Search Bar

Meri Kahani Khushiyoun Ki Shahrah Par Teen ortain teen kahinyan

 

Meri Kahani Khushiyoun Ki Shahrah Par Teen ortain teen kahinyan


میں نے میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ والد صاحب ریٹائرڈ ہو گئے، تاہم کسی قسم کی مالی پریشانی نہیں تھی۔ ان کا بزنس تھا، وہ کافی پیسے والے تھے، ریٹائرمنٹ بھی خود ہی لی تھی حالانکہ ملازمت اچھی تھی، انہوں نے یہ قدم اپنے دوست کے کہنے پر اٹھایا جس کا نام وحید تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ملازمت کی وجہ سے بزنس کو زیادہ توجہ نہیں دے پاتے ہو۔ یوں ابو نے اچھی بھلی سروس چهوڑ دی۔ والد صاحب ذبین تھے تاہم وحید صاحب ان کے حواس پر چھائے رہتے۔ وہ ہر کام ان کے مشورے سے کرتے۔ امی اعتراض کرتیں کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جو فیصلہ کرنا ہو اپنی عقل سے کیا کریں۔ والد صاحب کو اپنی اور وحید کی دوستی میں میری ماں کی یہ مداخلت سخت ناگوار گزرتی تھی۔ ان کو اس بات پر غصہ آجاتا، کہتے تم بس بیوی ہی رہو. میری کمانڈر مت بنو، اپنے کام سے کام رکھو ... تمہارا میرے دوست یا اس کی دوستی سے کیا لینا دینا ہے؟ اس بات پر امی ابو میں جھگڑا ہو جاتا تھا۔ تب گهر کی فضا مکدر ہو جاتی اور ہم بہن بھائی سہم جاتے، ہم جهگڑے سے بہت ڈرتے تھے۔ والدہ کا بھی قصور نہ تھا، دراصل والد کے اس غیر معمولی رویئے کا ذمہ دار ہم وحید کو ہی گردانتے تھے، جس پر میرے باپ جان چھڑکتے تھے، گویا ہمارے گھر میں ابو کے روپ میں وحید کی ہی حکمرانی تھی۔ یہ شخص میرے والد کے دل و دماغ پر اس طرح قابض تھا جیسے شہنشاه جہانگیر کے دل و ذہن پر ملکہ نور جہاں راج کرتی تھیں۔ تبھی اکثر ہمارے قریبی رشتہ دار بھی میرے باپ کو خبطی اور بے وقوف سمجھتے تھے لیکن وہ بے وقوف ہرگز نہ تھے۔ وہ بلا شبہ عقلمند تھے، اگر عقلمند نہ ہوتے تو ان کا کاروبار جو تھوڑے سے سرمایے سے شروع کیا تھا اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے دن دگنی رات چوگنی ترقی نہ کرتا۔ شاید وحید ہی والد کے کاروبار میں معاونت کرتے ہوں؟ کہ ان کو اپنی اتنی أعلى ملازمت کی بھی پروا نہ رہی اور اب وہ دولت میں کھیل رہے تھے۔ والده اگرچہ بے حد خوبصورت اور سگھڑ خاتون تھیں۔ لیکن میرے والد کی نظروں میں وہ ان کے بچوں کی ماں کے سوا کچھ نہ تھیں، جو ان کی اولاد کو پال پوس رہی تھیں اور ان کے گھر کو سنبھالتی تھیں۔ ماں جتنی شکل کی اچھی تھیں، اتنی ہی نیک اور شریف بھی تھیں مگر جیون ساتھی ان کی ذرا بھی پروا نہ کرتا، جیسے وہ ان کی شریک حیات نہ ہوں۔ امی ان سے ڈرتی تھیں اور ہم بھی بچپن سے سہمے رہتے تھے۔ کیونکہ وہ ایک غصیلے باپ تھے۔ جب ان کو غصہ آتا تو ہم کو اندها دهند پیٹنا شروع کر دیتے تو وہ یہ نہ دیکھتے کو کس کا قصور ہے، کس کا نہیں۔ پیار کرنے پر آتے تو بہت پیار کرتے، اتنا کہ ہم سمجھتے کہ ابو سے بڑھ کر کوئی اور شفیق انسان ہی نہیں۔ خدا جانے وہ کس قسم کے ذہنی انتشار کا شکار رہتے تھے یہ تو میں آج تک بھی نہیں سمجھ سکی۔ بس سمجھتی تھی تو اسی قدر کہ وحید کے روپ میں میرے والد نے گویا آستین کا سانپ پال رکھا ہے جو ان کی گھریلو خوشیوں کو ڈستا رہتا ہے۔ اسی شخص نے ان کو دختر زر کا عادی کیا اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ دونوں گھر پر بھی کمرہ بند کر کے گھنٹوں اس مشروب کو پینے سے باز نہ آئے۔ یہ بات امی کو ہی نہیں ہم سب ہی کو ناگوار گزرتی مگر کیا کرتے وہ بااختیار اور ہم ان کے محکوم و مجبور. میں امی کے آنسو پونچھ کر چپ کراتی اور تسلیاں دیتی کہ دعا کریں ہمارے والد راه راست پر آجائیں اور یہ منحوس شخص ان کی زندگی سے نکل جائے۔ جس نے کبھی برے وقت میں ابو کو قرض دے کر گویا اپنے اس احسان سے خرید لیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ شخص ان کی زندگی میں داخل ہوا کہ ہمارے گھریلو فيصلے بھی وہی کرنے لگا۔ ابو نے وحید کے کہنے سے ہی میری پڑھائی بھی ختم کروا دی تھی۔ بعد میں میری شادی بھی اسی کے کہنے پر والد صاحب نے اس کے ایک رشتہ دار سے کرا دی، حالانکہ جس شخص سے میری شادی ہوئی وہ ذرا بھی میرے جوڑ کا نہ تھا۔ وہ نہ تو خوش شکل تھا اور نہ ہی دولت مند، ستم بالائے ستم کہ پڑها لکھا بھی بس واجبی سا ہی تھا۔ اس کا نام معمار احسن تھا۔ یہ ایک لا ابالی سا انسان تھا، آرام طلب اور کام چور کوئی کام بھی دلجمعی سے نہیں کرتا تھا۔ خدا جانے وحید کو معمار احسن کے گھرانے سے کیسا لالچ تھا جو اس نے مجھ کو آگ میں جھونک دیا۔ امی میری معمار سے شادی پر قطعی راضی نہ تھیں، جب وہ لڑکے والوں کا گھر دیکھ کر آئیں تو بہت روئیں تھیں مگر والد نے زبردستی یہ رشتہ ان سے منوایا اور میری شادی معمار سے کرا دی۔ میرے دل میں بچپن سے جو نفرت کا پودا موجود تھا والد کے اس فیصلے پر وه ایک تناور درخت بن گیا۔ زبردستی کی شادی نے میرے مزاج کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ نکاح کے وقت تو میں مجبور تھی۔ ماں نے کہا خاندان کی لاج رکھنی ہے۔ تبھی میں نے زبان نہ کھولی لیکن شادی کے بعد دل میں بغاوت نے کچھ اس طرح سر اٹھایا کہ میں اس آگ سے اپنا دامن نہ بچا سکی۔ ایک تو اپنے اندر کا کہرام، او پر سے لوگوں کی طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں، کوئی کہتا، اس بیچاری کی قسمت پھوٹ گئی۔ ماں باپ نے بن دیکھے بھالے ایسے گھر بیاہ دیا کہ اب قسمت کو روئے گی، کوئی کہتا حور کے پہلو میں لنگور، خدا کی قدرت یہ تو اتنی خوبصورت اور معمار میاں یہ کہاں راج بھوج کہاں گنگوا تیلی مگر اس تیلی کی مراد بر آئی تھی، ان باتوں نے میرے اندر کے الائو کو اور دھکا دیا۔ خوبصورت ہونے کا جب لوگوں نے احساس دلایا تو روح میں اضطراب بهر گیا۔ شوہر کو خود کے لائق نہ سمجھتی تھی۔ معمار کو سامنے دیکھ کر بے حس ہو جاتی، ان کو میرے سرد رویے پر غصہ آتا۔ بات بات پر میرا شوہر مجھ کو مارنے کو دوڑتا، شور مچاتا، برتن پٹختا، لیکن شریف ماں کی خاطر سب کچھ سہتی کہ انہوں نے نصیحت کی تھی، بیٹی گھر اجاڑ کر مت آنا ورنہ مجھ کو بہت تکلیف ہو گی۔ گھر اجاڑنا نہیں چاہتی تھی مگر گھر بسائے رکھنے کی بھی ہمت نہ پاتی تھی۔ معمار کے گھریلو اور مالی حالات دونوں ہی ناسازگار تھے۔ اس پر وہ شدید احساس کمتری کا شکار تھا۔ بات بات پر لعن طعن کرتا اور میں اندر ہی اندر گھلتی رہتی۔ اس پر ستم یہ کہ معمار کی عادتیں عورتوں والی تھیں۔ ادھر کی بات ادھر لگانا، ایک بات کو ہزار بار دہرانا اور جگہ جگہ میری شکایتیں کرنا۔ معمار احسن کی عادتیں قطعی احسن نہ تھیں اور مجھ سے اس کی عادات بالکل مختلف تهیں۔ میرے میکے سے کوئی آجاتا میں گھر کی کوئی بات آن سے نہ کہتی، جهگڑا ہو رہا ہوتا میں پردہ ڈال دیتی، گھر کے تقدس اور احترام کو ہر صورت قائم رکھتی، مگر میرا شوہر انتہائی نجی اور ذاتی سوالات کو بھی بیچ چوراہے میں بیان کرتا رہتا۔ مجھ کو اس کی ان حرکتوں سے سخت کوفت ہوتی تھی۔ میری زندگی دن بدن تلخ ہوتی گئی اور والدین میری خوشی کی وجہ سے یہی سمجھتے رہے کہ میں اپنے گھر میں خوش ہوں۔ قصور تو میرا تھا کہ معمار کے پروپیگنڈے کی تردید نہ کرتی، سب مجھ کو اوچھا پن لگتا اور لوگ اس کی باتوں کا یقین کرلیتے۔ ان کے سب رشتہ داروں کے گھر قریب تھے۔ ایک ایک گھر جاکر کہتا میری بیوی کھانا نہیں پکاتی۔ حالانکہ سبزی، گوشت، سب سودا سلف لا کر دیتا ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہ کہتی۔ یہ کسی کو نہ بتاتی وه کچه لایا ہی نہیں تو کیا پکاتی۔ بس عزت کے خیال سے چپ رہتی اور لوگ کہتے، کیسی بری عورت ہے کہ شوہر کو کھانا پکا کر نہیں دیتی۔ بیچارا رشتہ داروں کے گھر کھانے کی خوشبو سونگھتا پھرتا ہے۔ ایسی بے شمار باتیں تھیں جو مجھ کو دلی صدمہ پہنچاتی تھیں۔ سسر کی پنشن سے گزر اوقات مشکل تھی۔ اور معمار چند دن ایک جگہ کام کر کے گھر بیٹھ جاتے پھر جب فاقے پڑنے لگتے تو کام ڈھونڈ کر نئے سرے سے نکلتے کبھی کام مل جاتا اور کبھی نہ ملتا، اگر کام پر لگ جاتے تو چند دنوں بعد بے چینی ان کو گھیر لیتی کہ نوکری، مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ سستی کرتے اور اکثر لیٹ ہوتے رہتے، کچھ عرصہ بعد کام پر جانا چھوڑ دیا اور گھر بیٹھ رہا تو گھریلو حالات مزید کشیدہ ہونے لگے۔ ان کے بڑے بھائی و بهاوج نے خرچے کے لئے رقم دینے سے صاف منع کر دیا۔ مجھ سے کہا کہ اب تم اپنے باپ سے بر ماه خرچہ کی مد میں کچھ رقم لایا کرو. میں نے سوچا کہ ایک بار باپ کے گھر سے رقم لائی تو پھر ہمیشہ لانی پڑے گی اور یہ تو بالکل دیوار سے ٹیک لگا لیں گے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں گے۔ میں نے معمار سے کہا کہ میں میکے سے رقم نہ لائوں گی ہاں تم کو اعتراض نہ ہو تو پڑھی لکھی ہوں خود کام ڈھونڈ لوں گی۔ جواب دیا تو پھر دیر کس بات کی۔ میری طرف سے اجازت ہے، آج ہی اپنی ملازمت کی تلاش میں نکل پڑو. ابو کے ملنے والوں میں سے ایک صاحب جن کو ہم امتیاز صاحب کہتے تھے، ان کی ایکسپورٹ فرم تھی، میں ان کے وہاں گئی، انہوں نے حوصلہ دیا کہا کہ تمہارے والد کے ہم پر بہت احسانات ہیں، سمجھو کہ یہ فرم تمہاری ہے۔ جب چاہو آجائو۔ اس طرح میں نے امتیاز صاحب کی فرم میں ملازمت کر لی۔ امتیاز صاحب مجھ سے عمر میں دگنے تھے، لیکن بہت سلجھے ہوئے انسان تھے۔ وہ مردانہ حسن کا نمونہ تھے۔ بااخلاق اور محنتی بھی تھے۔ میرا کام دیکھا تو متاثر ہو گئے۔ میں نے ان کو ایک ٹیکسٹائل ڈیزائن بنا کر دیا تھا۔ میرا بنایا ہوا نمونہ تو قبول ہو گیا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ ہمت افزائی کو مزید ڈیزائن بنانے کو دیئے۔ میرے گھریلو حالات سے بخوبی واقف تھے، میری شادی میں بھی آئے تھے۔ معمار اور ان کے گھر والوں کو بھی جانتے تھے، میری شادی کے موقع پر انہوں نے والد سے کہا بھی کہ تم نے لڑکی کو کہاں پھنسا دیا ہے، یہ لوگ اس لائق نہیں کہ ان سے ناتا جوڑا جاتا، خير نصیب کی بات ہے۔ امتياز صاحب نے مجھ کو معقول مشاہرے پر ملازمت دے دی۔ میں بہت خوش تھی، خوب محنت سے کام میں نام پیدا کیا۔ امتیاز صاحب بہت خوش ہو گئے۔ میں تو اتنی محنت اپنے گھر کے حالات سدھارنے پر کر رہی تھی۔ معلوم نہ تھا کہ امتیاز صاحب کے دل میں میرے لئے رفتہ رفتہ پسندیدگی کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ وہ میری تعریف کرتے، کہتے کہ تم میں بہت صلاحیت ہے لیکن تمہارا شوہر تمہاری قدر نہیں کرتا، وہ تم کو کیا سکھ دے گا جو کہیں

جم کر کام ہی نہیں کرنا چاہتا۔ غرض میں سمجھتی تھی کہ یہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کر کے دکھ بانٹتے ہیں۔ جب میں پہلی تنخواہ لے کر آئی تو ساس اور شوہر کو بیتابی سے تنخواہ کا منتظر پایا۔ انہوں نے مجھ کو سانس بھی نہ لینے دیا کہ جهٹ تنخواہ کا مطالبہ کر دیا۔ میں نے اپنی ساری تنخواہ شوہر کے ہاتھ پر رکھ دی۔ بس پھر کیا تها الله دے اور بندہ لے۔ میرے شریک زندگی نے اس دن کے بعد تو جیسے قسم کھا لی کہ اب کام عمر بھر نہیں کرنا ہے۔ کوثر کمائے گی اور ہم کھائیں گے۔ وہ مہینے بهر میری تنخواہ کا انتظار کرتا۔ اس انتظار میں گھر میں بستر میں پڑا رسالے پڑهتا رہتا۔ اس کا یہ حال دیکھ کر مجھ کو دکھ ہوتا تھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہتی تھی۔ ادهر امتياز صاحب کہ میرے دکھ سکھ میں دلچسپی لیتے، میری ہر بات کی خبر رکھتے تھے، چھٹی کے وقت گھر جانے کو اگر سواری نہ ملتی اور میں سڑک پر کھڑی ہوتی وہ اپنا ڈرائیور بھیج دیتے کہ جائو کوثر بی بی کو گھر چھوڑ آئو۔ ان کی عنایتیں اس قدر بڑھتی گئیں کہ بالآخر میں کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئی۔ اب امتیاز صاحب کی اس بات میں صداقت محسوس ہوتی کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔ مجھ کو اپنے نکھٹو اور خود غرض شوہر سے نفرت محسوس ہونے لگی جس کو سوائے تنخواہ کے میری کسی بات سے غرض نہ تھی۔ وہ یہ بھی نہ سوچنا چاہتا تھا کہ میں کس طرح اور کہاں سے اتنی رقم لے کر آتی ہوں۔ ایک بار سخت بیمار ہو گئی، علاج معالجہ کرانے کی بجائے ساس اور شوبرا کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں اس کی نوکری نہ چلی جائے۔ دراصل میں امید سے تھی اور میری طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ میرا بالکل جی نہ چاہتا تھا کہ کام پر جائوں جبکہ معمار چاہتا تھا کہ میں ماں بننے کے معاملے سے جان چھڑائوں تاکہ میری نوکری جاری رہے اور بچوں کی فکر سے آزاد رها کر کما سکوں۔ جب شوہر نے ایسا قدم اٹھانے کا کہا تو مجھ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ بیمار پڑ گئی۔ اس صدمے کی وجہ سے میرے ساتھ یہ حادثہ گزرا کہ ماں بننے کی سعادت سے محروم ہو گئی۔ اس رنج نے پھر گویا میرے دل و دماغ کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ سوچ لیا کہ اب ان لوگوں نے مجھ سے کسی بات پر جھگڑا کیا تو ان کا گھر چهوڑ دوں گی۔ ہوا بھی یہی کہ ایک روز جبکہ معمار نے بلا وجہ میری کسی چھوٹی سی بات پر بے عزتی کی تو میں ماں کے گھر چلی گئی اور ان سے اپنے سارے دکھ بیان کر ڈالے۔ جب ابو کے چہیتے دوست وحید صاحب کو علم ہوا جنہوں نے یہ شادی کروائی تھی تو وہ معاملے کے بیچ میں آگئے۔ ابو پر دبائو ڈالا، پھر معمار کے گھر جا کر اس کو اور میری ساس کو سمجھایا اور مارے باندهے مجهے گهر واپس بھیج دیا گیا۔ بادل ناخواستہ واپس معمار کے گھر لوٹ آئی، مگر پوری طرح میرا دل اور دماغ ان لوگوں سے باغی ہو چکا تھا۔ وہ پہلے جیسی میری صورت نہ رہی تھی، بد شکل ہو گئی۔ آئینے کے سامنے خود کو دیکھ کر پرے ہٹ جاتی۔ ذبن سلگ اٹھتا کہ چپ رہ کر اور میکے کی لاج نبهاتے نبهاتے یہ میں نے خود اپنے ساتھ کیا اندھیر کر ڈالا تھا۔ ان لوگوں کی خاطر کہ جن کو میرا رتی بھر احساس نہ تھا۔ وہ صورت جو لاکھوں میں ایک ہوا کرتی تھی اب ہونق اور اجڑی اجڑی ہو چکی تھی۔ میں نے اعزازی نمبروں سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ماسٹرز کیا تھا اور شوہر جاہل، آن پڑه ملا۔ یہی نہیں یہ خود غرض اور بے حس لوگ تھے، جن کو میری قدر نہ تھی۔ اوپر میں اپنے گھر کو قائم رکھنے کے تصور میں ہلکان ہوئی جاتی تھی۔ اب سوچ ستاتی کہ آخر کب تک ظلم کی چکی میں پستی رہوں گی۔ کیا یہی شوہر میری قسمت میں تھا۔ اب اگر میری تقدیر اچھی نہیں تو میں خود اپنی تقدیر اچھی بنائوں گی۔ یہی ٹھان لی۔ کہاں میں کہاں معمار؟ میں تو کسی محل میں میں راج کرنے کے لئے پیدا ہوئی تھی اور کس جا پڑی، سسک رہی ہوں۔ کیسے اچھے اچھے رشتے آئے تھے۔ کار کوٹھی سب نام کر دینے پر تیار تھے۔ خدا جانے وحید کے سر میں کیسا سودا سمایا مجھ کو بھانجے سے بیاہنے کو، والد صاحب کے سر ہو گیا اور میری قسمت پھوٹ گئی۔ ابو کی دوستی کے رشتے میں میں تو بے موت ماری گئی۔ جتنا سوچتی اتنا ہی دماغ خراب ہوتا تھا۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ اب سبھی سے حساب چکتا کر کے دم لوں گی۔ مجھ کو اب کسی کی پروا نہ رہی۔ کہتے گھر واپس چلی جائو تو میں سوچتی کبھی نہ جائوں گی۔ اگر یہ زیاده مجبور کریں گے تو کسی ویمن ہوسٹل میں جا رہوں گی۔ اب میں مالی طور پر کسی کی محتاج نہ تھی۔ جب امتیاز صاحب کو علم ہوا کہ میں نے معمار کا گھر چھوڑ دیا ہے تو وہ سوچ میں پڑ گئے، وہ جو والد صاحب کے بارے میں کہتے تھے کہ نجانے کیا سوچ کر کے کی چونچ میں انار کی کلی دے دی، وہی اب سب سے زیاده میرے بارے میں متفکر تھے۔ میرے ساتھ اور بہت سی لڑکیاں کام کرتی تھیں۔ امتياز صاحب فرم کے مالک تھے۔ وہ ان کو دیکھ کر سہم جاتی تھیں۔ جبکہ میں بے دھڑک ان کے آفس میں جا بیٹھی تھی۔ اور اپنے مسئلے ان سے بیان کرتی تھی۔ اس کی گاڑی مجھے گھر تک چھوڑنے جاتی تھی۔ ملازم لڑکیاں مجھ کو دیکھ کر رشک کرتی تھیں۔ وہ مجھ سے سخت مرعوب رہتی تھیں۔ کوئی بات مالک سے کہنی ہوتی میری منت کرتی تھیں کہ تم کہہ دو، ہماری سفارش کر دو۔ ہمیں تو ان سے ڈر لگتا ہے۔ ایک روز امتیاز صاحب نے مجھ سے کہا۔ کوثر میں تمہارے لئے بہت پریشان ہوں، تم آخر کار تمام زندگی تنہا کیونکر گزارو گی؟ جب تک میں زندہ ہوں اور اس فرم کا مالک ہوں تم کو تحفظ دے سکتا ہوں، لیکن میرے بعد تمہارا کیا ہو گا؟ میرے بعد خدا جانے میرا بیٹا اس کاروبار کا کیا کرے گا، وہ اس کو سنبهال پائے گا بھی یا نہیں؟ اس روز مجھے علم ہوا کہ ان کا کوئی بیٹا بھی ہے جو بیرون ملک میں ہے۔ امتیاز صاحب نے اس کو پڑھنے کے لئے امریکہ بھیجا تھا مگر وہ بعد میں وہیں کا ہو رہا۔ آپ کا بیٹا کبھی آتا نہیں ہے، آپ سے ملنے؟ وہ نہیں آتا۔ میں ہی وہاں جا کر اس سے مل آتا ہوں۔ میں تو شاہد کے بارے میں بھی اتنا ہی فکرمند ہوں کہ جس قدر تمہارے بارے... آپ ان کے بارے میں کیوں فکرمند ہیں۔ وہ پاکستان آنا نہیں چاہتا اور میں امریکا جا کر بسنا نہیں چاہتا۔ ایک بیٹی ہے وہ بھی بیرون ملک ہے۔ اور میرے بچوں کی ماں کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بیس برس گزر چکے ہیں۔ اکیلے رہنے سے جی مانده رہتا ہے۔ بیٹی کی شادی کر دینے کے بعد چاہتا تھا کہ بیٹے کی بھی شادی کر دوں تاکہ بہو گھر میں آئے۔ پوتیوں سے رونق ہو، ایک بار میرا مرجهایا دل پھر سے جی اٹھے۔ مگر افسوس شابد نہ مانا اور اس نے امریکہ میں شادی کر لی۔ امتیاز صاحب اس قدر دکھی دکھائی دے رہے تھے کہ میں نے جانا وہ واقعی مجھ سے بھی زیاده ویران دل ہیں۔ میں تو طفل مکتب تھی یعنی ان کے سامنے میں بھلا ان کو کیا تسلی دیتی، بس چپ بیٹھی سنا کی۔ کچھ دیر خاموش رہی، پھر وہ جیسے اپنے خیالوں سے جاگ پڑے ہوں۔ بولے۔ میں بھی تم سے کیا باتیں کر بیٹھا ہوں۔ تم تو خود پریشان ہو میرا کیا ہے۔ زندگی کا آخری پہر ہے۔ چلو سب کچھ تقدیر پر اور اپنے رب پر چھوڑتے ہیں۔ تم میرے لئے دعا کیا کرو اور میں تمہارے لئے دعا کروں گا۔ ضرور ہم میں سے کسی ایک کی دعا تو قبول ہو ہی جائے گی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک روز جب میں آفس گئی انہوں نے مجھے بلایا۔ وہ بہت خوش نظر آرہے تھے، کہنے لگے، آج ایک بڑی خوشخبری ہے، شاہد کل پاکستان آرہا ہے۔ کیا تم تهوڑا سا وقت مجھے دے سکو گی؟ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی نگرانی میں اس کے لئے خانساماں سے کھانا بنوائو اور ہم دونوں مل کر اس کا استقبال کریں۔ میں نے کہا کیوں نہیں امتیاز صاحب میں ضرور آپ کی خاطر، یہ سب ذمہ داریاں نبھائوں گی۔ اگلی صبح میں آفس پہنچی تو ان کا ڈرائیور میرا منتظر تھا۔ وہ مجھے ان کی رہائش گاہ لے گیا۔ میں نے ان کے گھر کی سجاوٹ میں مدد دی۔ شاہد کے کمرے کو جیسا انہوں نے کہا سجایا اور کچن میں خانساماں کے ساته وه کھانے تیار کروائے جن کی ہدایت میرے باس نے کی تھی۔ وہ خود بیٹے کو لینے ایئر پورٹ چلے گئے۔ فلائٹ آدھی رات کو ہی آگئی تھی لیکن ان کا سپوت باپ کے گھر آنے کی بجائے اپنے ایک دوست کے ہمراہ اس کے گھر چلا گیا تھا اور جب شاہد نے امتیاز صاحب کو فون کیا تو وہ اس کو لینے گئے۔ شاید نہایت خوبصورت نوجوان تھا۔ میں اس کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ خیال تھا کہ اپنی فرنگن بیوی کے ہمراہ ہو گا مگر وہ اکیلا ہی آیا تھا اور کوئی دوسرا بشر اس کے ہمراہ نہ تھا۔ پتا چلا کہ امریکن بیوی نے طلاق حاصل کر لی تھی... لہذا اب موصوف، وہاں اکیلے رہتے ہیں۔ بہرحال امتیاز صاحب نے میرا تعارف کروایا۔ شاید مجھ سے اچھی طرح اور اخلاق سے ملا اور جب انہوں نے کھانا کھا لیا تو میں نے رخصت چاہی، ان کے ڈرائیور نے مجھے گھر پہنچا دیا۔ اگلے روز اتوار تھا۔ گیارہ بجے امتیاز صاحب ہمارے گھر ابو سے ملنے آئے۔ شاہد ہمراہ تھا۔ انہوں نے والد صاحب سے کچھ باتیں کیں اور ان کے جانے کے بعد میرے والد نے جو بات کہی، میں سن کر میں حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا۔ بیٹی میں نے وحید کے کہنے میں آکر تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔ معمار واقعی ہمارے قابل نہیں تھا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم اس سے خلع حاصل کر لو، اگر تم اس امر پر راضی ہو تو میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ مجھے اب تمہارے مستقبل کی فکر نہیں ہے کیونکہ امتیاز اپنے بیٹے شاہد کے لئے تمہارا رشتہ لینا چاہتا ہے۔ ان کے بیٹے نے تم کو شاید ان کے آفس میں دیکھا ہو گا اور پسند کر لیا ہے۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ اپنے مستقبل اور زندگی کا جو فیصلہ چاہو کرو۔ اس بار میں ہرگز تم پر اپنی مرضی نہیں تھوپوں گا۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوبی اپنے والد کی باتیں سنتی رہی۔ واہ ری قسمت جب پلٹتی ہے تو بھی انسان کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ میں نے امی کو بتا دیا ہے کہ والد اس بار بھی جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہے، مگر میں معمار کے گھر ہرگز دوباره جانا نہیں چاہتی۔ مجھے اس شخص سے نجات ہی چاہئے۔ یوں قسمت کا پانسا پلٹا اور میری شادی شاہد سے تقدیر میں لکھی گئی تھی سو ہوگئی۔ حالانکہ میں نے شاہد کو کبھی دیکھا تھا اور نہ تصور میں ایسا کچھ سوچا بھی تھا کہ معمار سے خلع لوں گی اور شاہد سے شادی ہو گی۔ اس کے بعد ایک خوشیوں بھری پرسکون اور بھرپور زندگی میری منتظر ہو گی۔ آ۔ میں خوش و خرم شاہد کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہوں۔ امتیاز انکل اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کو دعائیں دیتی ہوں۔

 

Post a Comment

0 Comments