Search Bar

Urdu Short Story Teen Auratien Teen Kahaniyan Ab Na Dhoond Pao Gay

 

Urdu Short Story Teen Auratien Teen Kahaniyan Ab Na Dhoond Pao Gay


ندیم میرے بھائی کا دوست تھا۔ ندیم اور کلیم ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ دونوں کے گھر بھی قریب قریب تھے۔ اس لئے ان میں گہری دوستی تھی جبکہ ہمارا گھر ان کے محلے سے ذرا پرے تھا۔ ندیم کی بہن سے میری دوستی تھی، جس کا نام ماہ ناز تھا۔ اسی سبب میں کبھی کبھی ندیم کی بہن کے پاس چلی جاتی تھی۔ میرابھائی عارف ، ندیم اور کلیم کا کلاس فیلو تھا۔ اکثر تینوں کالج سے اکٹھے گھر آ جاتے۔ جب کبھی بھائی کو کچھ سمجھنا ہوتا وہ ندیم کے پاس جاتا کیونکہ وہ کلاس میں اول نمبر تھا اور بہت ذہین طالب علم تھا۔ پڑھائی میں تو کلیم بھی کسی سے پیچھے نہ تھا لیکن سیکنڈ ائیر تک آتے وہ کچھ سست پڑ گیا۔ عارف بھائی اکثر اس کاتذکرہ کرتے۔ امی سے کہتے خالہ شبو آئیں تو ان سے کہنا کہ آج کل تمہارا بیٹاپڑ ھنے میں دیسی نہیں لے رہا جبکہ سالانہ امتحان نزدیک ہیں۔ اس کو تو جی توڑ کر محنت کرنا چاہیے کیو نکہ آگے مستقبل کا دار و مدار اچھے نمبر لانے پر ہے۔ خالہ شبانہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ عرصے سے ہمارے یہاں ان کا آنا جانا تھا۔ وہ سلائی کر کے بیٹے کو پڑھارہی تھیں اور اس لڑکے سے ہی ان کی ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ ہمارے گھر بھی وہ کپڑے سلائی کے واسے لینے آتیں اور جب مل جاتے تودے جاتی تھیں۔ میرے بھائی کو خالہ شبو اور کلیم سے بہت ہمدردی تھی کیونکہ وہ ان کے حالات جانتے تھے، یوں بھی کام چالاک اور چالباز قم کا لڑکانہ تھا۔ سیدھا سادہ اور شریف تھا۔ اس کا اچھا نھی کے محلے میں رہتا تھا جو ایم اور اس کی ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا اور اکثر ان کی مالی مدد بھی کرتا رہتا تھا۔ اس شخص کی ایک بیٹی کلیم سے ایک برس چھوٹی تھی۔ میٹرک کی طالبہ تھی اور بہت خوبصورت تھی ۔ وہ ندیم کی بہن ماه از کی سہیلی تھی۔ میں جب ماہ ناز سے ملنے اس کے گھر جاتی وہاں اس لڑ کی لینی عروسہ سے اکژ میری ملاقات ہو جاتی۔ مجھ کو عروسہ بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ حوروں ایک اور بھولی بھالی تھی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اس کو اپنی بھابھی بنالوں۔ ہماری عمر کی اکثر لڑکیاں صرف اپنے بارے میں ہی خواب نہیں دیتیں، اپنے بھائیوں کے بارے میں بھی سوچتی ہیں۔ مثلا بھائی کب دولہا بنے گا اور ہم اس کی شادی دیکھیں گے اور کیسی لڑ کی ہماری بھابھی ہوگی۔ جب کوئی ایسی لڑکی وکھ جاتی، جو مین کو اچھی لگتی دل کو چھا جاتی تو میں بھی یہی بات سوچنے لگتی۔ کاش کہ مہی لڑکی میری بھابھی بنے۔ جب بھی عروسہ کو دیکھا، میں سوچا۔ امی سے کہا۔ عروسہ کے گھر عارف بھائی کا رشتہ لے کر جائے، مجھے معلوم نہ تھا کہ میرا بھائی جب ندیم کے گھر جاتا ہے وہاں اگرماہناز کے پاس عروسہ آئی ہوتی تو بھائی اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان دنوں عروسہ میٹرک میں تھی۔ اس کا ارادہ گریجویشن کرنے کا تھا۔ وہ کلیم کی چچازاد تھی اس وجہ سے بھائی نے دوستوں سے یہ بات چھپائی ہوئی تھی کہ وہ عروسہ کو دل سے چاہتا ہے۔ یہ باتیں تینوں دوستوں کے دلوں میں تھیں مگر کسی نے کوئی بات کسی پر ظاہر نہ کی تھی۔ میں نے ماہ ناز سے کہا اور نہ عروسہ سے اور عارف بھائی نے ند یم سے اور کلیم سے بھی کچھ نہ کیا تھا۔ ایف ایس سی کے پرچے ہونے والے تھے۔ ایک روز بھائی نے کلام سے کہا کہ تم پڑھائی میں بھی کیوں نہیں لے رہے؟ وہ بولا۔ بس یار ، جانے مجھ کو کیا ہو گیا ہے۔ پڑھنے میں دل ہی نہیں لگتا۔ اس پر ندیم نے بھی اس کو سمجھایا کہ دوست دیکھو یہ وقت بہت قیمتی ہے اچھے نمبر نہ لا سکے تو تم کو کسی اچھے کالج میں داخلہ بھی نہ ملے گا نہ انجینئرنگ میں اور نہ کامرس میں۔ تم یہیں کے نہیں رہ جاؤ گے پھر تمہارے مستقبل کا کیا بنے گا۔ وہ بھی نوٹ کر رہا تھا کہ یہ لڑکا م | صم رہنے لگا ہے اور اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ دونوں دوست ہی کلیم جیسے ہونہار اور لائق طالب علم کو امتحان سے غافل پا کر حیران اور فکر مند تھے کیونکہ اس کے اچھے مستقبل کا انحصار کلی طور پر اچھے نمبر لانے پر بھی تھا۔ وہ بزنس یاد و سرا کوئی کام کر کے اپنا مستقبل نہیں بنا سکتا تھا۔ وہ ایک غریب بیوہ کا لڑکا تھا۔ ایک دن ندیم نے اس کو قتم دی تو اس نے بتادیا کہ وہ اپنے چاشرف کی لڑکی عروسہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے اور دن رات اسی کے خیالوں میں مگن رہنے لگا ہے، تبھی اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ گئی ہے۔ لاکھ کوشش کرتا ہوں کہ پڑھائی پر توجہ دوں مگر نہیں دے پاتا۔ عروسہ کا نام سن کر ندی چونک گیا کیونکہ عارف بھائی ہی نہیں وہ بھی اس لڑکی کے حسن کے سحر میں گرفتار تھا۔ عروسہ ، ماہ ناز کے پاس تقر یبار روز ہی آتی تھی کہ یہ دونوں اکٹھی اسکول جاتی ، آتی تھیں، تبھی ندیم نے ارادہ کر لیا تھا ۔ کہ شادی کروں گا تو اس لڑکی سے ورنہ کسی سے نہیں۔ یہ کتنی عجیب بات تھی کہ تینوں ایک دوسرے کے مخلص اور جگری دوست تھے اور تینوں ایک ہی لڑکی کو پسند کرتے تھے۔ جب ندیم پر یہ بات ظاہر ہو گئی تو اسے دھچکا سا لگا مگر وہ خاموش ہو گیا۔ نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات کلیم کو پتا چلے کہ وہ بھی اس کی کزن عروسہ کو پسند کرتا ہے لیکن تعلیم کے دل کار از جان کر اس کا دل اپنے اس دوست سے ہٹ گیا۔ عارف بھائی نے خود کو سمجھ لیا کہ عروسہ کا خیال دل میں راسخ رکھنا بے معنی بات ہے، جس کا کوئی خوش گوار نتیجہ نکلنے والا نہیں کہ پہلے ہی اس کے دو دوست ، اس لڑکی پر فریفتہ ہیں، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اب تیسرا بھی ان کا رقیب بن جائے۔ عارف بھائی اپنی پوری توجہ سے پڑھائی میں مگن ہو گئے لیکن ند یم ایسانہ کر سکا۔ جانے اس کی چاہت متنی گہری تھی کہ اسے بچپن کا دوست بھی اب دشمن نظر آنے لگا، تبھی جب کلیم اس کے سامنے عروسہ کا ذکر کرتاتو ندیم کا جی چاہتا کہ اس کا گلا گھونٹ دے یا اس کا منہ اس طرح بند کر دے کہ اس کی سانس ہی ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔ پرانی دوستی کے سبب عارف بھائی بھی خاموش رہنے پر مجبور تھے۔ وہ دونوں دوستوں کی سن لیا کرتالیکن ایک کی بات ، دوسرے کو نہ کہتاتا کہ تینوں میں دوستی کا پیار ارشتہ قائم رہے اور ایک لڑکی کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائے۔ ندیم نے باوجود شدید رقابت کے کلام سے بظاہر رویہ نہ بدلا۔ اب بھی ساتھ کا بے آتے جاتے روز کی طرح ندیم کی بیٹھک میں مل بیٹھتے ، امتحان کی تیاری کرتے۔ صبح کالج کے وقت کھیم پہلے کی طرح روز ندیم کو بلانے اس کے گھر بن جاتا۔ ندیم کا بھی تونہ چاہتا کہ اس کی پکار کا جواب د ے بلکہ وہ جان بوجھ کر باہر نکلنے میں دیر لگاتا اور کلیم اس کے انتظار میں کھڑارہتا اس کو کچھ خبر نہ تھی کہ ندیم کے دل میں اس کے لئے نفرت کا پودا آہستہ آہستہ تن آور ہو رہا ہے۔ وہ تو اس کے دلی جذبات سے واقف ہی نہیں تھا۔ جب بھی موقع ملتا وہ بہانے بہانے سے عروسہ کا ذکر چھیڑ دیتا۔ چوں کہ اس کے ذکر سے کھیم کے دل کو راحت ملتی تھی۔ مگر ندیم کاول تو اندر سے خون ہوتارہتا۔ اس کا بس نہ چلتا کہ ایسے میں اس کے منہ کو اپنے ہاتھوں سے ہے

۔ اس کو پرانی دوستی کا بھی پاس تھا۔ پر نقابت کے جو جذ بات اس کے بدن میں زہر گھول رہے تھے۔ کلیم اس سے قطع غافل تھا۔ کلیم کے سامنے والا گھر کافی دنوں سے خالی پڑا تھا۔ کچھ دنوں بعد وہاں کرایے دار آگئے۔ یہ تین مرد تھے۔ ان کے ساتھ عورتیں یعنی فیملی کوئی نہ تھی۔ تینوں افراد ہی سخت چہرے اور گرڈ میں ڈیل ڈول والے تھے۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی پراسرار کام کرتے ہوں۔ کبھی یہ تین ہی ہوتے اور کبھی ان کے پاس بہت سے لوگ آجاتے۔ ان میں

صرف ایک آدمی ہی ایساتھاجو محلے والوں سے کبھی بھی کام کر لیا کرتا تھالیکن یہ شخص یہاں کسی کو اچھانہ لگتا تھا، زیادہ تر وہ نوجوان لڑکوں سے کلام کرتا، لیکن عجیب طرح کے سوالات کرتا۔ اس نے ندیم سے بھی ایک دو بار بات کی تو اس طرح کے ہی سوالات کئے، مثل یہ کہ کسی گھر میں کتنے لڑ کے رہتے ہیں اور کتنی لڑکیاں رہتی ہیں۔ ایسے سوالات کن کر ندیم کا موڈ آف ہو گیا۔ اس کا بھی نہ چاہا کہ یہ شخص مزید اس سے بات کرے ، مگر کلیم بھولا تھا۔ وہ اس شخص سے بات چیت کرنے لگا۔ کلیم ہر بات ند یم سے کہتا اور ندیم عارف بھائی کو بتادیتا۔ ایک دن ندیم نے کلیم کو باور کرایا کہ یہ شخص ویسے ہی محلے داروں کے بارے میں پوچھتا ہے۔ اس میں عجیب کیا بات ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ لیکن میں اپنی عمر سے بڑے آدمی سے کیونکر دوستی کر لوں ۔ کلیم نے کہا۔ دوستی نہ کرو مگر جب یہ بات کرے، محلے دار ہونے کی حیثیت سے اس کے ساتھ ہم کو اخلاق سے تو بات کر ہی لینی چاہیے کیونکہ ان کے پاس بڑے لوگ آتے ہیں، قیمتی گاڑیاں ہیں، ان لوگوں کا اثر رسوخ ، جان پہچان بہت ہے۔ تم کو آگے نوکری کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور یہ نہیں نوکری دلواسکتا ہے۔ اچھی ملازمت دلوانے میں مدد کر سکتا ہے۔ اپنی غرض کے لئے دوستی کر لینے میں کیا حرج ہے۔ کلیم اس کی باتوں میں آگیا کیونکہ اس کے مالی حالات ٹھیک نہ تھے ، وہ تو بڑی مشکل سے تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا۔ گرچہ اس کے ذہن پر عروسہ کی چاہت کا بھوت سوار تھا لیکن وہ ایف ائیں گی تو ہر حال میں مکمل کرناچاہتا تھا۔ کہتا تھا جونہی میری ملازمت ہو گئی چھ مجھ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیں گے ، نہ جانے کیوں اس بات کا اس کو پختہ یقین تھا۔ ندیم نے عارف بھائی کو اس شخص کا نام حیات بنایا۔ یہ چالیس برس سے بھی سال دو اوپر کا ہوگا لیکن وہ کلیم کا بہت جلد دوست بن گیا۔ کیوں کہنا چاہیے کہ ناتجربہ کار اور سادہ و بن کلیم اس آدمی کے گھڑے میں آگیا۔ اب کی تقریب روز ہی گھنٹہ آدھ گھنٹہ اس سے باتیں کرتا۔ خدا جانے وہ اس معصوم لڑکے کو کیسے کیسے خواب دکھاتا تھا کہ پھر وہ کلیم کو گھمانے پھرانے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ وہ ندیم کو کہتا گرماں میر ا پو چھنے آئے تو ان کو بتانا کہ کلیم اپنے اسکول کے استاد سے پڑھنے گیا ہوا ہے۔ ندیم نے ہی گر چہ اس کو اس رستے پر لگایا تھا لیکن اس کو خود پتا نہیں تھا کہ اس کے دوست کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ تاہم اس نے رقابت میں چاہا تو یہی تھا کہ وہ اس غلط شخص کے چنگل میں پھنس جائے اور عروسہ کا خیال چھوڑ دے۔ ایک روز کلیم نے ندیم سے کہا کہ حیات کہتا ہے تم میرے ساتھ چلو، میں تم کو بہت خوش رکھوں گا اور دولت مند بننے کے طریقے بھی سکھادوں گا۔ ندیم نے جواب دیا۔ یار تم ضرور اس کے ساتھ چلے جاؤ۔ یہ موٹی آسانی ہے ، ضرور تمہاری زندگی بنادے گا۔ تم بے فکر ہو کر جاؤ میں تمہاری امی کو سمجھالوں گا پھر تمہارے حالات جب سدھر جائیں گے تو واپس آجانا۔ ایک دن ایک بنی ندیم کے پاس آیا اور کہا کہ تم اپنے دوست کلیم کو بچالو۔ وہ بہت معصوم انسان ہے۔ حیات خان ٹھیک آدمی نہیں ہے۔ وہ اور اس کے ساتھی کلیم کو یہاں سے غائب کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ بہتر ہے تم اس کو ہوشیار کر دو اور وہ یہاں سے کچھ دنوں کے لئے کہیں اور کسی رشتہ دار کے پاس چلا جائے۔ میں ان لوگوں کا پرانا لازم ہوں اور یہ لڑکا ایک غریب بیوہ کا سہارا ہے۔ مجھ کو اس لڑکے پر ترس آگیا ہے اس لئے ہوشیار کرنے آیا ہوں۔ میں ان کے دوسرے ڈیرے پر ہوتا ہوں، کبھی بھی یہاں آتاہوں مگر مجھے ان کے ارادوں کا علم ہو چکا ہے۔ یہ لوگ اس کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں ؟ ندیم نے سوال کیا۔ یہ میں نہیں بتاسکتا۔ بس خبر دار کرنے آیا ہوں کہ ابھی وقت ہے اپنے دوست کو ان لوگوں سے دور کر دو۔ ایک لمحے کے لئے تو ندیم کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ جونہی اس کو عروسہ کا خیال آیا کہ وہ کلیم کی چچازاد ہے۔ اور چچا بھی وہ، جو اس پر مہربان ہے۔ یقین وہ اپنی بیٹی کی شادی کیم سے کر دے گا جیسا کہ کلیم کہا کرتا ہے۔ اس کا دل دو ست کے خلاف ہو گیا۔ اچھا ہے یہ لوگ اس کو کسی جگہ لے جائیں ، اسی جگہ کہ پھر یہ واپس ہی نہ آسکے راستے کایہ کائنات نکل جائے گا۔ پھر میں والدین سے کہہ کر عروسہ کار شتہ حاصل کر سکوں گا۔ پرانے پڑوسی ہیں اور ہم خوشحال لوگ ہیں، پھر تو یہ انکار نہیں کریں گے۔ یکطرفہ محبت بھی آدمی کو کئی طرح کے خواب دکھاتی ہے۔ خود فر میں، خوبصورت خیالی جنت میں لے جاتی ہے۔ پاگل عمر کی پاگل کر دینے والی سوچیں تھیں، یہ پتا نہیں ہوتا کہ تقدیر بھی خندہ زن ہوتی ہے۔ اور آدمی کو کون سا کام کرنا چاہیے ، کون سا نہیں، اس وقت تو بس خیالی باتیں ہی حقیقت نکلی ہیں ۔ ندیم، عروسہ کو تصور ہی تصور میں اپنانے کی سبیلیں کرتا رہتا تھا۔ اپنے اس جذبہ کے مقابل کسی اور کو برداشت کرنے کا یارا ہی نہ تھا اس میں....! ندیم نے بھی کام کو اجنبی کی گفتگو کے بارے کچھ نہ بتایا جو خود کو حیات خان اور اس کے ساتھیوں کا ملازم کہتا تھا۔ وہ خاموش ہی رہا کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ جس روز کلیم جارہا تھا اس نے ندیم کو بتایا کہ میں حیات کے ساتھ جارہا ہوں جلد آجاؤں گا، اس کے سوا اس نے کچھ نہ بتایا۔ تب بھی ندیم خاموش ہی رہا۔ اس نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ دوست میری والدہ کو کچھ مت بتاناور نہ وہ رونے پیٹنے لگے گی۔ اس سے کہنا کہ ملازمت کے انٹرویو کی خاطر لاہور گیا ہے۔ ایک دو روز میں لوٹ کر آجائے گا، اس بات پر بھی ند یم چپ ہی رہا۔ یہ تک نہ کہا کہ ایسے عذر لنگ کو ماں کیسے مان لے گی اور کتنے دنوں تک خاموش رہ سکے گی۔ اس نے یہ آخری الفاظ بھی کہے تھے۔ دوست تم میر کی ماں کا خیال رکھنا تب بھی اند بیم کا دل نہ پیا۔ ندیم کو اندازہ ہو چکا تھا کہ کلیم کا ان لوگوں کے ہمراہ یوں جانا خالی از خطرہ نہیں ہے مگر آدمی بھی بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خود غرض ہو جاتا ہے۔ ی ہے یہ بھی کہ موت اور محبت میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہر شے کو بدل دے۔ ندیم کا بھی دل بدل چکا تھا۔ اس کو معلوم تھا شاید اس کا دوست پھر بھی لوٹ کر نہ آ سکے۔ وہ چاہتا تو اس کو بيا سکتا تھالیکن اس نے ایسا نہ کیا اور یوں اس کا بد نصیب دوست چلا گیا حیات اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ۔ چلای نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہو گیا کیونکہ جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ بردہ فروش تھے۔ کلیم کی ماں تو بس انتظار کرتی رہ گئی، ایسا انتظار کہ جو اس کی موت تک کبھی ختم ہونے والا نہیں تھا۔ جب کلیم نہ آیا، وہ سب سے پہلے ندیم کے گھر گئی اور اس کے بارے میں پوچھا۔ وہ اس کو کوئی بات واضح نہ بتاسکا۔ خالہ شبو ہمارے گھر آئیں۔ ان کا چہرہ زرد تھا اور وہ ہر مشکل چل پارہی تھیں۔ انہوں نے عارف بھائی سے کہا۔ بیٹا تمہیں کچھ معلوم ہے تو بتاؤ۔ نہیں تو پتا کر کے دو کہ میر ابیٹا کہاں گیا ہے۔ آج چوتھا دن ہے اور میں اس کی صورت دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔ وہ اور بھی سارے محلے داروں کے گھروں میں گئی سبھی نے ان کے بیٹے کو تلاش کرنے میں کچھ نہ کچھ کو شش ضرور کی مگر کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ عارف ندیم کے پاس گیا۔ کہ وہ تمہارا سب سے قریبی دوست ہے، ضرور تم کو کچھ کہہ کر گیا ہو گا، مجھے تو بتاد و تاکہ ہم خالہ کو تسلی کے دو بول ہی کہہ سکیں۔ آخر ہم اس کو کہاں تلاش کریں۔ مجھ کو معلوم ہوتا کہ کہاں گیا ہے تو میں خود نہ تلاش کر لیتا۔ ندیم نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ جاتے ہوئے کلیم نے کہا تھا کہ دو چار دنوں میں واپس آجائے گا۔ لیکن کہاں جارہا ہے، ایسا کچھ نہیں بتایا اس نے مجھے۔ اس واقعے کو کئی برس گزر گئے خالہ شبوروتے روتے مر گئی۔ عروسہ کی بھی کہیں شادی ہو گئی۔ وہ ندیم کی نہ ہو سکی ۔ کیونکہ عروسہ کے والد نے بیٹی کی شادی اپنے کسی رشتہ دار کے گھر بیاہ دی۔ ندیم اس کے بعد ہمیشہ پچھتاوے کی آگ میں جلتا ہی رہا کیونکہ جس کی خاطر دوست کو گنوایا وہ تو اس کی قسمت میں تھی ہی نہیں لیکن اتنے اچھے دوست کو گنوا | کر گویا اس نے سب کچھ گنوادیا تھا۔ جب ندیم نے ضمیر کے بوجھ سے بے قرار ہو کر یہ سب قصہ عارف بھائی کو بتایاتو وہ خود بھی رویا اور بھائی بھی روئے کیونکہ اتناتوند یم کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ پر اسرار لوگ در اصل بردہ فروش تھے اور یقین کلیم کو فروخت کرنے کو لے گئے تھے ، غالبآ خر کاروں کو یا کہ کسی اور مقام پر کسی اور مقصد کے لئے جہاں انسان کی خرید و فروخت ہوتی ہو گی۔ بہر حال اس واقعے کے بعد ایم پھر واپس نہیں آیا۔ خدا جانے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ اگر زندہ ہوتا تو بھی تورابطہ کرتا۔


Post a Comment

0 Comments