Search Bar

Aik Mohabbat Ki Kahani Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

urdu fun club,
urdu funda,urdu funda stories,urdu fanda,


ابو کا یہی ارادہ تھا کہ وہ میرا بیاہ وصی سے کریں گے۔ یہ بات بچپن سے میرے کان میں پڑ چکی تھی۔ تبھی باشعور ہوئی تو دل میں وصی کے خیال کو بسالیا۔ قسمت کی ستم ظر اپنی کہ انہی دنوں جب میری منگنی کی رسم کرنے وصی کے والدین ہمارے گھر آنے والے تھے، والدها یک حادثے میں چل بسیں۔ وہ میری منگنی کے سلسلے میں کچھ شاپنگ کرنے بازار گئی تھیں۔ جس راستے میں تھیں، ان کو ایک بس کی کھر نے سڑک پر اچھال دیا۔ رکشہ تو چور ہوا سو ہوا، ساتھ میر کی ماں بھی راہی ملک عدم ہوئیں۔ میں ماں، باپ کی اکلوتی بھی پل بھر ان سے جدا نہ ہوئی تھی کہ ایسا دن بھی دیکھناپڑ گیا۔ والد بے چارے بھونچکا تھے کہ گھر کی ویرانی کوروئیں یا بیٹی کی پاسبانی کریں۔ ان کی ملازمت ایسی تھی کہ دوسرے شہر ڈیوٹی لگ جاتی تو تین چار ماہ گھر سے دور رہنا پڑ جاتا۔ ان دنوں بھی خالہ اور کبھی نانی میں ہمارے پاس آ کر نہیں۔ ابا کی سہی مجبوری تھی کہ میری خاطر دو بارہ گھر بسالیا۔ نئی ماں آگئی۔ جیسی بھی تھی، ان کے آجانے سے میں نہ تو نہ

تھی۔ ان دنوں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی۔ والد نے دوسری شادی کی اور مجھ کو سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ یہ کہہ کر کہ میری امانت ہے اور ہمارے گھر تھوڑے عرصے کی مہمان ہے، اس کا تم نے بہت خیال رکھنا ہے۔ میں تمہاری ساری کوتاہیاں برداشت کر لوں گا مگر فلزا کی دل آزاری کی تو برداشت نہیں کروں گا۔ والد کی اس تنبیہ کو میری دوسری ماں نے دل پر لکھ لیا۔ بظاہر تو وہ مجھ سے ٹھیک

طرح پیش آتیں مگر چاہتی تھیں کہ گھر کے کام کاج کا سارا بوجھ وہ مجھ پر لاد دیں۔ اسکول کے بعد ذراد پیر کو آرام کرتی تو کام پر لگادیں۔ اس بات پر والد بھی چپ رہتے تھے۔ چاہتے تھے کہ میں گھریلو کام کاج سیکھ لوں کیو نکہ آنے والے دنوں میں سسرال میں ہی ہنر کام آنے والا تھا، جبکہ سگی ماں تو کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتی تھیں۔ یہ ماں حسن سلوک میں مجھ سے اچھی تھی لیکن میری پی اور خاص طور پر وصی کو تو بالکل بھی پسند نہ کرتی تھی۔ بہت جلد انہوں نے چینی سے بگاڑ پیدا کر لیا جس پر چھانے ان سے ذرا تلخ لہجے میں بات کی۔ باپر نویلی بیوی کا جادو چل چکا تھا سو بھائیوں میں ناچاقی ہو گئی۔ دونوں نے آپس میں بات چیت بند کر دی۔ یوں وصی کو بھی قدسیہ اماں نے گھر آنے سے روک دیا۔ گویا دونوں کو ہی ایک دوسرے سے

ملنے سے روک دیا گیا۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کبھی ہماری زندگی میں ایک دن بھی آئے گا کہ ہم ایک دوسرے کی اک جھلک کو ترسیں گے۔ اسی زندہ تھیں اور وز ا آنا ہمارے گھر میں وصی کا معمول تھا۔ وہ خاص طور پر اس کے لئے کھانابنا کر رکھتی تھیں، اس سے بہت پیار کرتی تھیں۔ ان کا کوئی بیٹانہ تھا، وصی کو ہی بیٹا جانتی تھیں۔ بچی سے بھی میری ماں کی گاڑھی چھنتی تھی لیکن اب کی نئی آنے والی شریک حیات نے تو وصی اور اس کی ماں کو ذہنی طور پر قبول ہی نہ کیا۔ ان کا اپنے گھر آنا نحوست خیال کرتی تھیں، بالآخر ایسی خلیج حائل ہوئی کہ ہمارا اٹوٹ گیا۔ میں اور وصی چند دن بہت پریشان رہے، پھر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ اب ہم دونوں اپنے اپنے کان سے چھٹی کرتے اور باہر ہی ایک دوسرے سے ملا قات کر لیتے۔ اس کے سوا ہمارے پاس ملاقات کا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ اس بات کا پتاپر تیل کو چل گیا۔ انہوں نے ماں کو بلایا اور میر کی شکایت کر دی۔ چھوٹے شہروں میں یوں بھی بات جلد پھیل جاتی ہے اور عزت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جب سوتیلی ماں نے کالج کی پرنسپل کی تنبیہ کے بارے میں والد کو بتایا، انہوں نے بہت ہتک محسوس کی

اور مجھ کو کان سے اٹھالیا، حالانکہ میں نے ان سے بہت منت سماجت کرنے کے بعد کالج میں داخلے کی اجازت لی تھی ۔ کا ایک چھوٹ جانے کا مجھ کو بہت قلق ہوا، اس سے بھی زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ وصی سے ملنے کا راستہ بند ہو گیا تھا۔ بتاتی چلوں کہ ہمارا اور چپکا گھر ساتھ ساتھ تھا۔ وصی اپنے گھر کی چھت پر بھر کی دوپہروں کھڑا رہتا کہ میں آنگن میں نکلوں تو وہ میرا دیدار کرنے لیکن ماں کی مجھ پر کڑی نگا ر ہتی۔ وہ مجھ کو اکیلے چھت پر بھی جانے نہ دیتیں۔ ان کی تختی کے کارن وصی کو اپنی تائی سے نفرت ہو گئی اور میں بھی قدسیہ میاں کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھنے گی۔ ایک روز قدسیہ ان کی خالہ فوت ہو گئیں اور بیٹھے بٹھائے ان کو گھر سے جانا گیا۔ تب وصی کو مجھ سے بات کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم ہمت کرو ورنہ یہ عورت ہم دونوں کو ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے دور کر دے گی۔ میں کیا ہمت کروں ؟ کیا کروں آخر ! جبکہ انہوں نے تو ابا کو بھی اپنا ہم خیال بنالیا ہے۔ دراصل یہ میری شادی اپنے پہلے شوہر کے بیٹے انعام سے کرنا چاہتی ہیں جو اپنے دادا، وادی کے پاس رہتا ہے کیونکہ ان کو ابا کے مکان اور جائیداد کا لایا ہے جس کی میں وارث ہوں، اسی وجہ سے پی سے انہوں نے جان بوجھ کر بگاڑ پیدا کیا ہے۔ یہ بات سن کر وصی کو اور بھی غصہ آیا۔ کہنے لگا۔ جب تایا شہر سے باہر کی ڈیوٹی پر ہوں، تم چھت پر آ کر مجھ سے ملنا۔ قدسیہ اماں کو نیند کی گولی کھلا دینا، ہم مل کر سوچتے ہیں اور اس سانپ کو اپنے درمیان سے ہٹانے کی کوئی ترکیب کرتے ہیں۔ میں سمجھی کہ اس کی بات کا یہ مطلب ہے کہ کوئی تدبیر کر کے ہم اپنے بالوں کو پھر سے اس پر راضی کرتے ہیں۔ اب جب باڈیوٹی پر رات کو گھر سے باہر ہوتے، میں سوتیلی ماں کو گہری نیند میں چھوڑ آدھی رات کو چھت پر چلی جاتی۔ یوں میر کی اور وصی کی کئی ملا قا تیں ہوئیں۔ ہمارے گھروں میں ایک ہی عورت کام کرتی تھی جس کا نام زلیخامائی تھا۔ اس کو وصی نے روپے پیسے سے کام کر کے میرا اور اپنا پیامبر بنالیا تھا۔ جب کچھ کہنا ہوتا، پرچے پر لکھ کر مائی زلیخاکو دے دیتا۔ وہ ہمارے گھر برتن دھونے آتی، یہ پرچہ مجھ کو تھمادی۔ غرض اس طرح ہمارا رابطہ قائم تھا۔ ان دنوں موبائل فون تو کیا ہمارے شہر میں عام ٹیلیفون کا نظام صرف ڈاک خانے یا پھر ہم مقامات تک ہی محدود تھا۔ ایک روز ماں کی آنکھ کھل گئی، آدھی رات کو بستر پرنہ پاکر وہ مجھ کو گھر میں تلاش کرنے لگیں۔ ان کے قدموں کی آہٹوں نے ہم کو چوکنا کر دیا۔ دبے قدموں زینے پر بھی اور جب وہ تلاش کرتی مسل خانے میں تھیں، میں بغیر آہٹ اس کمرے میں جہاں اب اپنا فوری سامان رکھتے تھے، صوفے پر لیٹ گئی ۔ ماں کو کہیں نہ ملی توانہوں نے مجھے پکارا۔ وہ چھت پر بھی مجھ کو تلاش کرنے کے بعد نیچے آ چکی تھیں۔ ان کو یہ خیال نہ آیا کہ ابا کے دفتر کی سامان والے کمرے میں جہاں ان کی فائلیں وغیر ہ ہوتی تھیں، میں آدھی رات کو جا کر لیٹ سکتی ہوں کہ وہاں تو دن کو بھی ابا کے سوا کوئی نہ جاتا تھا۔ ماں کی مسلسل پکار پر میں نے اسی کمرے سے جواب دیا میں ادھر ہوں، آپ کیوں مجھ کو اس طرح پکار رہی ہیں؟ انہوں نے کمرے میں آ کر بتی جلائی اور بولیں۔ تم یہاں کیوں پڑھی ہو ؟ او هر تمہارا کیا کام ! کیا یہ جگہ سونے کی ہے؟ ہر طرف تو کاغذ اور قا ئلیں ہیں آخر تم کو اس وقت یہاں آ کر لیٹنے کی کیا سوجھی ہے؟ روہانسی ہو کر میں نے کہا۔ اماں !آپ کو پتا ہے نا کہ مچھر مجھ کو بہت کاٹتے ہیں اور آپ روزانہ کمروں کی کھڑکیاں تازه ہوا کی خاطر کھول دیتی ہیں پھر شام کو انہیں بند کر نا بھول جاتی ہیں تو کمرے میں مچھر جھر جاتے ہیں، تمام رات سو نہیں پائی، بے چین کروٹیں بدلتی رہتی ہوں اور کھجاتی رہتی ہوں، بہت تکلیف ہوتی ہے، جانے آپ کو کیسے نیند آجاتی ہے۔ پکھا کھول لیا ہوتا تو پھر نہ کاٹے۔ آپ کو ہی تو پنکھے سے سردی لگتی ہے۔ اچھا آنند ادھر مت سونا، چلو اب اٹھواس اجاڑ کمرے سے اور میرے کمرے میں چل کر سو جائو۔ میں پنکھا چلا دیتی ہوں اور چادر لپیٹ لیتی ہوں، تم بھی چادر لے کر سو جانا۔ چادر سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ میں بڑ بڑائی ان کے پیچھے ہولی۔ آج تو میرے کمرے میں سو جائو، کل سے اپنے کمرے میں سونا اور کمرہ بند ر کھنا۔ تم کو تو تازہ ہوانہ چاہئے ، نہ سہی، اجاڑ | کمروں میں سونے سے جن، بھوت غالب ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھ کو اپنے تئیں ڈرایانگر میں جانتی تھی کہ وہ مجھ پر مشکوک تھیں اور پہرہ دیتی تھیں وصی کی وجہ سے۔ اب جب میر کی چھت پر وصی سے ملاقات ہوئی، اس کو بتا یا کہ میں پر نیند کی گولی بھی اب اثر نہیں کرتی، بہت چوکنی ہوگئی ہیں ۔ ہوشیار نیند سوتی ہیں، اب یہ ہماری آخری ملا قات سمجھو۔ آج کے بعد چھت پر رات کو تم سے ملنے نہیں آئوں گی۔ یہ بات سن کر وہ بہت پریشان ہو گیا۔ یہ عورت اوچ مچ ہم دونوں کے درمیان ایک بھی نہ مٹنے والی دیوار بن گئی ہے۔ اس کا کوئی پاصل سوچنا پڑے گا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ میری سوتیلی ماں سے نفرت کی تند لہروں میں بہہ رہا ہے۔ اس کے دماغ میں یہ خوف میں نے ہی ڈالا تھا کہ ماں میر کی شادی اپنے بی نے انعام سے کرانے والی ہیں، حالانکہ انعام توان سے محض ملنے آتا تھا، وہ بھی کبھی کبھار میرے والد کی اجازت سے قصہ یہ تھا کہ جب قدسیہ اماں بیوہ ہوئی تھیں، وہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ماں تھیں۔ ان کے بھائیوں نے چے، پہلے شوہر مرحوم کے والدین کے حوالے کر دیئے اور بہن کو گھر لے آئے۔ کچھ عرصہ بعد جب میری سکسی ای فوت ہو گئیں تو ان کی شادی ابا سے ہو گئی۔ شادی کے وقت انہوں نے یہ شرط رکھی تھی کہ میرے والد ان کو پہلے شوہر سے جو چکے تھے، ان سے ملنے دیں گے۔ سویٹی سے ملنے قدسیہ اماں ، بھائی کے گھر جاتیں اور پی این انجام ان سے ملنے بھی کبھار ہمارے گھر آجاتا تھا۔ جب وہ آتا، میں انعام کے سامنے بھی نہ جاتی کہ یہ ابا کا حکم تھا۔ قدسیہ اماں کو مجھ پر سخت اور وصی سے ملنے پر پابندی کے باعث یہ قصہ میرے ذہن نے از خود گڑھ لیا کہ وہ شاید ہمارے مکان کی خاطر میر ابیاهانعام سے کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ یہ خود ساختہ کہانی جو میرے ذہن نے گڑھی، وصی کے گوش گزار کر دی جس کو اس نے سچ مان لیا۔ جس رات اماں نے مجھ کو بستر پر نہ پا کر گھر بھر میں ڈھونڈا، اس کے بعد میں صرف ایک بار ہی وصی سے رات کو چت پر ملی، اس کے بعد چھ روز تک ہم نہ ملے۔ میں خاموش ہو میٹھی اور وہ بھی خاموشی کی آگ میں جلتارہا۔ ایک دن اس نے اماں زلیخا کے ہاتھ پر چہ بھجوایا جس پر لکھا تھا کہ آج رات دو کے اوپر آجانا، تم سے ضروری بات کرنی ایاڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے اور میں گہری نیند سورہی تھیں کیونکہ آج میں نے ان کو نیند کی چار گولیاں دودھ میں ڈال کر دے دی تھیں کہ وصی نے ایسا مجھے کرنے کو کہا تھا۔ میں کبھی نہ چاہتی تھی کہ وہ نیند سے اٹھ جائیں اور مجھ کو نہ پا کر شور مچادیں۔ نیند کی چار گولیاں دینا گویا قول وصی یہ ہمارے مسئلے کا پا حل تھا۔ اس کا کہنا تھا جو رقیب بن کر ہم کو ملنے نہ دے ، اس کو گہری نیند سلا دینا چاہئے۔ میں چھت پر آئی تو وہ بولا۔ آج سے ایک دوسرے شہر ڈیوٹی ہے، تم ایسا کرو بیرونی در کی کنڈی اندر سے کھول دو، چھت پر سردی ہوتی ہے، آج ہم کمرے میں بیٹھ کر آرام سے بات کریں گے کیونکہ تمہاری اماں قدسیہ تواب خوب گہری نیند سوئیں گی، ہم دیر تک باتیں کر سکتے ہیں، کسی کا خوف بھی نہ ہو گا۔ آج میں تم کو خوشخبری سنانے والا ہوں۔ میر کی ترقی ہو گئی ہے اور تنخواہ بھی بڑھی ہے۔ اس کی ہدایت کے مطابق میں نے صحن میں آ کر بیرونی در کی کنڈی کھول دی اور وہ ہمارے زینے سے اتر کر اپنے اپنے گھر کے دروازے سے ہمارے گھر میں آگیا۔ وہ دوسرے کمرے میں آ کر آرام سے بیٹھ گیا اور ہم نے بے فکر ہو کر باتیں کیں۔ اس نے مجھ کو اپنے ہاتھوں سے مٹھائی کھلائی اور صبح کو اذان سے قبل چلا گیا۔ سردیوں کا موسم شروع تھا اور چھت پر رات کو سردی زیادہ ہوگئی تھی، المذاجب ابا کی اردو ماہ کی ڈیوٹی دوسرے شہر ہوتی، ہم قدسیہ میاں کو نیند کی گولیوں سے گہری نیند سلا کر بے فکری سے گھر میں ملاقاتیں کرتے۔ جب تک ماں چار گولیوں سے گہری نیند سوتی رہیں، ہماری ملاقاتیں اسی طرح ہوتی رہیں۔ کچھ عرصے بعد ان گولیوں نے بھی اثر کھو دیا۔ کیا خبر جعلی ہوتی تھیں یا کہ اصلی... بہر حال ایک روز چار گولیوں نے بھی اثر نہ کیا اور وہ آدھی رات کو اٹھ گئیں۔ یہ تو خیر ہوئی کہ ان پر نیند کا غلبہ تھا۔ وہ غسل خانے گئیں اور پھر دوبارہ اپنے بستر پر آ کر سو گئیں۔ انہوں نے یہ پڑتال نہ کی کہ میں اپنے بستر پر موجود ہوں یا نہیں تاہم ہم نے ان کو غسل خانے جاتے دیکھ لیا، دم سادھے رکھا۔ دعاکی الله پاک ! آج ہم رنگے ہاتھوں نہ پکڑ لئے جائیں۔ اس رات خیریت گزری۔ ہوتا یہ تھا کہ اماں قدسیہ نے جوبلی پال رکھی تھی، وہ اپنے گا اس سے کچھ دودھ اس کی پیالی میں ڈال دی ں۔ اس طرح ان کی بیٹی بھی گہری نیند سوئی رہتی اور وہ بھی... جس روز ان کی رات کو آنکھ کھلی، اس روز انہوں نے دودھ پیا ہی نہ تھا، بلی کے لئے رکھ دیا اور وہ اس کی پیالی میں کبھی ڈالنا بھول گئیں، بستر پر لیٹتے ہی سو گئیں، تبھی وہ نصف شب کو اٹھ کر واش روم گئی تھیں اور تم نے مجھ لیا کہ چار گولیاں بھی اب ان پر بے اثر ہو گئی ہیں۔ میں نے اگلی رات مقدار زیادہ کر دیا۔ وہ دل کی مر تفقہ تھیں، گولیوں کی اتنی مقدار کا نشہ برداشت نہ کر سکیں اور رات کو کسی وقت ان کی حرکت قلب بند ہو گئی۔ میں نے ان کی جان لینے کے ارادے سے ایسا نہ کیا تھا۔ میں تو یہی سمجھی کہ گہری نیند سو رہی ہیں۔ کیا خبر تھی کہ ابدی نیند سو چکی ہیں۔ اس روز رات بھر جاگنے کے باعث میری آنکھ بھی کافی دیر بعد کھلی۔ وہ بھی مجھ کو زیخانے جگایا۔ بولی۔ بی بی ! کیا ہوا ہے، گیارہ بن رہے ہیں اور آپ دونوں ماں، بیٹی دن چڑھے سورہی ہیں۔ بڑی آپا کو آواز لگائی، وہندا نھیں، آپ کی طرف آئی تو آپ بھی آنکھیں موندے پڑی تھیں۔ میں تو تمہاری ایک آواز پر اٹھ گئی ہوں نا مگر تم گھر کے اندر آئی کیسے ہو ؟ آپ کا بیرونی در کھلا ہوا تھا۔ وہ بولی۔ اچھا...! اماں کو دیتی ہوں۔ اماں کے کمرے میں گئی ۔ وہ کب اٹھنے والی تھیں، ان کو رات میں گولیاں جو زیاد ہوئی تھیں کہ آج شام سے پہلے اٹھنے والی نہیں ہیں۔ زلیخا سے کہا۔ تم آج کام کی چھٹی کر لو۔ اماں جاگ گئیں تو ان کے درد شروع ہو جائے گا۔ رات اچانک پتے میں درد اٹھا، رات بھر خود سوئیں نہ مجھے سونے دیا، مشکل سے آنکھ گئی ہے ان کی ...! ایا کرو  تم کل آنا۔ پرچہ بھی لکھ کر زلیخا کو دیا کہ اسے دے دینا۔ وہ پرچے کو مٹھی میں دبا کر چلی گئی۔ پرچے میں، میں نے لکھا تھا۔ وصی !کل میں نے اماں کو گہری نیند سلانے کے واسطے جو گولیوں کی زیادہ مقدار دے دی تھی ، وہ تو اب تک بے ہوش پڑی ہیں۔ تم آ کر ان کو دیکھو تو را....! میں گھر میں اکیلی تھی ، وہ آگیا۔ ہم اماں کے پاس گئے۔ اس نے ان کو ہلا جلا کر دیکھا، ناک پر ہاتھ رکھا، نبض و میھی۔ کہا۔ کچھ نہیں گولیوں کے نشے کاش ہے۔ تھوڑا سا اور دیکھ لیتے ہیں۔ دو چار گھنٹے بعد شاید ہوش آجائے۔ بے وقوف ہو فلز ! تم نے ان بیچاری کو زیادہ گولیاں کیوں دے دیں؟ اچھا ! میں دو بار ہ آ جائوں گا۔ فکر نہ کرو، بے ہوش ہیں۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا مگر مجھ کو چین نہ آرہا تھا۔ خیال آیا کہ ان کی پالتویلی نظر نہیں آرہی۔ میں نے اپنے لئے چائے پر اٹھا بنایا تھا، ناشتہ کیا اور پھر بلی کو دیکھنے کی تاکہ اس کو کھاناڈالوں۔ اماں انھیں گی تو خفاہوں گی کہ میری بلی کو کھانا کیوں نہ ڈالا...؟ ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک حصہ مرغیوں اور بکریوں کے لئے والد نے چھوڑا ہوا تھا۔ یہ متقی صحن تھا جس کا فرش کیاتھا۔ اس کو ہم کیاہی کہتے تھے۔ اماں کی بھی کی تلاش میں ، میں بچے کی طرف گئی۔ یہاں کاٹھ کباڑ پڑا ہاتھ اور یہاں چوہے کی کھٹ پٹ کے باعث بھی اکثر اس کاٹھ کباڑ میں گھسی رہتی تھی۔ اس کو پکارا۔ وہ کچھ میں بھی کہیں نظر نہ آئی اور نہ پکارنے پر جہاں ہوتی، کھل کر سامنے آجاتی۔ میں نے جھک کر کاٹھ کباڑ میں پڑتال کی تو وہ مجھ کو وہاں پڑی ملی۔ لکڑی سے ہلایا۔ وہ مر چکی تھی۔ گویارات کو اماں نے خود دودھ پیا اور کچھ اس کی پیالی میں بھی ڈالا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ جو گولیاں وصی نے لا کر دی تھیں، وہ شاید کچھ زیادہ پاور والی تھیں کہ دودھ پینے کے بعد اماں اور ان کی بلی دونوں ہی ہمیشہ کی نیند سوگئی تھیں۔ شام کو وصی آیا۔ میاں کو دیکھا۔ مجھ سے کہا کہ ابھی تک بے ہوش ہیں، تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں۔ اس دوران کوئی آ کر اماں کا پوچھے تو کہا کہ طبیعت خراب تھی سورہی ہیں۔ رات بارہ بجے تک وہ نہ آیا۔ میر ا ہی گھبرانے لگا۔ دوبارہ قدسیہ اماں کے پاس گئی۔ پکار لایا جلایا مگر وہ ہوتیں تو اس جہان میں بھی جواب دیتیں۔ مجھ کو یقین ہو گیا کہ اماں مر گئی ہیں، میں رونے گی مگر منہ پر دوپٹہ رکھ کر دیے جیسے کہ آواز نہ ہو۔ رات کا ایک بہاتھا بھی کاکا ہوا۔ میرے کان تور پر لگے ہوئے تھے وصی کے انتظار میں اور خوف کے مارے برا حال تھا۔ دروازہ کھولا۔ وصی نے کہا کہ تم کمرے میں چلی جائو اور اندر سے کنڈی لگالو۔ جب تک میں نہ کہوں، باہر مت آنا۔ ڈاکٹر کو دکھا لوں۔ میں اماں کو اسپتال لے جائوں گا، ساتھ میرے دوست ہیں، ان کی گاڑی میں لے جاتا ہے۔ تم سامنے مت آنا، | ان لوگوں کے ! میں کمرے میں چلی گئی ، اندر سے کنڈی لگالی۔ وہ دوستوں کو اندر لے آیا، ان کے پاس کرائیں تھیں۔ وہ اماں کے کمرے میں گئے، سب نے مل کر ان کو اٹھایا اور کچھ میں لے گئے۔ جس کے مارے مجھ سے نہ رہا گیا۔ در کھولا اور کچھ میں جھانکا۔ وہ محن میں کھالوں سے گڑھا کھود رہے تھے۔ سمجھ گئی کہ تین مردہ کو یہ گھر کے اندر ہی کچھ میں گڑھا کھود کر سپردخاک کر رہے ہیں۔ اماں واقعی مر چکی ہیں۔ ادھر ان کے ساتھ کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ بشکل واپس کمرے تک آئی۔ جسم کانپ رہا تھا، بستر پر گر کر بے ہوش ہوگئی۔ خدا جانے کب وصی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس بھیانک کام کو انجام تک پہنچا اور پھر وہ اور اس کے ساتھی صبح ہونے سے پہلے گھر سے نکل گئے۔ جاتے ہوئے وہ ہمارے گھر کے دروازے کی کنڈی بھی اندر سے لگا کر نہ گیا۔ خود ہماری چھت سے اپنی چھت پر اور پھر وہاں سے زینے طے کرتا اپنے گھر چلا گیا۔ صبح جب میری آنکھ کھلی ، خوف سے بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی ، ناچار اشی۔ پہلے اماں کے کمرے میں جھانکا، اماں نہ تھیں، ان کا بستر خالی تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کو آدھی رات کو وصی نے کچھ کے صحن میں د فنا ہاتھ اور اوپر سے مٹی برابر کر دی تھی۔ میں گم صم اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔ یہ میری غلطی سے سبب ہوا تھا۔ آب در پر زلیخامائی تھی۔ بولی۔ کب سے دور جارہی ہوں بی بی ! کیا سورہی تھیں؟ غسل خانے میں تھی۔ اماں کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ،رات کو با آگئے اور ان کو اسپتال لے گئے ہیں، آپریشن کروانے۔ اچھا فلز بی بی ! الله تعالی ان کو صحت دے۔ تم اکیلی کیسے ہو گی، تمہارے پاس کون ہے؟ ابا کہہ گئے تھے مائی زلیخا سے کہنا کہ خالہ کے گھر جا کر ان کو تمہارے پاس بھیج دے گی۔ ٹھیک ہے بی بی ! فکر نہ کرو، میں کام ختم کر کے چلی جاتی ہوں۔ آج کام نہ کرو، تم بس جا کر میری خالہ کو بلالا تو وہ چلی گئی۔ سہ پہر کو خالہ آ گئیں۔ بولیں ۔ بیٹی ! میں قدسیہ کی باری کا سن کر پریشان ہو گئی ہوں، تم ایسا کرو میرے ساتھ میرے گھر چل کر رہو۔ میں تمہاری بچی کے گھر جاتی ہوں۔ پھر ہم گھر کو تالا لگا جاتے ہیں اور چابی ان کو دے جاتے ہیں۔ آپ یہاں رہ جائے۔ فلزا بیٹی ! میں یہاں رات نہیں رک سکتی، تمہارے خالو کی طبیعت خراب ہے ،ان کے پاس دیکھ بھال کو میرے سوا کوئی نہیں ہے، میری یہ مجبوری ہے۔ مجھ کو تو گھر سے وحشت ہورہی تھی۔ ابا سے بھی رابطہ نہ کر سکتی تھی، خالہ کی بات مان لی۔ انہوں نے چھا جان کو جا کر بتلادیا که منظور آئیں تو کہہ دینا کہ خاله فلز کو لے گئی ہیں۔ الله ان کی قید سیہ اماں کو صحت یاب کر دے اور وہ خیریت سے لاہور سے آجائیں۔ چی جان کو خالہ کی زبانی معلوم ہوا کہ خالہ قدسیہ گھر پر نہیں ہیں، جیٹھ آپریشن کرانے لے گئے ہیں، سو انہوں نے چانی رکھ لی۔ کچھ دن ہماراگھر بند پڑا ہے۔ ادھر میرادل بھی جیسے بند ہوا چاہتا تھا کہ جب ابا آئیں گے اور ہم دونوں کو گھر نہ پائیں گے کیا ہو گا۔ وصی تو اگلے دن ہی شہر سے غائب ہو گیا۔ وہ دوسرے شہر اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا۔ ابا آئے ، تالا دیکھ لامحالہ بھائی کے گھر سے پتا کیا۔ پچھیا سے پوچھا۔ انہوں نے وہی دہرادیاجو خاله بتاکر گئی تھیں۔ وہ فکر مند ہو گئے۔ پہلے خالہ کے گھر آئے۔ مجھ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کہا اور تمہاری ماں کدھر ہے؟ میں نے جھوٹ بولا کہ ایک روز سو کر اٹھی تو ماں موجود نہ تھیں۔ انتظار کیا کہ کہیں قریب گئی ہوں گی، آجائیں گی۔ دن بھر انتظار کرتی رہی ، نہ پڑھیں تو خالہ کو زلیخامائی کے ذریعے بلوایا۔ ان سے اماں کے آپریشن کا اس لئے کہ دیا کہ گھر سے بغیر بتائے ماں کے چلے جانے سے کہیں لوگ غلط مطلب نہ لے لیں۔ والد اور پریشان ہو گئے۔ وہ قدسیہ اماں کے میکے گئے ، انجام کو بلوا کر پوچھ گچھ کی۔ ان لوگوں کو تو کسی بات کا علم ہی نہ تھا۔ قدسیہ اماں ادھر کوئی ہی نہ تھیں اب سوائے پولیس میں رپورٹ گمشده درج کرانے کے چارہ نہ تھا۔ پولیس نے گمشده داماں قدسیہ کے کیس کی تفتیش شروع کر دی ۔ گھر میں آ کر گھوم پھر کر سب جگہوں کا بغور معائنہ کیا۔ کچے میں ایک جگہ فرش پر ان کو مٹی جھر جھری گئی جیسے کسی نے یہ جگہ کھود کر پھر سے اس میں مٹی بھری ہو۔ وصی

کے ساتھیوں نے جلدی میں گڑھا کھود لیکن بہت گہرا نہیں کھود سکے تھے۔ پولیس نے کھدائی کی تو تھوڑی سی گہرائی کے بعد اماں قدسیہ کا تن خاکی ظاہر ہو گیا۔ ابھی تفتیش جاری تھی کہ جہاں جا کر وصی چھپا تھا، اس دوست نے آ کر میرے والد سے رابطہ کیا اور ان کو بتادیا کہ تمہارا بھتیجا اپنی بچی کو آپ کے کچے صحن میں دفن کر آیا ہے کیونکہ غلطی سے آپ کی بیٹی نے ان کو پینے کے درد کے دوران کوئی ایسی دوا دی تھی کہ وہ دوا کی تیزی نہ سہہ سکیں اور جاں بت ہو گئیں۔ تبھی آپ کی بیٹی نے وصی کو بلا کر ماجرا بتایا کیونکہ یہی ڈر گئی تھی۔ وصی نے اس خوف سے کہ قتل کا الزام قلز پر نہ آجائے، قدسیہ اماں کی لاش کو محن میں دفن کر دیا اور میرے پاس آگیا۔ وہ بہت پریشان ہے۔ آپ کو تمام بات سے آگاہ کرنے کو اس نے مجھ کو بھیجا ہے، آگے آپ مرضی جو کارروائی کریں۔ ابا جانتے تھے کہ فلو قتل نہیں کر سکتی، غلط مقدار میں دو اضر ور دے دی ہوگی، کیونکہ جب قدسیہ اماں کے پی کادرد ہوتا تھاتو ان کو کافی تکلیف ہوتی تھی۔ وہ درد کی دوا میرے ہاتھ سے لیتی تھیں اور کچھ عرصہ بعد ان کا آپریشن کرانے کا ارادہ بھی تھا۔ باپ تو پھر باپ ہوتا ہے، انہوں نے پولیس سے نہ تو میرا نام لیا اور نہ وصی کا..... البته اماں قدسیہ کو ہی گناہ گار مظہر ادیا گیا۔ ان کے بھائی اور قریب رہنے والوں نے ان کو اور مجھ کو بچانے کی خاطر یہ گواہی دی کہ کبھی کبھار ان سے ملنے کوئی شخص ان کے شوہر کی غیر موجودگی میں آتا تھا، وہ تب فلز کو خالہ کے گھر بھجوادیا کرتی تھیں۔ ہم منہ سے خاندان کی عزت کی خاطر یہ معاملہ طشت از بام نہیں کر سکتے تھے۔ یہ سوچ کر ممکن ہے اس خاتون کے میکے سے کوئی رشتہ دار ملنے آتا ہو تو ہم تہمت نہ لگانا چاہتے تھے۔ غرض پولیس کی مطلوبہ تواضع کی جائے تو کوئی بھی کہانی بنائی جاسکتی ہے۔ کیس کو خودکشی بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ ان کی گمشدگی کا نہ تھا بلکہ لاش کی من سے برآمدگی کا تھا۔ والد ایسے مشکے میں تھے کہ ان کی دن رات وہاں موجودگی اور ڈیوٹی کے اوقات کار میں وہاں پر موجود رہنا ثابت تھا۔ بہر حال جس طرح بھی ممکن ہوا، اماں قدسیہ کا کیس تلاش گمشدہ کا ہی رکھا گیا اور کہانی کے دوسرے حصے کو تفتیش میں نجانے کیسے درج کیا گیا کہ نہ تو مجھ کو تھانے جاناپڑا کہ میں سولہ برس کی ایک ناسمجھ اور بن بیاہی بھی تھی اور نہ وصی کو کہ اس کا تو اس معاملے میں کہیں ذکر تک کسی نے نہ کیا۔ کبھی اپنے تھے اور ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وصی نے مجھ سے ملاقات کی خاطر چند گولیاں ضرور لا دی تھیں۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اتنی زیادہ مقدار میں دے دینا۔ یہ میری کم عقلی تھی۔ اس خیال سے کہ ان کو بہت گہری نیند آئے، میں نے زیادہ مقدار میں دے دیں جو وہ یہ نہ سکیں، ان کو ہوش ہی نہ آسکا اور بے ہوشی میں اس جہان سے چلی گئیں۔ ان دنوں موبائل فون تھے نہ اتنی معلومات بچیوں کو ہوتی تھیں کہ کون سی گولیاں زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے جان چلی جاتی ہے۔ خدا گواہ ہے کہ ہم دونوں میں سے نہ وصی اور نہ میں ہی اماں قدسیہ کو زندگی کی نعمت سے محروم کر نا چاہتے تھے مگر یہ ہماری چھوٹی تقدیر کہ ہماری لاعلمی اور بے وقوفی سے ایسا ہو گیا اور پھر وصی نے مجھ کو بچانے کی خاطر ماں کو گڑھے میں چھیار یا والد اور تایا نے اس کیس کی سین کی خاطر رنجش ختم کر کے صل کر لی کہ دونوں ہی اولادیں خطرے میں تھیں۔ قدرت نے میری شادی وحی سے لکھے دی تھی ، سو ہو گئی۔ اس واقعے کو ستر سال گزر چکے ہیں۔ میں زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہوں۔ دل کا بوجھ اتارنے کو اپنی کہانی چھوڑے جارہی ہوں ۔ پوتی کو تاکید کر دی ہے میرے مرنے کے بعد اس لفافے کو کھولنا۔ آج داد اوفات پا چکے ، دادی بھی اس دنیا سے چلی گئی ہیں لیکن ان کی یہ کہانی ایک محبت کی کومل کو مل کہانی نہیں ہے بلکہ ایک خوفناک یادگار کہانی ہے جس کو ان کے بعد جس نے بھی پڑھا ہو گا ، ششدر رہ گیا ہو گا۔


Post a Comment

0 Comments