پہلے ختم کرنے کی کوئی تدبیر نہ کروں گی۔ اس ظلم پر خدا بھی مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔

غرض اس نیک سوچ کی لڑکی نے ماں کا کہا نہ مانا اور چھ ماہ بعد بیٹے کو جنم دیا۔ اس کو یقین تھا کہ اگر جانباز کی زندگی ہوئی ، وہ اس خبر پر خوش ضرور ہو گا۔ اس نے سسرال میں اور جانباز کو بھی جیل میں اطلاع کرائی کہ اس کے بیٹے نے جنم لیا ہے۔ جانبار جیل میں اس خبر سے خوش ہوا اور اس نے خدا سے دعا کی کہ اس بچے کی خاطر وہ اس کو صحیح سلامت جیل سے نکال لے لیکن یہ قدرت کو منظور نہ تھا۔ جانباز کو سزا ہو کر رہی۔ نور اور اس کا بچہ اپنے نانا کے گھر پرورش پانے لگے۔ چونکہ اس کی بے وقوف ماں نے اس خبر کو سب سے چھپائے رکھا تھا، اس وجہ سے محلے کے لوگ بھی نور کی طلاق کے بارے میں غلط انداز سے سوچنے لگے۔ کچھ بد فطرت قسم کے لوگوں نے تو اس قسم کی باتیں اڑا دیں کہ شوہر نے اس کو اسی سبب طلاق دی کہ نور کے کسی سے مراسم تھے۔ اس نے قتل بھی اسی رقابت میں کیا۔ نور کے ساس سسر نے بھی اس بچے کو پوتامانے سے انکار کر دیا۔ جبکہ یہ باتیں سراسر غلط تھیں۔ جانباز تو نور کو بہت چاہتا تھا اور اس نے طلاق بھی اس لیئے بھیجی تا کہ وہ آزادی سے جیسے چاہے زندگی بسر کر سکے۔ اس کو بیوی کے کردار پر کوئی شک نہ تھا کیونکہ نور ایسی لڑکی تھی ہی نہیں۔ اس بچے کا طعنہ ایک بار نور کے باپ کو محلے کے ایک آوارہ نوجوان نے دیا تو وہ غصہ میں آگ بگولہ ہو اٹھا۔ اس نے سامنے پڑی اینٹ اٹھا کر اس آوارہ فقرے کسنے والے کو دے ماری جو اس کے سر پر جالگی۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں ہی تڑپ کر مر گیا۔ ایک سانحہ پہلے جانباز کے غصے کی وجہ سے ہو چکا تھا، ایک اور ہو گیا۔ نور کا باپ جیل پہنچ گیا۔ اس پر بھی قتل کا کیس بن گیا۔ دونوں بد قسمت مرد جیل کی نذر ہو گئے تھے۔ نور اور اس کی ماں بے آسرا ہو چکی تھیں۔ محلے کی عورتیں طعنہ زنی کرتیں کہ پہلے شوہر کو جیل کرائی اور پھر باپ بھی اسی کے کارن جیل گیا ہے۔ جس کو پھانسی ہو جائے گی۔ خدا ایسی بد بخت بیٹی کسی کو نہ دے۔ ان باتوں کا نور کے دل پر بہت اثر ہوتا تھا۔ وہ پہلے کون سی سکھی تھی۔ ماں بھی اس کو برا بھلا کہنے لگی تو وہ اپنی زندگی سے تنگ آگئی۔ ایک دن جب اس کے بیٹے نے دودھ کے لئے رونا چلانا شروع کیا تو نور کی ماں نے بیٹی اور نواسے کو کو سنا شروع کر دیا کہ انہوں نے یہاں گھر میں بھینس نہیں باندھ رکھی ہے جو یہ لاڈلا ہر وقت دودھ کے کٹورے چڑھائے۔ یہ بات سن کر نور اس قدر دلبرداشتہ ہوئی کہ بیٹے کو اٹھا کر گھر سے نکل گئی اور تو کچھ نہ سوجھا، ریلوے اسٹیشن جاکر ایک ٹرین میں بیٹھ گئی جو شہرجارہی تھی۔ رستے میں روتے پا کر ایک خدا ترس عورت نے اس کا ٹکٹ بنوایا اور پھر اس

کو اپنے ساتھ ے آئی۔

یہ عورت ملتان سے کراچی اپنے بھائی کے گھر جارہی تھی جو کراچی میں اچھی پوسٹ پر تھا۔ اس کے بھائی کا نام اکرم اور بھابی کا زاہدہ تھا۔ نور کی داستان سن کر ان لوگوں نے اس کو پناہ دے دی کیونکہ اکرم کی زمین بھی مظفر گڑھ کے پاس تھی اور نور نے جب ماں باپ کا نام بتایا تو اکرم نے کہا کہ میں تمہارے والد کو جانتا ہوں۔ اکرم کی بیوی کو ایک ملازمہ کی ضرورت تھی اور یہ جوڑا ہے اولاد بھی تھا۔ نور کے بچے کو ان لوگوں نے گود لے لیا اور وہ ان کے گھر کا کام کرنے لگی۔ وہ یہاں بہت خوش و خرم تھی۔ ان لوگوں کے حسن سلوک سے گویا پچھلے غم بھول گئی تھی۔

جب اکرم صاحب اپنی زمینوں کی خبر گیری کرنے مظفر گڑھ گئے تو نور کے والد کے گھر بھی گئے ، اس کی ماں کو تسلی دی اور احوال بھی بتایا کہ تمہاری بیٹی اور نواسا ہمارے گھر میں ہیں۔ وہ بیٹی اور نواسے کی گمشدگی سے کافی پریشان تھی۔

اکرم صاحب اس کو بھی کراچی لے آئے اور ماں بھی نور کے ساتھ انہی کے گھر میں رہنے لگی۔ جب چار برس بیت گئے تو اکرم صاحب کو انہوں نے کہا کہ ہم واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہیں، دیکھنا چاہتی ہیں کہ گھر کا کیا حال ہے۔ وہ ان کو ملتان لے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے رشتہ داروں کے کہنےپر جام پور میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا، تو اکرم صاحب نے انہیں مجبور نہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نور کے والد کی پھانسی پر عملدرآمد ہو نا تھا۔ اسی سبب دونوں واپس کراچی نہ گئیں۔ اس سانحے کے بعد سے نور کا یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت روتی رہتی ہے کہ کسی کی خوشی ہو کہ غم ، اس کو بس رونے کا بہانہ چاہیے۔ گوہر سے اس کا دل لگارہتا تھا تبھی اس کی رخصتی پر اسے رونا آگیا۔ چاچی کے منہ سے یہ تمام قصہ سن کر نور کے لئے فاخر بھائی کے دل میں اور زیادہ ہمدردی پیدا ہو گئی۔ ہم بھی بھائی کی ضد سے مجبور ہو گئے اور یوں نور میری بھابی بن کر ہمارے گھر آگئی۔ جب ہم بھابی کو ملتان سے لاہور لارہے تھے تب ان کی والدہ نے کہا کہ اس کا بیٹا مجھ سے ہل گیا ہے اور میں اکیلی ہوں تو نواسہ میرے پاس رہے گا۔ ہم نے ان کی خواہش کا احترام کیا۔ فاخر بھائی کو بھی نور کے بچے سے کوئی مطلب نہ تھا۔ ان کو نور چاہیے تھی، سو مل گئی۔ ہم ملتان آگئے۔ میں خوش تھی کہ میرے بھائی کی فیاضی سے ایک افسردہ لڑکی کو خوشیاں ملیں اور وہ آباد ہو گئی اور ہمارے درمیان خوش و خرم رہنے لگی۔ ہم بھی ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے تھے۔ فاخر بھائی اور نور کی شادی کے چار برس بعد اس کی ماں فوت ہو گئی ، بھابی کے ہمراہ ہم بھی جام پور گئے، واپسی میں وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے آئیں، مجھے اور امی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بظاہر تو بھائی جان کو بھی اعتراض نہ تھا کہ بچہ اکیلا رہ گیا تھا، ماں کے پاس نہ رہتا تو کہاں رہتا۔ بچے کو اسکول میں داخل کروایا گیا۔ بھائی اس پر بہت توجہ دیتیں۔ بیٹے کا بہت خیال رکھتیں کہ اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائوں گی۔ ہر ماں کی یہی فطری خواہش ہوتی ہے۔ سوبھابی کی بھی تھی۔ میرے بھائی نے نیکی کی تھی اور نور کو بیوی بنایا تھا توان کو اس فیصلے پر کوئی پچھتاواتو نہ تھا بلکہ وہ خوش تھے۔ان کو بیوی سے کسی قسم کی شکایت نہ تھی تاہم کچھ عرصہ بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کبیدہ خاطر سے رہنے لگے ہیں۔ نور اور ان کے پیچ فاصلہ بڑھتا جاتا تھا۔ بیوی تو ان کو اچھی لگتی تھی لیکن گائوں سے جب ایک اجڈ گنوار سابچہ ان کے بیڈ روم میں آگیا تو ان کو کوفت رہنے لگی۔ وہ یوں محسوس کرتے کہ ان کی بیوی ایک بے وقوف اور بد تمیز بچہ اٹھالائی ہے کہ جس کی ان کونہ چاہتے ہوئے بھی دلداری کر نا پڑتی ہے۔ جب فرقان اپنی ماں سے پیسنا، چھٹتا، فرمائشیں کرتا اور ضد پر اڑ جاتا توبھائی کو الجھن ہونے لگتی۔ ان کا جی چاہتا کہ لڑکے کے تھپڑ لگا دیں مگر وہ فوراً اٹھ کر کمرے سے نکل جاتے۔ رفتہ رفتہ بھائی اور بھابی میں دُوریاں بڑھنے لگیں کیونکہ فرقان روز رات کو ضد کر کے ماں کے پاس سو جاتا تھا۔ جب بھائی فاخر کی گھٹن زیادہ بڑھ گئی تو ذ ہنی کھنچائو نے ان کو چڑ چڑا اور بد مزاج بنادیا۔ وہ بات بات پر بچے کو روکنے اور ٹوکنے لگے۔ اس وجہ سے نوران سے کھینچنے لگی۔ دونوں میں ان بن رہے گی۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ بھائی فرقان کو تھپڑ رسید کر دیتے۔ تب نور کا کلیجہ ہل جاتا اور وہ بھی بچے کے ساتھ رونے لگتی تھی۔ میری بھابی حد درجہ بے سکون ہو گئی تھیں۔ شوہر سے کہتی تھیں کہ تم میرے بچے کو برداشت نہ کر سکتے تھے تو کیوں کی تھی مجھ سے شادی۔ ہمدردی کی ہے اور اب نباہ نہیں پار ہے۔ تم ہی بتائو کہ اس کو برداشت نہ کرو گے تو پھر ہم کیسے ساتھ رہ پائیں گے۔ فرقان کا ہمارے سوا ہے کون؟ اس کو اب عمر بھر یہاں ہی رہنا ہے۔ یہ نہ رہے گا تو میں بھی یہاں نہ رہوں گی۔ اب معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھنے لگا تھا۔ بھابی کہتی کہ فاخر تم میرے بچے سے نفرت کرتے ہو۔ بار بار یہی بات ان کے لبوں پر آجاتی۔ بالآخر ایک دن بھائی نے بھی کہہ دیا کہ ہاں میں اس سے نفرت کرتا ہوں، نہیں کر سکتا اس کو برداشت ، بے شک تم اس کو اس کے ددھیال میں دے آئو۔ پتا نہیں کیوں اس کے ددھیال والے اس کو قبول

نہیں کرتے، کہیں ان کا کہنا سچ ہی نہ ہو۔ میں تو بھائی کے منہ سے ایسے الفاظ سن کرسناٹے میں آگئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ ایسے لفظ منہ سے نکال سکتے ہیں۔ بس وہ دن آخر ہوا۔ نور بھابی کا یہ طعنہ دل میں پیوست ہو گیا۔ اس روز وہ بغیر کسی سے کچھ کہے فرقان کو لے کر گھر سے چلی گئیں۔ اس دن سخت گرمی تھی۔ کھانا کھا کر سب سور ہے تھے۔ بھائی آفس میں تھے جب دبے قدموں بھابی نے گھر چھوڑ دیا تھا۔ برسوں گزر گئے ،آج تک بھائی اور ہم ان کو نہیں ڈھونڈ سکے۔ اب بھائی پچھتاتے ہیں کہ کاش ! میں نے ایسانہ کیا ہوتا۔ کاش میں نے بچے سے حسد کرنے کی بجائے اس کو باپ کا پیار دیا ہوتا۔ پیار نہ دے سکتا تھا تو برداشت ہی کر لیا ہوتا لیکن انسان بھی عجیب مخلوق ہے، خود کو بھی سمجھ نہیں پاتا، نیکی کرنے کے لئے بھی بڑا حوصلہ چاہیے۔ اگر بھیانے حوصلے سے کام لیا ہوتا تو نور کیوں پھر سے در بدر ہوتی  


Post a Comment

0 Comments