Search Bar

Ghur Yun He Bastey Hain Teen Auratien Teen Kahaniyan 2022

 

Ghur Yun He Bastey Hain  Teen Auratien Teen Kahaniyan 2022

میری شادی سولہ سال کی عمر میں ہوئی اور میں اٹھارہ سال میں بیوگی کی بے رونق چادر میں لپیٹ کر میکے آگئی۔ شادی کے دوسالہ مختصر عرصے میں اولاد نہ ہوئی تو یہ اچها ہی ہوا کیونکہ نہ تو میں اور نہ ہی میرے والدین اس کو پالنے کے قابل تھے۔ ابا کی عمر ساٹھ برس تھی مگر بلڈ پریشر اور شوگر نے ان کو دل کا مریض بنادیا تھا۔ وہ ساٹھ کے ہو کر بھی اسی کے لگتے تھے۔ ہمارا ایک ذاتی مکان تھا، جو ورثے میں دادا سے میرے والد کو ملا تھا۔ یہ دوحصوں میں بنا ہوا تھا۔ ایک میں ہم رہتے تھے اور دوسرا حصہ کرایہ پر دیا ہوا تھا۔ بس اسی کرائے پر گزارہ تھا۔ اس کے سوا آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ 


جب میں بیس برس کی ہوئی ابا چل بسے۔ میں اور اماں ایک دوسرے کے سہارے دن کاٹنے لگے۔ ماں کی خواہش تھی کہ میری دوسری شادی ہوجائے کیونکہ ان کے بعد میرا کوئی نہ تھا۔ میرا ذہن مگر ابھی شادی پر تیار نہ تھا۔ ہم دونوں کو ہرماه جو مکان کا کرایہ ملتا، وہ ہماری گزر بسر کو کافی تھا... لیکن امی کو میری بھری جوانی میں بیوگی کا دکھ تڑپاتا رہتا تھا۔ ابا نے وفات سے قبل مکان میرے نام کردیا۔ البتہ والدہ کا شرعی حصہ انہی کے نام رہنے دیا تھا۔ ایک دو رشتے مکان کے لالچ میں آئے۔ والدہ نے منع کردیا کیونکہ وہ جہیز میں میرا مکان دولہا کے نام کرانا چاہتے تھے جو ہم دو بے سہارا عورتوں کی کل پونجی تھی...


 تب میں سوچتی کہ دنیا مطلب کیا ہے۔ اگر شادی دوبارہ کرنے کی ضرورت پڑ گئی تو بہت سوچ سمجھ کر کروں گی۔ ابھی اماں زنده تهیں جب پرانے کرایہ داروں نے گھر خالی کیا اور ہم نے اپنے پڑوسی کو دوسرے کسی اچھے کرایہ داروں کے لئے کہا۔ چونکہ ہمارے گھر کے قریب فصيح انكل والد کے بھائی بنے ہوئے تھے، وہی ہم کو کرایہ دار لا دیا کرتے تھے۔ اس بار بھی امی نے یہ فریضہ ان ہی کو سونپ دیا۔ انکل کے توسط سے ایک بزرگ خاتون کو ہم نے اپنا مکان دے دیا۔ خاتون کا بیٹا طالب علم تھا اور گاؤں سے شہر پڑھنے آیا تھا۔ ماں ساتھ اسی وجہ سے آئی تھی کہ اس کے بیٹے کو گھر کا کھانا ملے اور کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ انکل نے امی سے کہا۔ یہ سیدھے سادے شریف لوگ ہیں۔ فیملی بھی مختصر ہے۔ کرایہ اچھا دے رہے ہیں۔


 آپ انہی کو مکان دے دیں... سو، امی نے دے دیا۔ واقعی یہ بہت اچھے اور پرامن لوگ تھے۔ خاتون نیک طبیعت نرم دل اور دکھ سکھ میں کام آنے والی تھیں۔ امی جان سے ان کی خوب دوستی ہوگئی اور بیٹے کا تو یہ حال تھا کہ بھولے سے سامنے آجائے تو بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ ان کا نام نصير تها۔ امی نے اس نوجوان کے حسن اخلاق اور شرافت کو دیکھتے ہوئے نصیر کو اپنا بیٹا بنالیا۔ سال بھر ان لوگوں سے ہم کو کوئی تکلیف نہ ہوئی بلکہ ان ماں بیٹے نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ روپے کی امی کو ضرورت پڑ جاتی تو یہ خاتون جن کو ہم خالہ عظمت کے نام سے پکارتے تھے، ایڈوانس کرایہ دے دیتیں۔ دکھ سکھ میں یہی لوگ اپنوں کی طرح ہمارے کام آنے لگے۔ سچ کہوں تو ان کرایہ داروں کے آجانے سے ہم کو بہت سکه ملا۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسئلے انہوں نے اپنے ذمے لے لئے تھے۔ نصیر کی والده ماه دو ماه بعد چند دنوں کے لئے گاؤں چلی جاتی تھیں کیونکہ ان کو وہاں اپنے آبائی گھر کے بھی مسائل دیکھنے پڑتے تھے، تب نصير اپنے ایک رشتہ کے چچا کے یہاں رہنے چلا جاتا۔ خدا جانے کیوں ان دنوں مجھے اس کا یوں غیر حاضر ہوجانا شاق گزرتا تھا۔ امی کو بھی پریشانی لاحق ہوجاتی۔ گھر کا سواد سلف اور دیگر چھوٹے موٹے مسائل جو نصیر کی بدولت حل ہوتے رہتے تھے، ان میں رکاوٹ ہوجاتی تو پریشانی بڑھ جاتی تھی۔ ایک روز امی نے خالہ عظمت سے کہا۔ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے اور میں نے نصیر کو بیٹا بنانا ہے تو پھر یہ تکلف کیسا ہے۔


 تمہیں گھر کو تالا لگا کر کہیں اور جاکر رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے ہم کو اپنا کہا ہے۔ حقیقی معنوں میں پھر اپنا ہی سمجھئے، یہ تکلف کیسا ہے؟ خیر کہہ سن کر امی نے خالہ عظمت کو رضا مند کرلیا کہ وہ جب گاؤں جائیں، نصیر کے کھانے کی ذمہ داری ہم پوری کردیں گے۔ اس کی موجودگی سے ہم کو بھی تحفظ کا احساس رہتا، ورنہ رات کو ہم لوگوں کو ڈر محسوس ہوتا تھا۔ خالہ عظمت کو سکون مل گیا۔ وہ بیٹے کی فکر سے آزاد جب چاہتیں گاؤں چلی جاتیں اور جتنے دن چاہتیں وہاں ره جاتیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ہم نصير کا اپنے گھر کے ایک فرد جیسا خیال رکھتے تھے۔ جب وہ کالج چلا جاتا، میں گھر کی صفائی کر آتی اور کب لوٹتا، چائے کهانا سب تیار کرکے ان کو بھجوا دیا کرتے تھے۔

وہ گھر آکر زیادہ وقت اپنے کمرے میں رہتا۔


میں سمجھتی تھی کہ ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے ٹکرا کر وہ مستقبل بنانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ وہ اپنی ماں کی غیرموجودگی میں اب زیادہ وقت گھر سے غائب رہ کر گزارنے لگا ہے، اس کا کھانا پڑا رہ جاتا۔ منزل قریب تھی، ہمت بھی جوان تھی، حالات ساز گار تھے تو اس کا دھیان کدهر ہوگیا تھا۔ لگتا تھا کہ دل کی نازک کونپل نے چابت کے کانٹوں میں گر کر اس کے خوابوں کو زخمی کر ڈالا ہے۔ وہ کھویا کھویا سا رہنے لگا تھا۔ خالہ عظمت اب زیادہ وقت گاؤں میں رہنے لگی تھیں۔ گویا وہ اپنے بیٹے کو میری ماں کو سونپ کر بے فکر ہوگئی تھیں۔ ابھی تک مجھے علم نہ تھا کہ نصیر کس بهنور میں پھنس چکا ہے۔ تاہم بعد کو پتا چل گیا کہ یہ عورت کی کہانی ہے۔


اس عورت نے نصیر کی زندگی کے ایک ایک پل کا سکون چھین کر اس کو تعلیم کی ڈگر سے بھی بھٹکا دیا تھا۔ یہ کوئی اور نہیں، اس کے چچا زاد فيضان کی خالہ زاد نرمین تھی، جس کا گهر وہاں قریب ہی تھا۔ نصير، فيضان کا کلاس فیلو تھا، لہذا اکثر اس کے گھر چلا جاتا اور دونوں ساتھ بیٹھ کر پڑهتے، تبھی وہاں نرمین بھی آجاتی، وہ کافی خوبصورت اور چونچال تھی... از خود ان کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھتی۔ یہ جان کر بھی کہ فيضان اس کا منگیتر ہے، وہ اب نصیر کی جانب راغب رہنے لگی اور اس کے ساتھ اشاروں کنایوں میں باتیں کرنے لگی ، جس پر نصير خفا ہوجاتا تھا۔ میں جانتی تھی کہ نصیر نیک سیرت تھا مگر جواں سال بھی تھا۔


جانے اس لڑکی میں ایسی کیا کشش تھی کہ اس کا دل نرمین کی طرف کھنچنے لگا۔ وہ چپکے چپکے نصیر کو تحفے دینے لگی، کبھی پرفیوم کبهی رسٹ واچ. وه فيضان کے خوف سے خاموش رہتا۔ نرمین موقع ملتے ہی اس کے بیگ میں یہ تحفے رکھ دیتی۔ گھر آکر بیگ کھولنے پر پتا چلتا کہ تحفے نرمین کی جانب سے دئیے گئے ہیں۔ نصیر نہ تو اپنے کزن کی دل آزاری چاہتا تھا اور نہ نرمین کی... لہذا ا س نے خاموشی والا رستہ چن لیا۔ اس لڑکی کی منہ زور محبت نے جہاں وقتی طور پر نصیر کو ڈسٹرب کیا اور اس کا دھیان بھٹکایا وہاں اس کو تعلیم سے بھی غافل کردیا۔ میں نے نصیر کا ایسا حال دیکھا تو اس کے ساتھ بات چیت کرنے میں پہلا کردی تاکہ اس کو صحیح رستے پر لاسکوں۔ مجھے خالہ عظمت کا خیال آتا جو ہم پر بھروسہ کرکے اپنا ہونہار سپوت ہمارے حوالے کر گئی تھیں۔ میں نصیر کی ہم عمر تھی، اس کے مسائل سمجھتی تھی جبکہ امی جان نہیں سمجھتی تھیں۔


میں کھانے یا چائے کے بہانے نصیر کو آواز دے کر گھر بلا لیتی۔ چائے ساتھ پینے بیٹھ جاتی، اس طرح ادهر ادهر کی باتیں کرنے کے بعد اس کا دل ٹٹولنے لگتی۔ اصل بات تو یہ تھی کہ میں بھی ان دنوں بے سبب اس میں دلچسپی نہ لے رہی تھی بلکہ وہ مجھے اچھا لگنے لگا تھا۔ باتوں باتوں میں وہ رفتہ رفتہ مجھ پر کھلنے لگا۔ بتایا کہ ایک لڑکی ہے نرمین، اس نے مجھ سے ٹوٹ کر محبت کی ہے، میرے کام کی لگن میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، مجھے اپنے چاروں طرف خوشیاں کھیلتی نظر آتی ہیں۔ ایک دن نصیر نے مجھے بتایا۔ میں جانتا تھا اس کی منگنی فیضان سے ہے۔ یہ الجهن مجھے اکثر پریشان کرتی تھی تب میں نے ایک دن اس کے ساتھ اس الجهن کو بانٹنے کا ارادہ کرلیا۔ فیضان اپنی والدہ کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ میں ان کے گھر پہنچا تو موٹرسائیکل کی آواز سن کر وہ آگئی۔ گیٹ میں نے ہی کھولا تھا۔ گھر میں کوئی نہ تھا سوائے ملازم کے، لہذا میں اس کو گھر کے اندر نہ لے گیا بلکہ پائیں باغ میں لے آیا اور ہم آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔


ملازم نے چائے کا پوچھا۔ باں بنا لاؤ۔ میں نے اس کو کہا اور نرمین سے باتیں کرنے لگا۔ نرمين صحيح صحیح بتادو کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ ہاں۔ اس نے جواب دیا۔ کہا۔ تم کو اس میں کوئی شک ہے؟ کوئی شک نہیں ہے۔ اچھا تو یہ بھی بتا دو کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو؟ وہ الفاظ میں کچھ کہنے کی بجائے کرسی سے اٹھی اور میرے قدموں میں جھک گئی۔ تبھی میں گھبرا گیا، اس کو اپنے قدموں سے اٹھایا اور کہا بس نرمين اب اس قدر تو نہ جھکو۔ نصیر نے بتایا۔ پھر گویا ہوا۔ اس روز بہت سوچ بچار کے بعد میں نے فیضان سے بات کی۔ میرے دوست تم کب نرمین سے شادی کررہے ہو؟ نرمین سے شادی؟ اس نے طنزیہ انداز سے کہایہ تم سے کس نے کہا ہے۔ میں اس سے کوئی شادی وادی نہیں کررہا۔ کیوں؟ کیا وہ تمہاری منگیتر نہیں ہے؟ تھی کبھی، مگر اب نہیں ہے کیونکہ وہ ٹھیک کردار کی لڑکی نہیں ہے۔ فیضان نے حقارت سے کہا۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ یقینا میرے اس سوال پر وه ناراض ہوجائے گا لیکن اس نے تو میرے یقین کے برعکس بات کہہ دی۔


اس نے مزید بتایا۔ نرمین تمہارے قابل بھی نہیں ہے، بھول کر بھی اس سے شادی کے بارے میں مت سوچنا... کیونکہ میرے اس کے ساتھ غلط رشتے رہ چکے ہیں اور اب اس نے ایک اور بدصورت، بدکردار مگر دولت مند شخص کو پھانسا ہوا ہے۔ اس کا دامن وہاں سے بھی میلاہو چکا ہے۔ کیا کہہ رہو فيضان؟ کیا تم کو اس پر بہت غصہ ہے، اس وجہ سے ایسا کہہ رہے ہو؟ ہرگز نہیں... تم میرے عزیز دوست ہو، تم سے میں کبھی دروغ گوئی سے کام لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میں جانتا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ تب میں خاموش ہوگیا۔ مگر اس خاموشی نے میرے روئیں روئیں میں آگ لگا دی ہے۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ کسی نے مجھے نہ سنبھالا تو... یہ کہہ کر نصیر نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔


میں یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ نرمین میرے سوا کسی اور کی ہوجائے گی لیکن فیضان کی زبانی اچانک اور غیرمتوقع طور پر پتا چلا کہ وہ کسی اور کی ہونے والی ہے، اور وہ بھی ایک ایسے شخص سے جو بدقماش اور بدصورت ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ جو میرے قدموں پر جھک گئی، کیا وہ اب یہ نیا روپ دکھانے والی تھی۔ وہ تو اب بھی میری محبت کا دم بھرتی تھی مگر فيضان وہ بھی تو مجھ سے محبت کرتا تھا، وہ کیسے جھوٹ بول سکتا تھا۔ اب میں عجب مخمصے میں ہوں، کیا کروں کیا نہ کروں... لگتا ہے کہ نرمین کے عشق میں پاگل یا مجنوں ہوجاؤں گا۔ یہ کہہ کر نصیر نے میرا دوسرا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ماہم پلیز تم ہی مجھے اس دوزخ میں گرنے سے بچالو۔ میں نے آنکھیں موندلیں کہ اشک میرے دل کی بات اس پر آشکارا نہ کردیں، ہونٹ سی لئے کہ میرا کوئی فقره مجھے اس کی نگاہوں میں رسوا نہ کر ڈالے۔


میں تو بیوه عورت تھی، بڑی مشکل سے اپنے سفید، بے رونق مگر بے داغ آنچل سنبهالے ہوئے تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں دل تھامے بیٹھی رہی۔ اکیلے میں بھی فریاد نہ کی کہ کہیں میری آہ اس کا سکون مزید برباد نہ کرڈالے۔ نصير کئی روز بیمار رہا... امی اس کی دیکھ بھال کرتیں اور میں یخنی دلیہ، چائے وغیرہ بناکر دیتی۔ کچھ دنوں بعد وہ کچھ بہتر ہوا۔ امی اسے اپنے گھر لے آئیں، تب مجھے نصیر نے بتایا کہ نرمین کی شادی ہوگئی ہے۔ فیضان نے صحیح کہا تھا۔ ادھر مجھے ادهر فيضان کو بے وقوف بنانے والی یہ شاطر لڑکی بالآخر ایک عیاش دولت مند کی جھولی میں جاگری۔ اس وقت تک مجھے نصیر سے محبت ہوچکی تھی۔ اگر درمیان میں نرمین نہ آجاتی تو میں اس کے ساتھ دلی طور پر نکاح ثانی کے لئے راضی ہو چکی تھی کیونکہ میری امی اور خالہ عظمت کی بھی یہ ہی خواہش تھی۔ موجوده صورت حال میں وہ چپ سادھے تھا اور میں دم سادھے تھی۔ میں نے اس کے غم سے سمجھوتہ اور اپنی خوشیوں سے توبہ کرلی، میں تنہا اپنے درد سمیٹتی رہی ۔


چھپ چھپ کر آنسو کو پونچھتی تھی اور کسی سے کچھ نہ کہتی تھی۔ امی بیمار پڑگئیں۔ حالات نے کروٹ لی۔ نصیر اچانک اسلام آباد چلا گیا جہاں اس کی ملاقات کسی تقریب میں دوباره نرمین سے ہوگئی تو وہ اس کو اپنے گھر لے گئی۔ پرانی دوستی نئے مراسم میں تبدیل ہوگئی، سویا ہوا زخم پھر سے جاگ اٹھا، ٹوٹے خواب پھر سے جڑنے لگے اور امنگیں سر اٹھانے لگیں۔ نصیر نے ایک روز نرمین سے پوچھ ہی لیا کہ کیا فیضان سے اس کی قریبی قربت تھی جیسا کہ اس نے بتایا تھا۔ وہ بولی۔ ہاں یہ سچ ہے، قربتوں کی سبھی حدوں کو پار کرکے بھی میں اس سے وفا کا بندھن نہ نباہ سکی۔ وہ سچ کہتا ہے۔ غلطی میری ہے لیکن غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہی ہیں۔ نرمین اپنے شوہر سے نفرت کرنے لگی تھی۔ لالچ کی سزا کے دائرے کو پھر سے صدق دل سے چاہنے والے نصیر کے گرد پھیلا دیا اس نے التجائیں کرنے لگی، محبت کی قسمیں دیں۔


قدموں میں گرنے کا وہ لمحہ یاد دلا دیا۔ شوہر نے نفرت سے اس کو دھکیل کر دوباره نصیر جیسے مخلص چاہنے والے کی قدموں میں الا ڈالا تھا۔ نرمین ایسی شاطر عورت کا جادو دوبارہ کام کر گیا۔ اب اس کی خدمتیں تهی اور نصیر کی بے خودی تھی۔ اس کی زلفیں تھیں نصیر جن کی مہک سے مدہوش ہوا جاتا تھا۔ وہ پھر سے ایک دسرے کے دوست و رفیق بن گئے تھے۔ نرمین نے عدالت میں خلع کا کیس ڈال دیا۔ وہ طلاق لے کر نصیر سے نکاح کرنا چاہتی تھی۔ غرض کہ باسی محبت کا جادو کام کرچکا تھا اور نصير اس میں جکڑ گیا تھا، جیسے کہ کوئی ننها منا سا پتنگا مکڑی کے جالے میں جکڑا جاتا ہے۔ نرمین کا شوہر کوئی ایسا ویسا آدمی نہ تھا۔ نہایت بارسوخ اور باحیثیت، اقتدار میں اس کی جڑیں گہری اور وہ ایک مضبوط ستون کی مانند تھا۔


اس نے نصیر کے معاشی رخ پر کڑی ضرب لگائی، اس کو ایسے کیسوں میں پھنسایا کہ وہ کنگال ہوگیا۔ ان کا آبائی مکان اور زرعی زمین تک بک گئی اور جب نرمین کو علم ہوا کہ اب وہ اب دو کوڑی کا محتاج انسان ہے تو اس نے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ بدل دیا۔ وہ منہ موڑ کر کسی اور سمت مڑگئی۔ اگر نصیر ایسے بلند کردار، باخلاق بندے نے پہلی بار محبت کے سراب کے پیچھے دوڑتے ہوئے دل کے سکون کو پانے کی خاطر کسی کے گھر کو آگ لگانے کی ٹھان لی تھی، تو نرمین کے شوہر نے بھی اس کو ایسی معاشی مار دی کہ مقابلے کی طاقت اس سے جاتی رہی۔ لٹا پٹا نصیر ہمارے در پر آیا اور میری ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ خالہ عظمت نے جھولی پھیلا کر ہم سے سہارا مانگا۔ ہم خود سہارے کے متمنی تھے...


ان کو کیا سہارا دیتے، میرا دل رو رہا تھا... میں نصیر سے منہ موڑ چکی تھی، اب بھی منہ پھیر لینا چاہتی تھی مگر ماں نے

میرا دامن پکڑ لیا اور التجا کی کہ میں بیمار ہوں۔ نصیر کا رشتہ مت ٹھکرانا... آج میری سانس چل رہی ہے، کل مر گئی تو تیرا کون ہے جو تجھے سنبھالے گا... خالہ عظمت میرے گلے لگ کر رو رہی تھیں، میں بھی رو رہی تھی۔ بالاخر دل نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا کہ اب چپ رہو جیسے اتنے برس چپ رہی ہو، ماں کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں، ان کو آخری خوشی دے دو اور میں نے ماں کا کہا مان لیا۔ نصیر کا اجڑا ہوا دل اور میرا گهر بس گیا۔


Post a Comment

0 Comments