Search Bar

Un Say Roshan Chirag e Zindagi Teen Ortain teen Kahniyan

 

Un Say Roshan Chirag e Zindagi  Teen Ortain teen Kahniyan


میرے والد بہت محبت کرنے والے اور شفیق باپ تھے۔ وہ ہمارا بڑا خیال رکھتے تھے۔ یوں تو ان میں ساری خوبیاں موجود تھیں مگر ایک بری عادت ان کی بدنصیبی بن گئی اور پھر اس بدنصیبی کے اندھیرے نے آگے چل کر ہم سب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابو جان کو خوشحالی کے زمانے میں نشے کی عادت ہوگئی۔ کچھ اوباش قسم کے دوستوں نے انہیں غلط راستوں پر لگایا۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے، | وہاں پہلے ان کی بڑی عزت تھی۔ پھر جب وہ رات گئے نشے میں دھت ہوکر گهر آنے لگے تو محلے پڑوس میں بھی خبر ہوگئی کہ ممتاز صاحب کس قسم کی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے لگے ہیں۔ وہ اب زیادہ تر آدھی رات کے بعد گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ دیر سے آتے تو صبح دیر تک سوتے رہتے اور کام پر نہ جاسکتے تھے۔ اس طرح ان کے کاروبار کو بھی گھن لگنا شروع ہوگیا۔ ہوتے ہوتے کاروبار بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ میری والدہ صاحبہ کو یہ غم دیمک کی طرح چاٹ گیا اور آخرکار ایک روز وہ اس غم میں سلگ سلگ کر الله کو پیاری ہوگئیں۔ مشکل وقت میں کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ہم پر بھی مشکل وقت آن پڑا تھا شاید امی کے نصیب کی وجہ سے خوشحالی تھی۔ ان کے فوت ہونے کے بعد غربت نے ہمارا گھر دیکھ لیا تھا۔ ہمارا کوئی بھائی بھی نہ تھا۔ ہم صرف تین بہنیں تھیں اور ابو جان کو یہ محرومی بھی تھی کہ ان کی کوئی اولاد نرینہ بھی نہیں ہے۔ جب امی فوت ہوئیں تو ابو جوان تھے۔ ان کی عمر ایسی تھی کہ چاہتے تو شادی کرسکتے تھے مگر انہوں نے دوسری شادی نہ کی۔ ایک تو ہماری مالی حالت خراب ہوچکی تھی، دوسری وجہ یہ تھی کہ انہیں ہم تینوں بہنوں سے بڑی محبت تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سوتیلی ماں ہمیں آکر اپنے ستم کا نشانہ بنائے۔ ان دنوں میری عمر چودہ سال ہوگی۔ میں میٹرک میں پڑھ رہی تھی۔ کوثر مجھ سے دو سال چھوٹی تھی اور کلثوم یعنی سب سے چھوٹی بہن ابھی صرف دس سال کی تھی۔ مجھ پر بڑی ذمہ داری آن پڑی۔ گھر کا کام کاج اور پهر ابو کی دلجوئی۔ کیونکہ وہ بہت پریشان رہنے لگے تھے۔ ہماری بھی انہیں فکر تھی اور کاروباری پریشانی نے بھی انہیں گھیر لیا تھا۔ امی کی وفات کا صدمہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ ان کا گھر اجڑ کر رہ گیا تھا اوپر سے برے دوستوں نے جو لتیں انہیں چمٹا دی تھیں، وہ بھی ان کا خون چوس رہی تھیں۔ شام ہوتی تو انہیں چکر سے آنے لگتے، نشہ نہ ملتا تو ہر ایک سے لڑتے اور الجھتے۔ محلے والوں کی نظر میں ان کی عزت اور وقار ختم ہوچکا تھا۔ محلے دار کہتے تھے کہ اس شخص کے گھر میں بن ماں کی بچیاں ہیں، اس کو اب اپنا کردار صحيح کرلینا چاہئے۔ محلے والوں کا اعتراض بھی درست تھا۔ اس اعتراض میں جو صاحب پیش پیش تھے، ان کا نام مجید احمد تھا۔ مجید صاحب پہلے کبھی اچھے دنوں میں میرے ابو کے دوست ہوا کرتے تھے لیکن جب میرے والد برے راستوں کے مسافر ہوگئے تو وہ ان سے کھنچ گئے۔ دو چار بار ابا جان کو سمجھایا مگر ابا جان کو تو دولت کا نشہ تھا، تب وہ کسی کی نہ سنتے تھے۔ الٹا مجید صاحب سے الجھ پڑے۔ کہہ دیا کہ میں اچھا برا خوب سمجھتا ہوں، مجھ کو نصیحتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئندہ مجھ کو اس بارے میں کچھ مت کہنا۔ اس تلخ کلامی کے بعد مجید صاحب نے اباجان سے قطع تعلق کرلیا۔ آب محلے بھر میں جو مخالف گروپ ابا جان کے خلاف صف آرا تھے۔ مجید صاحب اس گروپ کے سرکرده لیڈر بنے ہوئے تھے۔ وہی اپنے گھر میں محلے والوں کو اکٹھا کرکے کہتے کہ وقار صاحب کو اب اس محلے سے نکالنا چاہئے، کیونکہ ان کا اخلاق خراب ہے، جس سے محلے پر برا اثر پڑتا | ہے۔ ہم اگر کرایے کے مکان میں رہ رہے ہوتے تو یقینا اس روز کی جھک جهک، بک بک سے مکان بدل لیتے لیکن ہمارا گھر ذاتی تها، بم کیسے اس کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے۔ ابا جان نے یہ مکان اچھے دنوں میں بہت شوق اور لگن سے بنوایا تھا۔ انہی دنوں جب ابا جان کے خلاف سارا محلہ متحد ہوگیا تو وہ بیمار ہوگئے۔ ان کے پھیپھڑوں پر نشے نے برا اثر ڈالا تھا۔ انہیں اسپتال میں داخل کرایا مگر ان کے پھیپھڑے ختم ہوچکے تھے۔ وہ جانبر نہ ہوسکے اور امی کے انتقال کے پانچویں سال وہ بھی ہمیں اس دنیا میں ٹھوکریں کھانے کو تنہا چھوڑ گئے۔ میں بی اے پاس کرچکی تھی، کوثر ایف اے کے دوسرے سال میں تھی اور كلثوم میٹرک میں۔ ہم تینوں بہنیں تنہا رہ گئیں۔ امی جان فوت ہوئیں تو باپ کا آسرا تو تھا۔ اب ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سر پر چھت بھی باقی نہ رہی ہو۔ کچھ دن تو ہم رونے دھونے میں مشغول رہے مگر کب تک... جبکہ روزمره کا خرچا گھر میں موجود نہ تھا۔ ہم زیادہ دیر تک سوگ کیسے مناتے۔ دال، روٹی کی فکر تھی۔ ابا جان نے صرف ایک مکان ہی چهوڑا تها جس میں ہم ره رہے تھے۔ باقی جو کچھ تھا، وہ رفتہ رفتہ بکتا گیا اور آخر میں کچھ بھی باقی نہ بچا تو ابا جان بھی ہم سے منہ موڑ کر چلتے بنے۔ اب سب سے بڑا مسئلہ میرے لئے نوکری کی تلاش تھا، کیونکہ اب میں ہی اپنے کنبے کی سربراہ تھی۔ صبح سویرے ڈگریوں والا لفافہ باتھ میں مضبوطی سے پکڑ کر گھر سے نکلتی۔ دفتروں کی خاک چھان کر دوپہر کے بعد منہ لٹکا کر گھر واپس آجاتی۔ کوئی جان پہچان تھی نہ سفارش اور اس کے بنا نوکری نہیں مل سکتی تھی۔ ادھر گھر میں یہ حال تھا کہ ایک وقت کا چولہا جلانا بھی محال تھا۔ کچھ دن تو دور نزدیک کے رشتے داروں نے ساتھ دیا، پھر انہوں نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔ ایک روز میں ڈگریوں والا لفافہ ہاتھ میں لئے مایوس اور تھکے ہوئے قدموں سے گھر لوٹ رہی تھی کہ محلے کے ایک اوباش نوجوان نے مجھ پر فقرے کسے۔ میں نے اس کی جانب دیکھا بھی نہیں کہ برے آدمی کے منہ کیا لگنا، البتہ اس روز میرا کلیجہ کٹ گیا۔ بھوک سے پیٹ میں ویسے ہی مروڑ اٹھ رہے تھے۔ اس بے ہودہ شخص کے الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہنے لگے اور میں روتی ہوئی گھر آگئی۔ کوثر نے پہلا سوال یہی کیا۔ باجی! نوکری مل گئی؟ اس نے میرے چہرے کی طرف بعد میں دیکھا جو آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔ تب بجائے تسلی دینے کے وہ بھی رونے لگی۔ اس کو روتا دیکھ کر کلثوم نے بھی رونا شروع کردیا۔ اگلے دن پھر وہ نوجوان مجھ کو راستے میں ملا۔ آج اس نے پھر بے ہودگی کی۔ میں برداشت نہ کرسکی اور اس سے الجھ پڑی۔ ابھی میں اس غنڈے کو برا بھلا کہہ رہی تھی کہ میں نے سامنے سے مجید صاحب کو آتے دیکھا۔ انہوں نے بھی اس غنڈے کی حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ قریب آئے تو دیکھا میں رو رہی ہوں۔ مجھ کو روتا دیکھ کر ان کو بہت دکھ ہوا۔ اس نوجوان کو انہوں نے برا بھلا کہہ کر بھگا دیا کہ آئندہ میں نے تم کو محلے کی شریف بچیوں کو تنگ کرتے دیکھا یا انہوں نے تمہاری شکایت کی تو میں پولیس کے حوالے کردوں گا۔ چونکہ اس غنڈے لڑکے شہزاد کی انہوں نے کافی بے عزتی کی تھی اس لئے اب وہ ہمارا دشمن ہوگیا۔ وہ روزانہ دوچار اپنے جیسے بدمعاش لے کر ہماری گلی میں آجاتا۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ ہم بہنیں تنہا گھر میں رہتی ہیں اور تینوں کو گھر سے باہر جانا ہوتا ہے۔ مجھے ملازمت کی تلاش میں، کوثر اور کلثوم کو حصول تعلیم کی خاطر. شہزاد اور اس کے دوستوں نے ہمارے گھر سے نکلنے کے اوقات نوٹ کرلئے تھے۔ باقاعده یہ اب ہمارا پیچھا کرتے اور ہمارے گھر میں پتھر پھینک کر ہمیں ہراساں کرتے۔ اس صورتحال کو ہم کہاں تک برداشت کرتے۔ آخرکار میں نے جاکر اپنے پڑوس میں شکایت کی۔ ہمارے پڑوس میں خواجہ صاحب رہتے تھے۔ ان کی بیوی کبھی کبھار ہماری خبر گیری کرلیا کرتی تھیں۔ خواجہ صاحب نے مجید صاحب کو بلا کر حالات سے آگاہ کیا۔ اگلے روز دروازے پر دستک ہوئی۔ جمعہ کا روز تھا، ہم گھر پر تھے۔ دیکها مجید صاحب آئے ہیں۔ میں نے کہا۔ اندر آجایئے چچا جان...! وه اندر آگئے۔ ہمارا حال احوال دریافت کیا تو ہم اپنے آنسو ضبط نہ کرسکیں۔ ان کو دلی قلق ہوا۔ وہ بولے۔ بٹیا! الله کی مرضی جو ہوا، یہی تم لوگوں کی تقدیر میں تھا۔ تمہارے والد صاحب سے بے شک میرے مراسم بعد میں قائم نہ رہ سکے لیکن ایک وقت میں وہ میرے بہت اچھے دوست بھی تھے۔ تم میرے مرحوم دوست کی بچیاں ہو اور دراصل تم ان کی نہیں، اب میری بیٹیاں ہو۔ مجھ کو اپنا باپ سمجهو. جو تکلیف ہو، بلا تکلف بلا جھجک مجھ کو کہہ دیا کرو۔ میں خود بھی تمہارا حال احوال معلوم کرنے آجایا کروں گا۔ انہوں نے ہمیں کچھ رقم بھی دی کہ یہ تمہارے والد صاحب نے مجھے قرض دیا تھا، وہ لوٹا رہا ہوں۔ میں سمجھ گئی کہ وہ ہماری امداد کرنا چاہتے ہیں۔ والد صاحب نے قرضہ دیا ہوتا تو برے دنوں میں ضرور واپس لے لیا ہوتا۔ ہم کو بھی سخت ضرورت تھی۔ ہم نے رقم رکھ لی۔ اس دن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے ابو مجید چچا کے روپ میں پھر سے زندہ ہوکر آگئے ہوں اور اب ہم بے آسرا نہیں ہیں۔ اب مجید چچا روز صبح و شام ہمارے گھر آنے لگے۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھتے، ہماری ضرورتیں دریافت کرتے۔ میری نوکری کے لئے انہوں نے خود ہی تگ و دو شروع کردی۔ صبح ان کی گاڑی کوثر اور کلثوم کو کالج چھوڑنے جاتی اور چھٹی کے وقت وہ انہی کی گاڑی میں گھر آتیں۔ یہ اس لئے کہ محلے کے نوجوان اکیلی لڑکیاں سمجھ کر انہیں تنگ نہ کریں۔ کچھ دنوں تو امن رہا۔ پھر محلے میں کچھ اور قسم کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ لوگوں نے انکل مجید کی ہمدردیوں کو غلط رنگ دینا شروع کردیا۔ اب انہوں نے آپس میں میٹنگز شروع کردیں کہ مجید صاحب کو روکنا چاہئے کہ لڑکیاں اکیلی رہتی ہیں۔ اس کا ان یتیم بچیوں سے اس قدر التفات ٹھیک نہیں، زمانہ خراب ہے۔ ان دنوں ایک بار کوثر کی رات کو اچانک طبیعت خراب ہوگئی تو مجيد انکل ہی اس کو اسپتال لے گئے۔ میں بھی گئی۔ ایک بار ان کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھا کر گئی۔ وہ مجھے ملازمت کے لئے کئی جگہوں پر انٹرویو کے لئے لے جاتے رہے۔ ان کا رویہ ہم تینوں بہنوں کے ساتھ بالکل ایسا ہی تھا جیسا ایک سگے باپ کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر محلے والے نجانے کیوں اس بات کو غلط رنگ دے رہے تھے۔ دراصل اس مہم کو تیز کرنے میں کچھ ان غنڈوں کا بھی ہاتھ تھا جو ہمیں پہلے لاوارث سمجھ کر چھیڑا کرتے تھے۔ مجید انکل سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے کسی کی پروا نہ کی کیونکہ ان کی نیت صالح اور عمل نیک تھا۔ نہ انہوں نے اپنی صفائی دینے کی ضرورت سمجھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب لوگ کھلم کھلا ہم تینوں بہنوں اور مجيد انکل کے خلاف ہوگئے۔ ہم پر نہایت گھٹیا اور گرے ہوئے الزامات لگا دیئے اور ایک دن سارے محلے دار اکٹھے ہوکر مجید صاحب کے گھر کے دروازے پر جمع ہوگئے۔ انہوں نے کہا۔ ان لڑکیوں کو محلے سے باہر کرو یا خود یہ محلہ چھوڑ دو۔ آخر کیوں تم کو ہی ان نوجوان بچیوں کے مسائل سے اس قدر دلچسپی ہے؟ محلے میں اور بھی تو لوگ رہتے ہیں۔ غرض ایسا شور ہوا جیسے جلسہ ہورہا ہو۔ مجید انکل کو انہوں نے ایسی باتیں کہیں کہ انہوں نے اپنی بے حد سبکی محسوس کی۔ آخرکار مجید انکل کو کہنا پڑا۔ اگر میں انہیں اپنے مرحوم دوست کی بچیاں سمجھ کر ان کی دست گیری کررہا ہوں تو آپ لوگوں کو کیا اعتراض ہے؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی اچھا انسان ان کی مدد نہ کرے تاکہ یہ غلط لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر برائی کے راستے پر چلیں؟ کسی پر بہتان لگانا گناه ہے اور آپ ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مگر محلے والوں کی سمجھ میں یہ بات کسی طرح نہ آتی تھی کہ وہ شخص جو پہلے ان لڑکیوں کے باپ کا مخالف تھا، اب اس کے مرنے کے بعد اس کی بچیوں کا کیوں اور کیسے ہمدرد و غمگسار ہوگیا۔ مردوں نے باہر یہ آگ بھڑکائی جبکہ عورتوں نے مجيد انکل کے گھر جاکر اس آگ کو ایسی ہوا دی کہ ان کی بیوی کو بھی ان سے سخت بدگمان کردیا۔ وه شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئیں۔ ان کے گھر میں جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ اس روز بھی مجید انکل نے مجھ کو لے کر نوکری کے لئے جانا تھا۔ انہوں نے کسی سے سفارش کرائی تھی اور آج میرا انٹرویو تھا۔ جب میں اور انکل مجید واپس آئے تو دیکھا کہ گلی میں کچھ غنڈے قسم کے نوجوان کھڑے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی گاڑی پر پتھرائو کردیا۔ پتھر کار کے شیشے پر لگے اور انکل مجید بھی شدید زخمی ہوگئے۔ ان کے گھر والے انہیں اسپتال لے گئے۔ میں چونکہ گاڑی کی پچھلی نشست پر تھی اس لئے گاڑی میں سیٹ کے نیچے ہوگئی ورنہ میرا سر بھی پھٹ جاتا۔ تب ہی کچھ سنجیده محلے دار وہاں آگئے، ورنہ وہ بدمعاش جو شہزاد کے چیلے چانٹے تھے، انکل کی گاڑی کو آگ ہی لگا دیتے۔ انکل مجید کا بیٹا آرمی کا کورس کررہا تھا۔ وہ کوہاٹ میں تھا۔ اس کو جب اپنے والد کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی تو وہ فورا چھٹی لے کر گھر آگیا، اسپتال اپنے والد کی عیادت کو گیا۔ انکل نے اس کو سارے حالات بتائے تب خالد نے اپنے والد سے کہا کہ ابو! اگر آپ اپنے مرحوم دوست کی أن يتيم بچیوں میں سے کسی ایک کو اپنی بہو بنالیں تو تمام محلے والوں کی زبانیں بند ہوجائیں گی اور آپ کے اس نیک مشن کی تکمیل بھی اچھے طریقے سے ہوجائے گی لیکن ایک بات کا مجھ کو اطمینان دلانا ہوگا کہ واقعی یہ لڑکیاں شریف ہیں۔ انکل مجید نے کہا۔ بالکل! یہ شریف بچیاں ہیں۔ تمہاری بہنوں اور میری بیٹیوں کی طرح صرف حالات کی وجہ سے ان حالوں پر آن پہنچی ہیں۔ خالد نے باپ کو نیکی کا ایک نیا راستہ دکھا دیا تھا۔ اسپتال سے آتے ہی انہوں  محلے والوں کو جمع کیا اور بتایا کہ وہ اپنے مرحوم دوست کی ان بچیوں

میں سے ایک لڑکی کی شادی اپنے بیٹے سے کررہے ہیں۔ فی الحال منگنی کی رسم ہوگی اور جب وہ ٹریننگ مکمل کرلے گا تو شادی ہوجائے گی۔ بتایئے کیا اب بھی آپ کو اعتراض ہے؟ محلے داروں نے یک زبان ہو کر کہا۔ نہیں بالکل نہیں...! مگر اب ہمیں ساری بات سمجھ میں آگئی۔ آپ نے پہلے ہی ہمیں بتا دیا ہوتا کہ آپ ان بچیوں سے اپنے بیٹوں کے رشتے کرنا چاہتے ہیں تو اتنی باتیں ہم نہ کرتے۔ ہم بھی کہتے تھے بلا مطلب تو کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا، آپ کیسے کررہے ہیں؟ آخر مطلب ظاہر ہوگیا نا...! تاہم خیر ہوئی کہ مطلب خیر کا تھا اور لوگ مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ میں سوچتی ہوں
کہ اگر خالد بھی اپنے والد کی طرح اتنا اچھا انسان نہ ہوتا تو ہمارا کیا ہوتا؟ بعد
میں اس نے اپنی ماں کو بھی خود ہی راضی کرلیا اور ان کی غلط فہمی دور ہوگئی۔ میری
منجهلی بہن کوثر کی شادی خالد سے ہوئی کیونکہ وہی اس کے جوڑ کی تھی۔ میری شادی بعد
میں انکل نے اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کردی۔ آج میں اور کوثر اپنے اپنے گھروں میں
خوش ہیں۔ کلثوم شادی پر راضی نہ تھی۔ وہ میڈیکل جوائن کرنا چاہتی تھی۔ وہ تھی بھی
محنتی! لہذا اس کو انکل مجید نے میڈیکل میں داخلہ دلوا دیا۔ آج وہ ڈاکٹر ہے۔ آج
میں سوچتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بے سہارا اور یتیم لڑکیوں کا کوئی مستقبل نہیں۔
ہمیں بھی اگر انکل مجید جیسے مضبوط ارادے والے انسان کا سہارا نہ ملتا تو نجانے
ہماری زندگی کی کشتیاں کن گردابوں کی نذر ہوچکی

ہوتیں۔

 

Post a Comment

0 Comments