Search Bar

Deir Hove Ghur Aatey Aatey Teen Auratien Teen Kahaniyan

 



Deir Hove Ghur Aatey Aatey  Teen Auratien Teen Kahaniyan

ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو کر بھی ہر بچہ اپنی الگ فطرت لے کر اس دنیا ہے۔ میں نے تو اپنے تینوں بچوں کی تربیت ایک ہی طرح جانفشانی سے کی تھی مگر بڑا بیٹا حامد باقی دونوں بہن اور بھائی سے بالکل مختلف نکلا۔ اس نے مجھے اور اپنے باپ کو وہ غم دیئے کہ جن کی ہمیں قطعی امید نہ تھی۔

میرے شوہر ایک امیر خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کی اپنی کپڑے کی مل تھی اور ہم خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ ہمارے تینوں بچے حامد، ماجد اور سونیا منہ میں سونے کا . ہ لے کر پیدا ہوئے عیش و عشرت کے گہوارے میں جھول کر جوان ہوگئے۔ میری ایک ہی نند تھی جس کا نام سارہ تھا۔ پہلے وہ ہمارے ساتھ رہتی تھی۔ اس کی شادی رفیع نے اپنے ایک عزیز اکمل سے کردی۔ اکمل چونکہ زمیندار تھے اور آموں کے باغات کے مالک تھے۔ وہ اپنے گائوں میں ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ ان کا گھر بھی ان کے لہلہاتے کھیتوں کے بیچ تھا۔ شادی کے چار سال بعد سارہ کے گھر ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام انہوں نے سلطانہ رکھا۔ سلطانہ بہت خوبصورت بچی تھی۔ پہلے روز سے ہی اس کی معصوم صورت دیکھ کر میں نے سوچ لیا تھا کہ اسے حامد کی دلہن بنا کر لے آئوں گی۔

میری چھوٹی بہن نادره امی ابو کی وفات کے بعد اکیلی رہ گئی۔ میں اس کو اپنے گھر لے آئی۔ مجھے اس کے رشتے کی بہت فکر تھی۔ قریبی عزیزوں میں کوئی رشتہ اس کے لائق نہ ملا۔ ایک روز میری نند اپنے دیور فراز کے ساتھ ہمارے گھر آئی۔ ان کو میری بہن پسند آگئی۔ سارہ نے فراز کے لئے نادره کا رشتہ مانگ لیا۔ میں بہت خوش ہوئی کہ نادرہ قریبی گھرانے میں بیاہی جا رہی تھی۔ رفیع بھی اس رشتے پر مسرور تھے۔ جلد ہی شادی کی تاریخ طے

کردی گئی اور ہم نادرہ کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔انسان تیاریاں تو خوشی منانے کی کرتا ہے مگر کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ آنے والا وقت خوشیوں کا پیام لا رہا ہے یا غم و اندوہ کا۔ نادرہ بھی انہی بدنصیب دلہنوں میں سے تھی جو سہاگ جوڑے میں اپنے ہی خون سے رنگی جاتی ہیں۔سارہ دیور کی شادی کی تیاریاں بہت اہتمام سے کیں۔ ادھر میں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بارات کا دن آگیا۔ سارہ جب تیار ہو رہی تھی تو اس کی اکلوتی بیٹی سلطانہ نے خوشی میں اپنی ماں کا جھلملاتا ہوا کامدانی دوپٹہ اوڑھ لیا۔ اس پر میری نند کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگی کہ پتا نہیں میں اپنی اس بچی کی شادی تک زندہ بھی رہتی ہوں یا نہیں۔ کمرے میں موجود اکمل بھائی نے کہا۔ سارہ منہ سے اچھی بات نکالو۔ یہ کیا کہہ دیا تم نے۔ اللہ نے چاہا تو ہم اپنی بچی کی شادی خوب دھوم دھام سے کریں گے۔ جس وقت یہ بات ہو رہی تھی۔ معصوم سلطانہ صرف چھ برس کی تھی۔

رفیع نے بارات کا استقبال کرنا تھا۔ وہ خوش خوش دوڑتے پھر رہے تھے۔ سبھی انتظام کرنے والوں کو بار بار ہدایت دیتے۔ تاکید کرتے کہ ایسے کرنا ہے۔ یوں دولہا والوں کا خیر مقدم کرنا ہے۔ نکاح کے بعد ضیافت کا کھانا چن دیا گیا اور پھر مہمان رفتہ رفتہ رخصت ہوتے گئے۔ اسی دن انہوں نے سارہ سے

کہا کہ وعدہ کرو ، تم سلطانہ کو مجھ کو ہی دو گی۔ میں اور جیا اس کو حامد کے لئے لیں گے اور اپنی بہو بنائیں گے۔ بھائی جان میری زندگی رہی تو وعده بھی رہا۔ ابھی تو یہ صرف چھ برس کی اور حامد دس کا مناسب وقت آنے

دیجئے۔ یوں آپ کی بیٹی ہے، چاہیں تو ابھی اپنے پاس رکھ لیں۔ جب بارات واپس لاہور جا رہی تھی تو اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے اور رفیع کا دل ڈر رہا تھا کہ فیصل آباد سے پہنچتے پہنچتے بہت دیر نہ ہو جائے۔ انہوں نے اکمل بھائی سے کہا۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ لوگ صبح روانہ ہوں۔ اب تو کافی رات ہوچکی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی۔ دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ وہاں سب لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ دلہن کو دعائوں میں رخصت کر دیجئے۔ ہم آپ سے فون کے ذریعے رابطے میں رہیں گے۔ آپ سلطانہ کو رہنے دیجئے، ہم کل صبح اس کو اپنے ساتھ لے آئیں گے۔ صبح ہمیں دولہا والوں کے وہاں ناشتہ دینے جانا تھا۔ سو سارہ اور اکمل نے سلطانہ کو ہمارے پاس چھوڑ دیا۔ سردیوں کی رات تھی۔ سلطانہ کو بھی نیند آ رہی تھی، وہ بخوشی میرے پاس ٹھہر گئی۔

دولہا دلہن والی گاڑی خود اکمل بھائی چلا رہے تھے۔ سارہ بھی اسی کار میں تھی اور مسلسل ہم سے رابطے میں تھی۔ اچانک اکمل کو نیند کا جھونکا آیا اور کار ایک ٹرک سے جا ٹکرائی۔ فون پر گاڑی کے ٹکرانے کی آواز اور اپنی بہن کی چیخ خود رفیع نے سنی۔ وہ ایک لمحہ توقف کئے بغیر کار نکال گھر سے نکل پڑے۔ حادثے کی جگہ پہنچے تو قیامت کا منظر تھا۔ اس کار میں چار ہی افراد تھے اور چاروں پر لوگوں نے چادریں ڈال دی تھیں۔ اس رات کوئی فون مجھے نہ آیا۔

 رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ سمجھ گئی کہ کچھ ایسی بات ہو گئی ہے جو رفیع فون نہیں کر رہے ہیں۔ صبح کے دس بجے گھنٹی بجی۔ رفیع کا فون تھا۔ دوڑ کر ریسیور اٹھا لیا۔ مدھم آواز میں بولے۔ تیاری رکھو، مہمان واپس آ رہے ہیں اور یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ ان کے کچھ آرم بھی نہ بتانے سے میں سمجھ گئی کہ حادثے میں شاید کچھ نہیں بچا ہے، تبھی انہوں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ پولیس اسپتال اور تمام ضروری کارروائیوں سے گزرنے کے بعد وہ تقریباً دو بجے دوپہر لوٹے۔ ایمبولینس ساتھ تھی جن میں ایک دو نہیں، اپنے پیاروں کے چار جسد خاکی تھے، جو حادثے کی بدولت خوشبوئوں اور پھولوں سے مہکتے، بنے سنورے ہونے کے باوجود لہو کے دریا میں بہہ گئے تھے۔ حتیٰ کہ دولہا دولہن پر بھی موت نے رحم نہ کیا تھا۔ عروسی لباسوں میں ان کو کفن کی سفید بے رونق چادروں میں لپٹا اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ آه وه ،وقت وہ منظر وہ احساس اس دکھ کو پھر سے دہرانا نہیں چاہتی۔

 اس کی حالت کا بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اکمل اپنے دولہا بنے ہوئے بھائی کے ساتھ گئے اور میری بہن سہاگ چوڑیاں پہنے ہی اپنے سہاگ کے ہمراہ ملک عدم کو چلی گئی۔ رفیع کے دل پر بھی قیامت گزر رہی تھی۔ ان کی لاڈلی، اکلوتی اور بہت ہی پیاری بہن بھی تو اسی اُڑن کھٹولے میں سوار تھی کہ جس میں باقی تینوں کو اجل نے سوار کرایا تھا۔سلطانہ کو لپٹائے،

صدمے اپنی عروس نادره کا بین کر رہی تھی اور رفیع اپنی بہن کے ساتھ اس کے سہاگ کا بھی نوحہ پڑھنے پر مجبور تھے ۔ دعا کرتی ہوں کہ خدا ایسا وقت کسی پر نہ لائے۔ بہن کو شادی راس نہ آئی اور یہ خوشی ہم کو نراس کرگئی۔ جب میں نے گیٹ پر کھڑے ہو کر ایمبولینس پر حیرت سے نظر ڈال کر پوچھا تھا۔ یہ کون ہیں؟ تو وہ بولے تھے۔ جیا، دھیرج رکھو، یہ سب ہمارے اپنے ہیں۔ جب انہوں نے نادرہ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تھا تو میں خود کو سنبھال نہ سکی تھی اور بے ہوش ہوگئی تھی اور سلطانہ بچاری جس کو کسی بات کا علم نہ تھا اور میرے سہارے کھڑی تھی، وہ بھی میرے ساتھ ہی گر پڑی تھی۔یہ قیامت بھی گزر گئی۔

 وقت نے رفتہ رفتہ ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں پھر سے کھڑا کردیا۔ وقت جب کسی کو گرا ہوا دیکھتا ہے تو اسی طرح جینے کا فرض نبھانے کو سہارا بھی دے دیا کرتا ہے۔ سلطانہ تو بچی تھی جو مانگتی مل جاتا۔ اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے، لهذا وه والدین کی کمی کو محسوس نہ کرتی تھی۔ میں ہی اس کی ماں تھی اور رفیع نے ماں باپ کا خلا بھر دیا تھا۔ اس کا جی حامد اور ماجد کے ساتھ بہل گیا۔ وہ سمجھدار تھے۔ سلطانہ ان سے کم عمر تھی۔ وہ اس کی خوشی کا خیال کرتے تھے۔ سبھی اکٹھے اسکول جاتے اور ساتھ بازار شاپنگ کرنے کو

نکلتے تھے۔ گاڑی میں آپس میں چہلیں کرتے جاتے۔ وہ خوش رہتی۔ حامد شروع سے ہی لالچی تھا۔ وہ سلطانہ کے ساتھ صرف اس لئے کھیلتا کہ اس کے بدلے اس کی کوئی شے ہتھیا لے۔ وہ تو معصوم تھی، جو کہتا کرتی۔ اپنا جیب خرچ بھی اس کو دے دیا کرتی۔ جبکہ ماجد ایسا نہ تھا۔ وہ سلطانہ کا بے لوث ساتھی تھا اور بڑے بھائی کو منع کرتا تھا کہ تم سلطانہ کے ساتھ اس طرح مت پیش آیا کرو۔ اس وجہ سے حامد اور ماجد کی آپس میں آن بن رہنے تھی۔ میں جانتی تھی کہ حامد مطلبی ہے اور ماجد سلطانہ کا سچا دوست ہے مگر سلطانہ اس بات کو نہیں سمجھتی تھی۔ بڑا ہونے. ناتے وہ حامد سے مرعوب رہتی۔ اس کی ہر بات مانتی اور ماجد کو خاطر میں نہ لاتی۔ وہ جانتی تھی کہ حامد اپنے چھوٹے بھائی پر غالب ہے۔ اس کی چیزیں بھی چھین اور ماجد کچھ نہیں کرسکتا۔ بچپن دبے پائوں گزر گیا اور پھر تینوں کالج جانے لگے۔ ماجد کو وکیل بننے کا شوق تھا اور سلطانہ کہتی کہ میں ڈاکٹر بنوں گی۔

 حامد کو بیرون ملک جانے اور امیر لڑکیوں سے دوستی کا شوق تھا۔ اس کے خواب باقی دونوں بچوں سے الگ تھلگ اور مختلف تھے۔ جلد ہی اس کی سرگرمیاں باہر کی دنیا ، منسلک سے. ہوگئیں جبکہ سلطانہ اور ماجد ایک دوسرے کو سمجھنے لگے۔ ان کی دوستی گہری ہوگئی۔ اب وہ ماجد کو ہر بات بتاتی اور حامد کترانے لگی۔ تاہم اس نے ماجد کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ حامد سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرے گی کیونکہ اس کی مما کی یہی خواہش تھی۔ گریجویشن کے بعد حامد نے بیرون ملک جانے کی رٹ لگا دی جبکہ ماجد اور سلطانہ نے وکالت میں داخلہ لے لیا۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ماجد نے مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ سلطانہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اکمل آڑے آگئے۔ کہنے لگے۔ بچپن سے سلطانہ کو حامد کے نام کیا تھا۔

 اب سلطانہ سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتی ہے، پھر فیصلہ کریں گے۔ سلطانہ نے کہا کہ جیسا میری ماں چاہتی تھیں شادی کے لئے، میرے ذہن میں حامد ہی کا خیال رہتا تھا، اس لئے میں ماجد سے شادی کا نہیں سوچ سکتی۔ اس جواب پر ماجد کا دل ٹوٹ گیا اور اس نے خاموشی اختیار کرلی۔ ہم کو حامد کی طرف سے فکر لگی تھی کہ وہ دن رات دوستوں میں گم رہتا تھا جبکہ ماجد نے پریکٹس شروع کردی تھی۔ ہم نے سوچا اگر حامد اور سلطانہ کی منگنی کر دیں تو مدت بعد ہم کو ایک خوشی دیکھنی نصیب ہوگی۔ منگنی دن سلطانہ بہت خوش تھی مگر حامد نے مجھ سے کہا کہ وہ منگنی سے خوش نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ سلطانہ کو میرے پلے نہ باندھو۔ جب یہ بات ماجد نے سنی، اس نے منگنی رکوانے کی کوشش کی۔ مگر بھانجی کو خوش دیکھ کر رفیع نہ رکے، بولے۔ حامد ابھی کم سمجھ ہے، بعد میں سب صحیح ہو جائے گا۔

 ماجد منگنی کی تقریب میں شامل نہ ہوا اور کسی دوست کی بیماری کا بہانہ بنا کر گھر سے چلا گیا۔ کچھ دن گزرے حامد نے رٹ لگا دی کہ اس کو لندن جانا ہے، وہ وہاں پڑھنا چاہتا ہے۔ میں نے اور رفیع نے بہت سمجھایا۔ وہ نہ مانا۔ تب مجبور ہو کر بیٹے کی خوشی کی خاطر رفیع نے ایک شرط رکھ دی کہ تم اسی صورت باہر جاسکتے ہو اگر سلطانہ سے نکاح کر کے جائو ... تم کو یہ وعدہ بھی کرنا ہوگا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد لوٹ آئو گے اور وہاں کسی سے شادی کا بندھن نہ باندھو گے۔ وہ مان گیا۔ نکاح کا اہتمام ہونے لگا۔ سبھی خوش تھے سوائے ماجد کے۔ وہ اس بندھن کو

صحیح نہ کہتا تھا بلکہ زبردستی کا بندھن سمجھ رہا تھا ... مجھ سے کہا۔ ماں تیرا لالچی بیٹا بیرون ملک جانے کی خاطر سلطانہ سے نکاح کر رہا ہے، بعد میں دیکھ لینا یہ اس بندھن کی لاج کو خاک میں ملائے گا۔ بہتر ہے ابھی یہ بندھن نہ باندھو۔ میں نے کہا۔ بیٹا تمہارے والد میری نہیں سنیں گے۔ تم ان کو یہ بات کہہ دو۔ اس نے باپ کے سامنے جرأت نہ کی اور خاموش ہورہا مگر وہ بہت ناخوش تھا۔ جس روز سلطانہ اور حامد کا نکاح تھا، میرا چھوٹا بیٹا اپنے کمرے میں جاکر خوب رویا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم نکاح میں سلطانہ کو باندھ کر اس لڑکی کی زندگی تباہ کر رہے ہیں۔ عین نکاح کے دن حامد نے انکار کر دیا حالانکہ منگنی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد حامد بیرون ملک اور ماجد اسلام آباد چلا گیا۔ سلطانہ نے اس کو بہت روکا کہ یہاں ہی پریکٹس کرو اور اسلام آباد مت جائو

مگر وہ نہ مانا۔ سلطانہ تو حامد کے نکاح پر انکار سے ڈسٹرب تھی، اب ماجد کا سہارا چاہ رہی تھی مگر وہ کہنے لگا کہ بڑا وکیل بننا میرا خواب تھا۔

ملن تمہاری وجہ سے میں اپنا خواب نہیں چھوڑ سکتا۔ دراصل وہ اب سلطانہ کے سامنے نہ رہنا چاہتا تھا تاکہ فاصلے برقرار رہیں۔ سال بعد حامد ہم سے ، وطن آیا۔ دراصل تو وہ باپ سے پیسے لینے آیا تھا۔ شومئی قسمت انہی دنوں میرے خاوند کی مل میں آگ لگ گئی اور بہت خسارہ ہوا۔ وہ اس صدمے سے نیم جان تھے مگر حامد کو باپ کے دکھ کا کوئی احساس نہ تھا۔ وہ بدستور ایک بھاری رقم کا تقاضا کر رہا تھا۔ سلطانہ نے اپنے ماموں کے دکھ کو محسوس کرلیا اور اس نے رفیع کو مجبور کیا کہ وہ اس کے والدین کے چھوڑے ہوئے سرمایے میں سے رقم حامد کو دے دیں۔ جب میرے چھوٹے لڑکے کو پتا چلا، اس نے مخالفت کی کہا کہ وہ بھائی کو کسی بھی طرح کرکے مطلوبہ رقم دینے کو تیار ہے مگر سلطانہ کے حق میں سے بھائی کو کچھ نہ دیا جائے۔ یہ اس کے ساتھ دھوکا ہوگا۔ رفیع نے یہ فیصلہ کیا کہ حامد نکاح کرکے جائے تو رقم اس کو دے دی جائے

۔ اس پر حامد نے پھر انکار کر دیا۔ کہنے لگا کہ وہ سلطانہ سے محبت نہیں لئے رخصتی کے حق . فی الحال نہیں ہے۔ رقم اس کو ویسے ہی جائے۔ نکاح کے بارے تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد وہ فیصلہ کر پائے گا۔ ان باتوں سے اس کے عزائم عیاں تھے مگر سمجھ کر بھی میرے

شوہر خودفریبی کا شکار تھے۔ وہ بھانجی کو حامد سے شادی کے لئے خوش پا کر ہر حال سلطانہ کی شادی بڑے ہو کرنا چاہتے تھے۔ تاہم دونوں بھائی معاملے کو سمجھ رہے تھے کہا۔ بھائی اگر تم بیرون ملک رخصتی کرنے کے بعد چلے گئے اور پھر اس کو ساتھ نہ رکھا تو سلطانہ کا کیا بنے گا۔

وہ تو میں نہیں رکھوں گا۔ ابا جان کو سمجھانے کی کوشش تو کی ہے، نہیں

سمجھ رہے تو میں کیا کروں۔ وہ نہیں سمجھ رہے تو تم ہی صحیح رستہ چنو۔ اگر سلطانہ سے نباہ نہیں کرنا تو اس سے رقم بھی مت لو۔ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے تو میں اس کا دل کیسے توڑ دوں۔ اس نے خود ہی اپنا سارا زیور لا کر مجھے دے دیا ہے۔ میں نے اس سے کچھ بھی زبردستی نہیں لیا ـ ہے۔ بہرحال کسی کے سمجھانے سے کوئی سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ حامد کی

جس سے اس خواہش پوری ہوگئی۔ اس کو روپیہ مل گیا اور واپس برطانیہ چلا گیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس کو ایک امیر انگریز لڑکی مل گئی نے شادی کرلی۔ یہ خوشخبری اس نے فون پر مجھے دی مگر میرے پاس بیٹھی سلطانہ سے بات نہ کی جس پر وہ بہت زیادہ اداس ہو گئی۔ میں نے ماجد کو اسلام آباد فون کر کے بتایا کہ تمہارے بھائی نے انگلینڈ میں شادی کر لی ہے۔ تم بتائو میں کیا کروں... یہ بات سلطانہ کوکس طرح بتائوں؟

وہ یہ صدمہ نہ سہہ سکے گی۔ اس نے کہا کہ ابھی میں فوراً نہیں آسکتا۔ اپنی ایک وکیل کولیگ کو بھیجوں گا ، وہ سلطانہ کو سمجھا لے گی۔ اس وکیل خاتون کا نام عنبر تھا۔ اس نے لاہور آکر ہمارے گھر قیام کیا اور بڑے طریقے سے سلطانہ کو سمجھایا اور اس کو سنبھالا۔ یہ بھی بتایا کہ ماجد

تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ . وہ تمہارا سچا دوست ہے۔ تم اس بے وفا کا خیال چھوڑو۔ وہ تم سے ن شادی نہیں کرے گا، غم مت کرنا اور ماجد سے شادی کرلینا جو تمہارا سچا ساتھی ثابت ہوگا۔ وہ ترقی کرکے بڑا وکیل بن چکا ہے جبکہ حامد کسی عورت کی دولت کے رحم وکرم پر زندگی گزار رہا ہے۔ کچھ دن سلطانہ غمزدہ رہی۔ پھر میں نے اور رفیع نے بھی اس کو سمجھایا۔

اس کی انسیت ماجد کے ساتھ تھی۔ اس نے حقیقت کو سمجھا تو ماجد سے شادی کو قبول کرلیا۔ لیکن جب سے اسے علم ہوا تھا کہ حامد نے

میں انگلینڈ شادی کرلی ہے، وہ اندر سے ٹوٹ سی گئی تھی۔ انہی دنوں جب وہ تنہائی سے اکتا کر بیمار پڑگئی تھی، ماجد گھر آگیا۔ اس نے سلطانہ سے کہا۔ دیکھو کون ... تمہارا سچا دوست کیونکہ کچھ دنوں سے میرے دل میں الارم سا بج رہا تھا کہ تم بیمار پڑنے والی ہو۔ دل کو دل سـ سے راہ ہوتی ہے نا، تو دیکھو میں آیا ہے آگیا ہوں ... اب تم کو سیر کرانے لے جائوں گا، ہم خوب گھومیں پھریں گے تو تم ٹھیک ہو جائو گی... اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ماجد نے اس بار اس کو کافی توجہ اور وقت دیا۔ وہ پھر سے بولنے لگی۔ تب ایک دن رفیع نے بھانجی کو سمجھایا کہ بیٹی ہم تم کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتے۔ تمہاری ماں کی یہی خواہش تھی کہ تم ہماری بہو بنو، ہمارے ساتھ رہو ... حامد تمہارے لائق نہ تھا مگر ماجد بھی تو ہمارا بیٹا ہے۔ وہ اچھا لڑکا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے شادی کرلو۔ ماموں کی ساری باتیں سن کر اس نے کوئی جواب نہ دیا مگر اثبات میں سر ہلا دیا۔ شاید اس نے اپنے دل کو اس امر پر آماده کرلیا تها۔

 ان کی منگنی کو ایک ماہ ہوا تھا کہ سلطانہ نے ماجد سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اسلام آباد چھوڑ کر واپس لاہور آجائے اور اپنے شہر میں پریکٹس کرے۔ اس نے کہا کہ وہ اکیلی نہیں رہ سکتی اس کا جی گھبراتا ہے۔ ماجد نے اس کی خواہش کا احترام کیا اور لاہور لوٹ آیا۔ وہ اب اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا بھی احترام کرتا، اس کی ہر بات کا خیال رکهتا . سلطانہ کا جیسے دل کوئی نازک آبگینہ ہو۔ بچپن میں بھی جب حامد اس کے دل کو ٹھیس پہنچاتا، ماجد ہی اس کے آنسو پونچھتا تھا۔ منگنی کے سال بعد دونوں کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی اور میں نے

مناسب سمجھا کہ اس امر کی اطلاع بڑے بیٹے کو بھی دے دوں۔ وہ اب ایک بچی کا باپ بن چکا تھا۔ رفیع نے منع بھی کیا مگر میں نے حامد کو فون پر بتا ہی دیا کہ تمہارے بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔ شادی سے پندرہ روز پہلے اچانک حامد انگلینڈ سے آگیا۔ اس نے مجھ سے کہا۔ ماں انگریز بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی اور بیٹی بھی اس کے پاس ہے۔ اب بھی وقت ہے سلطانہ کی شادی روک دو۔ وہ میری منگیتر تھی، وہ مجھ سے محبت کرتی ہے، ماجد کو اور لڑکی مل جائے گی مگر سلطانہ کے دل میں میرے کھوجانے کی خلش ہمیشہ رہ جائے گی جو عمر بھر اس کو تنگ یہ شادی ہم زبردستی نہیں کر رہے۔ سلطانہ کی رضا لی ہے۔ اب ہم اس شادی کو نہیں روک سکتے۔ کسی لڑکی کا دل کھلونا نہیں ہوتا جس کو جب چاہے توڑ

 دیا جائے اور جب چاہو جوڑ کر پھر کھیلنے بیٹھ جائو۔ شادی ایک سنجیدہ وہ نہ مانا۔ کہنے لگا، مجھے خود اس سے معلوم کرلینے دو، اگر وہ انکار کردے تو میں رشتے سے ہٹ جائوں گا۔ اگر ابھی تک اس کے دل میں میرے لئے جگہ ہے تو میرے بھائی کو ہٹنا ہوگا۔ اکیلے میں حامد نے سلطانہ سے بات کی۔ اس نے کہا۔ ایک بار بات کی ہے، دوبارہ ایسی بات مجھ سے مت کرنا۔ میرے دل میں تو ماں کی خواہش کا

احترام تھا جس کو میں محبت کا نام دیتی رہی۔ خودفریبی تھی اس جذبے کو محبت سمجھتی رہی۔ اب میرے دل میں نہ تم کو کھونے کی پانے کی آرزو ہے۔ تم میری نظروں میں اب سے بڑے بھائی  محبت اور نہ ہوگئے مجھے اس پر لہذا اسی حیثیت سے ہماری شادی میں شامل ہوجائو ورنہ جہاں سے آئے تھے وہاں واپس لوٹ جائو اور پھر کبھی میری زندگی میں نہ آنا۔ ماجد مجھے . سے ہے کہ نہیں، یہ ایک الگ بات ہے مگر بھروسہ تو ہے کہ وہ میرا سچا اور مخلص دوست - دُکھ سکھ کا ساتھی ہے۔ مجھے اب بس ایک دکھ سکھ کا ساتھی ہی چاہئے جو عمر بھر کے لئے ہو۔ یہ کہہ کر سلطانہ رونے لگی۔ اتنا روئی کہ میں دہل گئی اور اس کو گلے لگا لیا۔ کہا، بیٹی اب بھی وقت ہے، تم پر کوئی زبردستی کوئی دبائو نہیں ہے،

بھی شادی نہ کرنا چاہو تو بھی تم کو اجازت ہے، انکار کرسکتی ہو۔ رفیع نـ معافی مانگی مگر سلطانہ نے اپنا فیصلہ نہ بدلا اور ماجد کو ہی اپنے لئے چن آج میری بیٹی سلطانہ ماجد کے ساتھ بہت خوش ہے اور حامد؟ وہ ادھر اُدھر لیا۔

مخلص ساتھی اسے ملے۔ بھٹکتا پھرتا ہے۔ دعا کرتی ہوں خدا اسے سکون دے اور زندگی کا اچھا اور ہے شک ناسمجھی میں ہم کبھی کسی کو صحیح پہچان نہیں پاتے ہیں اور جب کھو دیتے ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ ہم سے کتنی بڑی بھول ہوئی ہے۔ وقت گزر چکا ہوتا ہے اور جو دور چلا جاتا ہے، واپس نہیں آتا۔ ایسا ہی حامد کے ساتھ ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس کی امید نہ کرو، جس کو تم چاہتے ہو بلکہ اس کی قدر کرو جو تم کو چاہے۔


Post a Comment

0 Comments