Search Bar

Is Dasht Beyaban Mein – اس دشت بیاباں میں ,TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN KAHANIYAN Teen Auratien Teen Kahaniyan latest story WEEKLY AKHBAR-E-JEHAN

 

TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN KAHANIYAN Teen Auratien Teen Kahaniyan latest story WEEKLY AKHBAR-E-JEHAN


ماں کا انتقال ہوا تو بھائی بھی کمسن تھا۔ بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھ کو گھر سجانا تھا اور اپنے بھائی کو بھی ....! گرچه میری عمر اتنی زیادہ نہ تھی مگر حالات نے وقت سے پہلے سمجھدار کر دیا۔ ہم دو ہی بہن بھائی تھے۔ ابو ڈیوٹی پر چلے جاتے اور شام ڈھلے لوٹتے۔ ہم صرف دو ہی ہوتے اس دشت بیاباں جیسے اجاڑ مکان میں میں اور انوار ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹنے کو ہی رہ گئے تھے۔ ی ہے جب ماں یا باپ کا سایہ ساتھ چھوڑ جائے تو وقت کی کڑی دھوپ میں اپنی سہولت کی خاطر مسن بچہ بھی فہم و فراست کی منازل جلد طے کر لیتا ہے، وہ اتنی ٹھوکریں کھاتا ہے کہ اس کی معصومیت بچپن میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ میں بھی وقت سے پہلے باشعور ہوگئی ، تاہم انوار کو سنبھالنا تنی بڑی ذمہ داری تھی کہ کوئی اور کام نہ کر سکی۔ تعلیم بھی جاری نہ رہ سکی۔ بھائی کے لئے میری محبت دیکھتے ہوئے ابا نے رشتے داروں کے اصرار کے باوجود دوسری شادی نہ کی۔ میں اور انوار ایک دوسرے کے دوست بھی تھے۔ وقت کا چکر بڑی تیزی سے گھومتا رہا۔ میٹر ک اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد انوار نے ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ اس کی و پانت

کے پیش نظر ہم یہ سمجھتے تھے کہ وہ میرٹ حاصل کر لے گا۔ انوار کاری سے آ کر وہاں کی ساری باتیں مجھے بتایا کرتا، اسے کالج کی دنیا پسند آگئی تھی۔ کہتا آپی! یوں لگتا ہے جیسے برسوں بعد ایک پنجرے میں بند رہنے کے بعد آزادی ملی ہو۔ اسے یہ آزادی بھائی ضرور لیکن اس نے اس آزادی کا فائدہ بھی نہ اٹھایا۔ باقاعدگی سے اپنی کلاسز اٹینڈ کرتا۔ میڈیکل اسٹوڈنٹ ہونے کے ناتے شام کو اکیڈمی بھی جانتا کہ کامیے میں کوئی کمی رہ جائے تو یہاں پوری ہو جائے۔ کان میں لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ اس کی کلاس میں رخشندہ نامی لڑکی تھی۔ پہلے روز اکیڈمی گیا تو وہ اس لڑکی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے مجھ سے اس بارے کوئی بات نہ کی۔ ایک روز کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اس کی ڈائری میرے ہاتھ لگ گئی جس میں اس نے لکھا تھا کہ میں نے رخشندہ کو پہلی بار دیکھا تو میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ اس کے ملکوتی حسن نے مجھے مبہوت کر دیا۔ وہ اپنے حسن کی طرح بامعنی باتیں بھی کرتی ہے۔ وہ جب ایک خاص انداز بے نیازی سے میری جانب دیکھتی ہے تو سدھ بدھ کھو دیتا ہوں ۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے کہ میں کلاس میں کتابوں کی طرف کم اور اس کی جانب زیادہ دیکھتا ہوں۔ گھر میں بھی جب کتابیں کھولتا ہوں تو اس کا چہرہ میری آنکھوں میں گھوم جاتاہے۔ میں نے ڈائری ر کھ دی۔ تبھی احساس ہوا کہ میرا بھائی اب بڑا ہو گیا ہے۔ وہ اپنی راہوں پر چل نکلا تھا۔ میں تو بھی تک اس کو چھوٹا سا معصوم سا لڑکاہی سمجھتی تھی۔ شام کو وہ گھر آیا تومیں نے بات کی۔ وہ رخشندہ کا نام سن کر سٹپٹا گیا۔ میری باجی ! وہ میری کلاس فیلو ہے۔ پتا نہیں کیوں وہ میرے دل میں بس گئی ہے، مجھے اچھی لگتی ہے بہت..! تم نے ڈاکٹربننا ہے نا... اپنی پڑھائی پر دھیان رکھو لڑکیوں پر نہیں۔ میں نے اسے سمجھایا۔ وہ خاموش ہو گیا جیسے میری بات سمجھا تو ہے لیکن مانا نہیں چاہتا۔ ایک رات اپنے کمرے میں بیٹا پڑھ رہا تھا کہ اس کا کوئی دوست آ گیا۔ وہ اٹھ کر چلا گیا۔ میں کمرے میں گئی تو اس کی کاپی و میھی۔ ایک صفحے پر لکھا تھا۔ رخشنده..! میں تم کو چاہنے لگا ہوں۔ یہ بات تم سے کافی عرصے سے کہنا چاہتا تھا لیکن میرا حوصلہ نہ ہوا۔ آج تم نے میرے سلام کا جواب مسکرا کر دیا تو ہمت ملی۔ میں سمجھتا ہوں کہ محبت اعتراف کیا محتاج نہیں ہوتی لیکن دل یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ تم میری اس حالت سے بے خبر رہو۔ میرادل تم کو دیکھ کر بے قابو ہو جاتا ہے۔ اب میری زندگی کا انحصار تمہارے جواب پر ہے۔ تمہارے بغیر زندگی بیکار ہے۔ ہو سکے تو دو بول لکھ کر اپنے دیوانے کو زندگی دے دو۔ تمہارے جواب کا بڑی بے چینی سے منتظر ہوں۔ بیر رخشندہ کے نام میرے بھائی کا ط تھا۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میرا اتنا سلجھاجو بھائی اس نہج پر پہنچ جائے گا کہ ایک لڑکی سے زندگی کی بھیک مانگے گا۔ ارادہ کیا کہ آجائے تو اس کو منع کروں گی کہ یہ خط اس لڑکی کو نہ دے۔ رات کو دیر سے آیا۔ میں سوگئی تھی۔ دوسرے دن بھی اتنا تو اس کی اور میری ملا قات اتنی دیر کی نہ تھی کہ اسے سمجھ پاتی۔ ابو کی موجودگی میں کچھ کہنانہ چاہتی تھی۔ اگلی شام وہ آیاتو بہت خوش تھا۔ پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا۔ مت پوچھو۔ میں نے سوال کیا۔ بتائو تو سہی ایسا کیا پالیا ہے ؟ تھوڑے سے اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ میں نے رخشندہ کو خط لکھا تھا۔ اس نے میری محبت کا جواب محبت سے دیا ہے۔ میں نے ایک بار پھر اس کو سمجھانا چاہا لیکن اس کی خوشی دیکھ کر خاموش ہو گئی۔ ان میں باقاعدہ خط و کتابت ہونے گئی۔ لڑکی نے بھی اس کی محبت کو قبول کیا تھا۔ میرے بھائی کے تواند از بی والہانہ تھے۔ پچ کہوں کہ اس سادہ سے لڑ کے میں نکھار آ چلا تھا۔ وہ خود دیر پہلے سے زیادہ توجہ دینے لگا تھا، بس ہر وقت اسے مبہی و عادیتی تھی کہ خدا اس کے دل کی مراد پوری کرے ۔ میرے حصے کی ساری خوشیاں بھی اس کی جھولی میں ڈال دے۔ ایک دن وہ معمول سے کچھ زیادہ ہن نشین کر جانے لگا تو میں نے ٹوک دیا۔ انوار ! اس قدر بن سنور کے نہ جایا کرو کسی کی نظر لگ جائے گی۔ کہنے لگا۔ جس کی نظروں میں آنا تھا، آچکا۔ اب کسی کی نظر نہ آئے گی مجھے۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ کالج کم جاتا ہے۔ وجہ پوچھی تو بے دھڑک کہا۔ رخشندہ سے ملنے جاتا ہوں۔ مجھے دکھ ہوا | کہ میرے بھائی کی توجہ پڑھائی سے ختم ہو گئی تھی۔ کئی کئی دن کتابوں کو ہاتھ نہ لگاتا۔ وہ جب بھی اس سے مل کر آنتادو دن تک اس پر ملاقات کا نشہ سا چھایار ہتا۔ اب اس کی دیوانگی مجھے پریشان کرنے لگی تھی۔ یہ کسی انجام کی طرف جارہا ہے۔ وہ اپنی تباہی کی طرف بڑھتا گیا۔ میری ایک نصیحت نے بھی اس پر اثر نہ کیا۔ دوستوں نے بھی منع کیا مگر وہ اپنے خیالوں میں ہی گم رہا۔ اب تک کی زندگی میں نے بہت پر سکون گزاری تھی لیکن انوار کی نئی کہانی نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔ سالانہ امتحان میں دو ماہ باقی رہ گئے اور وہ اپنی دھن میں مگن تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ مجھے چپ چپ لگا تو میں نے دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ اس کی اکیڈمی میں ایک اور لڑکا گیا ہے۔ رخشندہ اس میں دپی لینے گئی ہے۔ مجھے اس کی یہ بات بری لگتی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تم اس سے محبت کرتے ہو ، وہ بھی تمہارے جذبات کا احترام کرتی ہے تو اسے منع کر دو کہ وہ اس لڑکے سے نہ ملا کرے۔ میر کی بات اسے پسند آئی۔ شام کو وہ آیاتو بہت غصے میں تھا۔ کہنے لگا۔ میں نے رخشندہ کو منع کیا تو وہ بولی۔ تم کون ہوتے ہوتے ہو منع کرنے والے۔ تمہارے جیسے کئی لڑ کے میری زندگی میں آئے اور گئے۔ اس نے یہ بات صاف صاف کہہ دی۔ وہ مجھ سے محض دل گئی کر رہی تھی۔ اس کا یہ جواب سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ دماغ میں تیز آندھیاں چل رہی ہیں، جن کا شور ابھی تک میرے من میں طوفان اٹھارہا ہے۔ باجی ! میں اس وقت تمہاری بات مان لیتا تو آج میر کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس دن کے بعد میرا بھائی نائٹ کا انج نہ کیا۔ ایک ہفتے بعد میرے بار بار اصرار کے بعد وہ وہاں گیا۔ اسے معلوم ہوا کہ رخشندہ نے بے وفائی کی حد کر دی۔ وہ ایک نئے لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔ انوار کے لئے یہ ایک اور صدمہ تھا۔ پولیس اور ان کے گھر والے انہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اس میں نفرت کا مادہ بڑھ گیا۔ وہ مجھ سے بھی اکھٹا کھڑا | رہنے لگا۔ اس کا عورت ذات پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ وہ کسی بستی مسکراتی اور شوخیاں کرتی لڑکی کو دیکھتا تو اس کا خون کھولتا۔ عورت کا جو تصور میں نے اس کے ذہن میں بٹھایا تھا، و درخشندہ نے توڑ دیا۔ وہ اب میر اہنسنا، بولنا بھی برداشت نہ کرتاتھا۔ بھی وہ خود بھی اپنے اس رویے پر نادم ہوتا۔ اس کی تعلیم کا بہت زیادہ حرج ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر کے خواب دیکھنے والا میر ابھائی زندگی سے ہی مایوس ہو گیا۔ اب ایف ایس سی کی تیاری کرنے کا وقت گزر چکا تھا۔ انوار نے ایف اے کی تیاری کی اور پرائیویٹ داخلہ بھیج دیا۔ اس نے دن رات کی محنت سے بڑی مشکل سے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا۔ اس کے نمبر اجھ نہ آسکے لیکن ہمارے لئے یہ بہت تھا کہ اس نے اتنی ٹینشن کے باوجود پڑھائی پر آمادگی کا اظہار کیا اور ایف اے پاس کر لیا۔ ہمارے سارے سپنے اور تمنائیں بکھر گئیں۔ انوار نے پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا۔ ڈاکٹر نے کا خواب دیکھنے والے میرے بھائی کو ابو نے ایک دکان پر سیلز مین رکھوادیا۔ اس طرح اس کا دل بہل جاتا تھا۔ وہ بالکل تنہا ہو گیا۔ پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ مجھ سے بھی بات کم کرتا تھا۔ ہمارے رشتے دار گائوں میں رہتے تھے۔ ان کے ہاں شادی ہورہی تھی۔ ہمیں کبھی بلاوا آیا۔ ابو نے کہا کہ انوار تم بھی چلو۔ مجھے کچھ کام ہے۔ اس طرح تمہارا دل بھی بہل جائے گا۔ وہ جانتا نہیں چاہتا تھا لیکن میری وجہ سے چلا گیا۔ وہاں بھی وہ شادی کے ہنگاموں سے دور ہی رہا۔ یا میں ہماری دور کی رشتہ دار تھی ، وہ بھی شادی میں شریک تھی۔ یاسمین اچھی لڑکی تھی ، شوخ تھی، اس کی چکار محفل کو گل و گلزار بنارہی تھی۔ انوار کو دیکھ کر وہ اور بھی شوخی پر اتر آئی ۔ انوار اس سے خار کھاتا تھا۔ وہ اتناڈر گیا تھا کہ رسی کو بھی سانپ سمجھنے لگا تھا۔ یاسمین سب سے بہت محبت سے ملتی تھی۔ باجی باجی کہتے اس کی زبان نہیں ملتی تھی۔ ہم جتنے بھی دن وہاں رہے ، اس پوری بستی میں سب سے زیادہ ہمارا خیال یامین نے رکھا۔ میں جانتی تھی وہ یہ سب انوار کی وجہ سے کر رہی ہے جبکہ انوار آدم بیزار ہو چکا تھا۔ میری خواہش تھی کہ انوار، یا مین کی طرف توجہ دے لیکن یہ بات میں اس سے نہیں کر سکتی تھی کیونکہ پہلے اسے اس راستے پر چلنے سے سختی سے منع کرتی رہی تھی، اب اس راستے پر چلانے کی ترغیب میں خود اسے کیسے دیتی۔ جب ہم لوگ واپس لاہور آنے لگے تو ا مین کا چہرہ دیکھنے کے لائق تھا۔ وہ بہت اداس اور مغموم نظر آرہی تھی، مجھے بھی دکھ ہو رہا تھا۔ انوار سب سے بے نیاز کھڑا تھا۔ میں اسے دمیستی تو دل میں ایک ہوک سی اختی۔ سوچتی خدانے بھی کیسی کیسی لڑکیاں بنائی ہیں۔ ایک بے وفا نے میرے بھائی کی دنیا اجاڑ دی۔ اب دوسری اس کی طرف پھر قدم بڑھارہی ہے، نجانے یہ کیسی لڑکی ہو۔ سکھر آ کر انوار اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد میں بھی اس بات کو بھول گئی لیکن یا سمین ہمیں نہ بھلا سکی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر اس نے ایک خط بھیجا جو انوار کے نام تھا۔ وہ خط پہلے میں نے کھولا۔ اس نے اپنی دلی کیفیات بڑے کھلے انداز میں بیان کی تھیں۔ اس نے لکھا تھا۔ محترم انوار صاحب ! شادی والے دن آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ آپ میرے دل کے آنگن میں بچپن سے براجمان ہیں لیکن میں ہمیشہ آپ کے سامنے آنے سے گھبراتی رہتی ہوں۔ اس دفعہ جب آپ آئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب آپ سے بات کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ میں نے آپ سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن آپ نے سیدھے منہ بات نہیں کی۔ یقین کریں میں آپ کو دل سے چاہتی ہوں، اگر مجھے نہ ملے تو اپنی جان دے دوں گی۔ خط پڑھ کر میں پریشان ہو گئی۔ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اسے یہ خط د کھائوں یا ہیں ؟ انوار خود ہی آگیا۔ میں نے خط استے دکھادیا۔ اس نے پڑھ کر بے دردی سے چھوڑ دیا۔ مجھے دکھ ہوا۔ اسے منع نہیں کر سکتی تھی کہ وہ اپنا رویہ بدلے۔ فور گھر سے نکل گیا۔ کچھ روز بعد یا مین کا ایک اور خط موصول ہوا۔ اس دفعہ میں نے انوار سے کہا کہ اگر تم نے اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا تو اسے جواب کیوں نہیں دے دیتے۔ انوار کہنے لگا اگر آپ کو اس سے اتنی ہمدردی ہے تو خود خط لکھ کے بھیج دیں۔ میں لاجواب کی ہوگئی لیکن یہ لڑکی میرے ذہن میں پچانس کی طرح چھ گئی تھی۔ میں نے اس کو انوار کی طرف سے جواب لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔ ایک اور لڑکی کو پسند کرتا ہوں۔ اس سے ہی شادی کروں گا۔ لذا تم میراخیال دل سے نکال دو۔ خط پوسٹ کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو کا چھلکا محسوس کرنے لگی۔ میرا خیال تھا اس لڑکی کے ذہن سے یہ بات اب نکل جائے گی۔ وہ خواہ مخواہ اس میں نہ رہے گی۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ اس بات کو چھ سات ماہ گزر گئے۔ میں اور انوار اس واقعے کو بھول گئے۔ اس دوران نہ کوئی گائوں سے آیانہ ہم لوگ گئے۔ ہمارے ایک رشتے دار سے معلوم ہوا کہ یا میں بہت پیار ہے۔ اس کو کسی بڑے شہر علاج کے لئے لے گئے ہیں۔ مجھے ایک دم جھٹکا لگا۔ انوار بات غور سے سنے لگا۔ وہ آپ دونوں کو بہت یاد کرتی ہے۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس سے ملنے جائیں اس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ میں نے انوار کو مجبور کیا کہ مجھے اس کے پاس لے جائے۔ وہ مان گیا۔ مجھے گائوں لے گیا لیکن خود ان کے گھر نہ گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ یا میں تمہیں یاد کر رہی ہے، تم ایک بار میری خاطر اس سے مل لو۔ وہ اندر آیا لیکن اس سے کوئی بات نہ کی۔ ہم اس سے مل کر واپس آگئے۔ اس کی ماں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے، اسے کوئی خاص بیماری نہیں ہے۔ میں نے انوار سے کہا کہ تم یا مین سے شادی کر لو تو وہ بھٹک گیا اور مجھ سے بات چیت بند کردی۔ ہمارے وہاں سے آنے کے ایک ہفتے بعد انوار کے نام ایک خط موصول ہوا۔ میں نے اسے کھولے بغیر انوار کو دے دیا۔ وہ خط یا سمین کا تھا۔ خط پڑھتے ہی اس کی رنگت بدل گئی۔ میں نے خط اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ اس نے لکھا تھا۔ میں اپنے والدین اور گھر والوں کو یہ بتا چکی تھی کہ انوار سے شادی کرنا چاہ رہی ہوں، آپ کے گھر بھیجنے کے لئے انہیں تیار کر لیا تھا لیکن آپ کے رویئے کے سبب نہ بھیج سکی۔ آپ کے پہلے جوابی خط نے میری زندگی ہی بدل دی۔ آپ کسی اور کو چاہتے ہیں اور میرا دل مجھے ہمیشہ یہی گواہی دیتا رہا کہ آپ مجھے بھی چاہیں گے۔ ہر وقت اس خیال نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ پیار ہو گئی ، طبیعت مسلسل گرتی جارہی ہے۔ اب امی نے مجھے خالہ زاد سے بیاہنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن میں وہ مقام کسی کو نہیں دے سکتی جو آپ کو دے چکی ہوں۔ اس مہینے میری شادی ہونے والی ہے لیکن جب آپ کو یہ خط ملے گا، اس وقت تک یہ دنیا چھوڑ کر جاچکی ہوں گی۔ ماں، باپ کو انکار نہیں کر سکتی اور اپنے تصوراتی محبوب سے بھی بے وفائی نہیں کر سکتی۔ اگر مجھ سے کوئی کوتاہی، کوئی مٹی ہو گئی ہو تو معاف کر دیجئے گا۔ اللہ تعالی آپ کو ساری زندگی خوش رکھے۔ اپنی شریک حیات کے ساتھ مثالی زندگی گزار ہیں۔ ابھی انوار یہ خط پڑھ ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آنے والے نے اطلاع دی کہ یاسمین اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ صدمے اور دکھ سے میری زبان گنگ ہوگئی۔ انوار کو سکتہ ہوگیا۔ میں نے اس کو گلے لگایا تو وہ بے اختیار رونے لگا۔ روتے روتے پوچھا کیا وہ خط آپ نے لکھا تھا۔ میں نے کہا۔ ہاں ! انوا، لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑ کی اتنی سنجیدہ ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس طرح وہ تمہیں دل سے نکال دے گی لیکن اس نے آج ثابت کر دیا کہ اگر لڑکی وفا کرنے پر آئے تو اس کے عزم اور حوصلوں کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔ انوار نے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رخشندہ جیسی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ یہاں یا مین جیسی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ واقعی عورت ایک ایسی ہی ہے جس کا حل کرنا بہت مشکل ہے۔ میں کوشش اور عقل کے باوجود خود بھی میں سمجھا کہ عورت کے کتنے روپ ہیں۔ میری شادی ہوگئی ہے۔ انوار نے آج تک شادی نہیں کیا۔ پہلے عورت سے نفرت نے اسے شادی کرنے سے روکا تھا، اب وہ یاسمین کے خیال سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔ جس نے اس کے ساتھ وفا نبھاتے ہوئے جان دے دی۔ خدا اسے غریق رحمت کرے اور انوار کو اس کی خوشیاں لوٹادے۔ میں تو ایک بہن ہوں، اپنے بھائی کی سوگواری نہیں دیکھ سکتی اور اسے زندگی کے اس دشت بیاباں میں تنہا کھنکتے بھی نہیں دیکھا جاتا۔


Post a Comment

0 Comments