Search Bar

Sunehrey Khawaboun Ki Chahat Main | Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu Story

 

Sunehrey Khawaboun Ki Chahat Main | Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu Story

جب بھی خالہ کے گھر جاتی، وہ اور ان کی لڑکیاں مجھ کو حسرت سے دیکهتیں کیونکہ میرا لباس عمده ہوتا اور ہم ایک پوش علاقے میں رہتے تھے جبکہ خالو معمولی دکان دار تھے۔ میرے والد شروع سے بزنس کرتے تھے اور ابتدا سے ہم بنگلے میں رہتے تھے۔ امی کو زندگی کا سب عیش و آرام نصيب تها۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ ایک بہن خوشحال گھر میں تو دوسری متوسط گھرانے میں بیاہی گئی، تبھی جب خالہ ہمارے گھر آتیں، حسرت سے ٹھنڈی آه بهرتیں، کہتیں۔ اگر سر صاحب میرے شوہر کو حصے کی جائداد ہمیں دے دیں تو بیچ کر ہم بھی بنگلے میں رہ سکتے ہیں مگر بڑے میاں تو سانپ بن کر جائداد پر بیٹھے ہیں، کب اس جہاں سے شدهاریں گے اور ہمارے بھی دن پھر جائیں گے۔ جانے کیسی گھڑی تھی کہ ان کی آرزو پوری ہوگئی۔ بڑے میاں سدھار گئے اور خالو کے حصے کی جائداد ان کو مل گئی۔ جائداد خاصی قیمتی تھی۔


 خالہ نے اپنے شوہر کے پیچھے لگ کر بکوا دی۔ پرانا گھر بھی فروخت کیا اور ہمارے علاقے میں مکان خرید لیا۔ خالو کو بھی اسی طرف جنرل اسٹور کھلوایا۔ وه آب خوش اور مطمئن تھیں، اپنی دانست میں معیار کی زندگی گزارنے کو پوش علاقے میں آبسنے میں کامیاب ہو گئی تھیں یہاں آتے ہی ماں بیٹیاں علاقے بھر میں گھومنے پھرنے لگیں۔ ان کی لڑکیوں نے کچھ ایسی سہیلیاں بھی بنا لیں جن کا چال چلن اچها نہ تھا۔ نئی نئی دولت اور آزادی ملی تھی، بنا سوچے سمجھے ہر ایک سے راه و رسم بڑهاتی گئیں۔ ہمارے گھر کے نزدیک ہی ایک آفیسرز کالونی تھی۔ خالہ اور ان کی بیٹیوں کا وہاں بھی آنا جانا ہوگیا کیونکہ ان کو اونچی سوسائٹی میں شامل ہونے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ جب بھی کوئی نیا آفيسر تبادلہ ہو کر کالونی میں آیا، انہوں نے اس کی فیملی سے رسم و راہ بڑھانے میں دیر نہ کی۔ خالہ کا خیال تھا کہ اس طرح ان کی تینوں لڑکیاں بیوروکریٹ سوسائٹی میں بیاه جائیں گی۔ امی جان کی وجہ سے کافی دن ان کی طرف نہ جاسکی۔ پیپر ختم ہوئے تو سوچا کہ خالہ کے گھر کا چکر لگا آئوں۔


 میں تو حیران رہ گئی کہ نغمہ، عظمی اور ستاره پہلے جیسی سیدھی سادی لڑکیاں نہ رہی تھیں۔ وہ نئے فیشن کے کپڑے پہنے تھیں اور تینوں نے بال بھی بیوٹی پارلر سے بنوائے ہوئے تھے۔ خالہ نے بھی ایک ماڈرن خاتون کا ژوپ دھار لیا تھا۔ پہلے جیسی گھریلو خاتون نہ ډکھ رہی تھیں۔ وہ بالکل ہی بدل گئی تھیں۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ آفیسرز کالونی میں اکثر ان کا آنا جانا رہتا ہے، | بہت سے گھرانوں سے جان پہچان ہوگئی ہے۔ آئے دن ان کے گھروں میں پارٹیاں ہوتی ہیں جن میں ان کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ نغمہ اور عظمى آفیسرز کی دختران کے بارے باتیں بتانے لگیں جو ان کی سہیلیاں بن گئی تھیں اور سیر و تفریح میں ان کو بھی ساتھ لے جاتی تھیں۔ نمود و نمائش کی دنیا میں رہتے ہوئے گویا وہ دولت کی چکاچوند سے متاثر ہو چکی تھیں۔ نغمہ نے مجھے بتایا کہ ہماری پھوپی ثوبیہ میرا رشتہ اپنے بیٹے سے پکا کرچکی تھیں۔ سو اب شادی کی تاریخ لینے آئی تھیں مگر مما نے منع کر دیا کہا کہ تم اس رشتے کو بھول جائو۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کسی آفیسر سے کروں گی۔ میں ششدر رہ گئی کیونکہ پہلے یہی میری خالہ زاد اپنے پھوپی زاد سے منگنی ہونے پر نہال تھی۔ بات بات میں منگیتر کے ذکر سے کھلی پڑتی تھی۔


 یہاں آکر اس کے خیالات بھی اپنی ماں جیسے ہوگئے تھے۔ بے شک خالہ کی خواہش بری نہ تھی مگر امی کہتی تھیں کہ اگر انسان اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں سے میل جول بڑھائے تو اسی میں عزت قائم رہتی ہے۔ وقت اور پیسے کے بھی زیاں نہیں ہوتا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اپنی طاقت سے زیاده اڑان بھرنے والے منہ کے بل گر جاتے ہیں مگر خالہ نے کبھی اس نکتے کو نہیں گردانا۔ وه أونچی سے اونچی اڑان بھرنے میں لگی رہیں اور بے دریغ رقم خرچ کر کے بیگمات سے دوستیاں بنانے لگیں۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ان خواتین میں کچھ اچھی بھی تھیں جو میری خالہ کے خلوص کی قدر کرتی تھیں مگر زیادہ تعداد ایسی عورتوں کی تھی جو اپنے شوہروں کے عہدوں کے غرور میں خالہ کو برابر کا درجہ دینے پر تیار نہ تھیں۔ 


وہ ان کے قیمتی تحفے ان کے سامنے تو رکھ لیتیں، بعد میں بے وقعتی سے ادھر ادھر پھینک دیتیں۔ خالہ ان کی دعوتیں کرتیں۔ ان خواتین کے شوہروں کے دوسرے شہروں تبادلے ہو جاتے تو بھول کر ان کو خالہ کی یاد نہ آتی تھیں۔ امی اور خالہ سگی بہنیں تھیں لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ امی بہت سوچ سمجھ کر کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی تھیں کیونکہ آفیسر گھرانوں میں بھی کچھ بہت اچھی خاندانی بیبیاں ہوتی تھیں جو اچھے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو نباہنا جانتی تھیں اور خلوص کی قدر بھی کرتی تھیں تاہم ایسی بہت کم ہوتیں۔ پانچ برس اسی تگ و دو میں لگ گئے مگر کسی آفیسر گھرانے سے خالہ کی کسی بیٹی کے لئے کوئی رشتہ نہ آیا۔

البتہ اب وہ اس کالونی میں خاصی جانی پہچانی جاتی تھیں۔ کالونی میں کئی فیملیاں آئیں اور گئیں، کیئوں سے دوستی بھی ہوئی، دعوتیں ہوئیں، خالہ نے بھاری تحفے بھی ان بیگمات کی نذر کئے مگر جب ان کے شوہروں کے تبادلے ہوگئے، جاتے جاتے اپنی جگہ آنے والیوں سے کہہ گئیں کہ ایک بے وقوف عورت خولہ بھی ہے، اس کو افسروں کی بیگمات سے دوستی کرنے کا بہت شوق ہے۔ زیادہ نہ نہ لگنا ورنہ گلے پڑ جائے گی۔ وقت گزرتا گیا۔ خالہ نے اپنے میاں کی دکان کا کثیر سرمایہ ان افسرشاہی بیگمات سے تعلق بنانے میں لٹا دیا مگر نہ تو خالہ کا ’’اسٹیٹس‘‘ بڑھا اور نہ ان کی لڑکیوں کو بیاہنے کسی آفیسر کا رشتہ آیا۔ یہاں تک کہ ڈكان بے تحاشا خرچوں کا بوجھ برداشت نہ کرسکی اور بیٹھ گئی۔ خالو کا دیوالیہ نکل گیا اور وہ بے روزگار ہوگئے۔

دکان کو تالا لگا، گهر بیٹھ رہے۔ بلاشبہ جو عورت اپنے شوہر کے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرے گی، بالآخر بھوکی مرے گی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اب خالہ سنبھل جاتیں اور کچھ ہوش کے ناخن لیتیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بجائے اپنی غلطیوں کا ادراک کرنے کے وہ شوہر کو برا بھلا کہتی تھیں۔ ایک دن ان کی نند آئیں۔ خالہ کو سمجھایا کہ بھابی مان جائو۔ میرا لڑکا نیک ہے، ایف اے پاس ہے تو کیا ہوا، اپنی ورکشاپ ہے، اچها كما لیتا ہے۔ تمہاری لڑکی کو کسی شے کی کمی نہ ہوگی۔ ہم اپنے ہیں، دکھ سکھ ہمارے سانجھے ہیں۔ بڑی حیثیت والوں کے پیچھے نہ بھاگو۔ وہ تم کو گھاس نہ ڈالیں گے۔ اپنوں کا رشتہ قبول کرلو تو اچھی نبھ جائے گی۔

یہ بڑے گھرانوں کے جلوے دیکھ چکی تھیں۔ نند کی باتیں حقیر لگیں۔ کہا کہ تم کیا جانو دنیا کیا ہے؟ تم نے دنیا دیکھی جو نہیں۔ نانا کی وراثت سے حصہ ملا تو ورکشاپ بنا لی ورنہ تمہارے گھر میں کیا ہے۔ تمہارا لڑکا معمولی سا مستری ہی تو ہے۔ سوسائٹی میں ان جیسوں کی کیا عزت۔ نند، بهاوج کی باتوں سے دل پر چوٹ کھا کر چلی گئی۔ بس اتنا کہا کہ خدا تم کو عقل دے۔ دوسروں کے بلوریں پیمانے دیکھ اپنے مٹی کے برتن نہیں توڑ دیا کرتے۔ گھر میں تمہارے کھانے کو نہیں رہا ہے اور خواب ابھی تک محلوں کے دیکھ رہی ہو۔ مجھے تو ڈر ہے کہ ان خوابوں کے پیچھے تمہاری لڑکیاں بن بیاہی نہ رہ جائیں۔ چار سال گزر گئے۔ مالی پریشانیاں بڑھتی گئیں۔ خالہ کی لڑکیوں کے رشتے آفیسرز کالونی سے تو کیا آتے، محلے سے بھی کسی نے بات نہ پوچھی۔ وہ مایوسی کا شکار رہنے لگیں۔ عقل ابھی تک نہ آئی تھی۔ عقل اس وقت آئی جب بہت سا قرضہ چڑھ گیا اور قرض کی بھاری گٹھری سے کمر جھکنے لگی۔ خالہ کے گھر کے نزدیک زرخان کا گھر تھا۔

خالہ ان کے گھر بھی آتی جاتی تھی، اس کی بیوی سے بھی دوستی تھی جو اخلاق والی عورت تھی۔ خالہ اس سے ضرورت پڑنے پر کچھ روپے قرض لے آتیں۔ جب کئی بار ایسا ہوا، اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے شوہر سے تذکرہ کیا تھا، تم اس سے قرض لے کر کوئی کام کا سوچو. وہ زیادہ رقم بھی قرضہ کے طور پر دے گا لیکن میعاد پر واپس کرنا ہوگا اور ہر ماہ کچھ منافع بھی تم کو اس رقم پر ادا کرنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں زر خان سود پر قرضہ دیتا تھا۔ جب جان پر بن گئی، خالہ نے زر خان سے سود پر رقم ادھار لینی شروع کر دی۔ ایک روز آیا کہ خان نے قرضہ کی ادائیگی کا تقاضا شروع کردیا۔ خالہ نے مہلت مانگی، سود کے ساتھ مہلت کی مدت بھی بڑھا دی گئی۔ وہ میعاد بھی گزر گئی اور خالہ قرضہ نہ لوٹا سکیں، کیونکر لوٹاتیں جبکہ ذریعہ آمدنی کوئی تھا نہیں اور خالو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیوی کی عقل کا تماشا دیکھ رہے تھے۔

نوبت یہاں تک پہنچی کہ خان نے روز ہی گر بجانا شروع کر دیا۔ قرض کا تقاضا کر کے ان کا جینا حرام کر ڈالا۔ خالہ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں۔ ایک روز خان نے سخت لہجہ میں کہا۔ سارا قرضہ سود کے ساتھ واپس کردو، اب اور مہلت نہیں ہے۔ ہفتہ کے اندر انتظام کردو ورنہ... ورنہ تم کیا کرو گے؟ تم ہی بتائو خان بھائی کہ میں کیا کروں، میرے پاس تم کو واپس لوٹانے کو ایک روپیہ نہیں ہے اور میاں جی بھی گھر میں بیکار بیٹھے ہیں۔ کوئی ذریعہ آمدنی ہو تو روپیہ آئے۔ ہے۔ اچها خالہ ابھی تو میں نے پشاور جانا ہے۔ تم سوچو. میں پشاور سے واپس آکر بات کروں گا۔ پڑوس میں سے کسی نے خالہ کی نند کوخبر کی کہ پڑوسی خان قرضہ کا تقاضا کرنے آیا تها، أونچا اونچا بول گیا ہے۔ وہ بیچاری ایک بار پھر اپنے بھائی کی پریشانی کا سوچ کر آئی اور بھاوج سے بولی۔ اب بھی وقت ہے لڑکی کا رشتہ میرے بیٹے کے لئے دے دو ورنہ تمہارا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔


بسم الله کرو، تمہارے مالی حالات کچھ تو میرا لڑکا سنبھال لے گا۔ قرض پر کب تک گهر چلائو گی، جبکہ قرض خواہ کا ایسا حال ہے روز کر بجانے آجاتا ہے اور محلے والے اس کی آواز سنتے ہیں، یہ عزت کی بات نہیں ہے۔ اب کی خالہ کچھ ڈھیلی پڑ گئیں کیونکہ وہ خان بھائی کے اونچا بولنے سے ڈر گئی تھیں۔ ہامی بھر لی۔ یوں نغمہ کا نکاح خاموشی اور سادگی سے ہوگیا۔ ایک کا بوجھ ہلکا ہوا مگر دو کا ابھی باقی تھا۔ دو ماه بعد زرخان واپس لوٹ آیا۔ آتے ہی اس نے پھر سے رقم کا تقاضا کر دیا۔ تھوڑا سا جھگڑا بھی ہوا۔ امی کو پتا چلا، انہوں نے کچھ رقم ادا کردی مگر قرضہ بہت تھا اور رقم دو ماه بعد دینا قرار پائی۔ اس کے بعد نجانے کیا معاملہ خان سے طے ہوگیا کہ خالہ دوباره | امی کے پاس روپے لینے نہ آئیں۔ تبھی میری شادی ہوگئی اور میں اپنے شوہر کے ہمراہ پشاور آگئی۔ پشاور میں جس علاقے میں ہمارا مکان تھا، اسی جگہ تیسرے گھر ایک نئی دلہن آگئی۔ محلے کی عورتیں اس کو دیکھنے گئیں۔ جو عورت بھی دلہن دیکھ کر ہمارے گھر آتی، کہتی کہ ہائے نئی دلہن کتنی چھوٹی سی ہے گڑیا لگتی ہے


، بڑی عمر والے سے شادی ہوگئی ہے۔ رحم آتا ہے اس معصوم کو سوكن پر بیاہ دیا ہے۔ لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سن کر مجھ کو جستجو ہوئی کہ میں بھی دیکھوں اس کو. ہم یہاں نئے آئے تھے۔ کسی سے واقفیت نہ تھی کہ ان کے گھر جاتی اور دلہن دیکھتی۔ سو میں نہ گئی کہ خود نئی دلہن تھی۔ کچھ دن گزرے کہ ہمیں چھوٹی سی دلہن والے گھر سے بلاوا آگیا۔ کوئی تقریب تھی، میری ساس راولپنڈی سے آئی ہوئی تھیں۔ کہنے لگیں۔ چلو ان کے یہاں تمہارا میل جول کرا دوں گی تو اڑوس پڑوس سے واقفیت ہو جائے گی۔ ہم مقررہ وقت پر وہاں گئے، اس دلہن کو بھی دیکھا۔ تیرہ سال کی لگتی تھی بالکل گڑیا جیسی، مگر میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ وہ کوئی اور نہ تھی بلکہ میری خالہ کی سب سے چھوٹی بیٹی ستاره تهی۔ معصومیت سے ادهر کبھی ادھر دیکھتی تھی۔ محفل میں وہی سب کی مرکز نگاه بنی ہوئی تھی۔ ہم تھوڑی دیر وہاں بیٹھے۔ میں نے ستاره سے بات کی مگر کوئی سوال نہ کیا کیونکہ اس کی ساس نندیں قریب موجود تھیں۔ واپسی پر ڈیوڑھی میں زر گل مل گیا۔ میں حیران رہ گئی۔ میری ساس نے کہا کہ خان تم نے اتنی چھوٹی عمر کی بچی سے دوسری شادی کرلی۔ وہ طنزیہ بولا۔


بالکل ابھی عمر ہے تو بے شک گڑیاں کھیلنے کی مگر کچھ دنوں بعد تو بڑی ہو جائے گی۔ تم نے دوسری شادی کیوں کی خان، تمہارے بچے ہیں، بیوی بھی اچھی ہے، خوبصورت ہے۔ مجبوری تھی تو کی ہے۔ دراصل اس کے ماں باپ نے میرا بہت سا قرضہ دینا تھا۔ وہ نہیں دے سکے تو میں نے کچھ تو لینا تھا۔ ان کی لڑکی کا ہاتھ مانگ لیا۔ مفت میں کیسے قرضہ معاف کردیتا۔ میں نے کہا سب سے چھوٹی لڑکی کا رشتہ دے دو ورنہ بندوق کے زور سے رقم واپس لوں گا۔ انہوں نے ڈر کر اپنی لڑکی کی مجھ سے شادی کر دی اور یہ تو أصول کی بات ہے۔ رقم کے بدلے میں نکاح کیا ہے۔ ان کی لڑکی کو میں ویسے ہی تو اٹھا کر نہیں لایا ہوں۔ اس کا موڈ بگڑتے دیکھ کر ہم گھر آگئے۔ اس روز مجھ کو خالہ کی حماقتوں اور ستاره کی قسمت پھوٹنے پر بہت دکھ ہوا۔ نغمہ اور عظمی کی شادیاں ہوگئی تھیں، تبھی خالہ کو ستاره کا رشتہ زر خان کو دینا پڑا۔ میں اکیلی نہ رہ سکتی تھی تو میری ساس ہمارے ساتھ رہ گئیں۔ ان کے رہنے سے سہارا ملا. میں نے بتایا کہ ستاره میری خالہ زاد ہے، وہ اب مجھ کو اس کے گھر جانے سے نہ روکتی تھیں۔ کہتی تھیں بیٹی جائو ستاره کو دیکھو۔ اس کو تم سے ڈھارس ملے گی۔


پشاور میں ستاره کو زر خان نے اپنی والدہ اور بڑی بھابی کے ساتھ رکھا ہوا تھا اور پہلی بیوی اور بچوں کو راولپنڈی میں، جہاں پڑوس میں اس کا گهر خالہ کے گھر کے ساتھ تھا۔ بعد میں خالہ کے حالات اتنے خراب ہوگئے کہ وہ مکان اور دکان فروخت کر کے درباره پرانے محلے چلے گئے۔ مجھے حیرت یہ تھی کہ خالہ ستاره سے ملنے پشاور نہ آتی تھیں۔ ستاره بھی بہت کم ان کے پاس جاتی تھی۔ تین سال بعد اس کو الله نے بیٹی دی۔ وہ بچی کو نہیں سنبھال سکتی تھی۔ اس کی ساس ایک اچھی عورت تھی۔ اس نے بچی کو سنبھال لیا۔ ڈیڑھ سال بعد ایک اور بچی کو ستاره نے جنم دیا۔ اب وہ دو بچوں کی ماں تھی۔


زر خان ہر ہفتے کے دو تین دن پشاور ستاره کے پاس رہ کر جاتا۔ اس کا اپنا ٹرک تها اور فروٹ کا کاروبار کرتا تھا۔ ساتھ ہی سود پر قرضہ بھی دیتا تھا۔ سود میں برکت نہیں اور سود انسان پر مصیبت لاتا ہے۔ یہ بات سچ ثابت ہوئی جب شنا کہ قرضہ وصول کرنے پر خان کا کسی سے جھگڑا ہوگیا اور وہ آدمی بری طرح زخمی ہوگیا، تبھی خان کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ تھانے میں اس پر کچھ مار پیٹ ہوئی۔ اس کے سر پر ایسی چوٹ لگی کہ دماغ پر اثر ہوگیا اور وہ پہلے جیسا نارمل انسان نہ رہا۔ اب وہ ستاره پر بھی تشدد کرنے لگا۔ اس کو ساس اور کبھی جیٹهانی بچالیتی تھیں۔ ایک دن میں گئی تو دیکھا کہ ستاره کی گردن سوجی ہوئی تھی اور وہ چاد ر اوڑھے لیٹی تھی۔


میں نے خیریت پوچھی۔ اس کی ساس بولی بیٹی کیا بتائوں۔ جب سے زر خان سے تفتیش ہوئی ہے اس کا تو جیسے دماغ ہی الٹ گیا ہے، بہت بدل گیا ہے۔ ستاره پر بھی تشدد کرنے لگتا ہے، مار پیٹ کرتا ہے۔ یہ بچاری سہم جاتی ہے۔ بچی تو ہے، ڈر کر مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ بڑی مشکل سے میں اس جھگڑے کو سنبھالتی ہوں۔ کسی دن اس کو دورہ پڑنے کے دوران مار ہی نہ دے، چاہتی ہوں کہ اس کو میکے بھجوا دوں مگر زر خان اس پر راضی نہیں ہوتا۔ چلاتا ہے مجھ پر کہ میں نے قرضے کے بدلے لی ہے اس لئے یہ میکے نہیں جا سکتی۔ پریشان رہتی ہوں کیا کروں۔ ستاره بھی پریشان ہے۔ دو بچیاں ہوگئی ہیں، اس وجہ سے پھنس گئی ہے ورنہ تو میں خود قرضہ کی رقم بیٹے کو دے کر اس کی جان چھڑوا لیتی مجھے اتنا دکھ ہوا کہ آنسو نکل آئے۔ خالہ کو کوسنے لگی جس نے بیچاری ستاره کو جہنم میں پھنسایا تھا۔ ایک روز زر خان غصے میں آیا اور ستاره سے کہا کہ تو گھر پر پڑی مفت کا کھاتی ہے، چل میرے ساتھ اور سیب توڑ کر دے۔ وہ اس قدر خوفزده ہوگئی، جوتا بھی پائوں میں نہ ڈالا اور نہ سر پر چادر لی۔


ایسے ہی اس کے ساتھ ہولی۔ باغ میں خان سیب توڑنے لگا اور وہ ٹوکریوں میں بھر کر ٹرک کے پاس رکھنے لگی۔ تبھی وہاں ایک شخص آگیا۔ اس نے کہا کہ تم یہ بھاری ٹوکریاں أنها سکتی ہو؟ تم تو نازک سی لڑکی ہو۔ میں لڑکی نہیں ہوں۔ دو بچوں کی ماں ہوں اور تم مجھ سے دور چلے جائو۔ خان نے دیکھ لیا تو میرا گلا دبا دے گا۔ میں اس کی بیوی ہوں۔ تم اس کی بیوی ہو اور اس حال میں تمہارے سر پر چادر ہے اور نہ پائوں میں جوتی ہے۔ میں تو تم کو کوئی غریب لڑکی سمجھا تھا کہ جو مزدوری کرنے آئی ہو۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم خان کی بیوی ہو۔ ہاں خان کا دماغ صحیح نہیں رہا ہے۔ وہ بہت شکی اور ظالم ہوگیا ہے۔ اس نے مجھ سے بات کرتے دیکھ لیا تو تم کو بھی نہ بخشے گا۔ تم جا کر میری ساس سے کہو کہ وہ چادر اور میرے چپل بھجوا دے۔ وہ آدمی چلا گیا۔ وہ زر خان کا ہی جاننے والا تھا۔ اس نے آ کر گھر کا دروازه بجایا اور ساس کو پیغام دیا۔ تب جیٹھ باغ میں ستاره کی چادر اور جوتے لے کر پہنچا۔ وہاں عجب نظاره تها۔ زر خان ستاره پر چلا رہا تھا کہ تم بغیر چادر ننگے پائوں میرے پیچھے باغ میں کیوں آئی ہو۔ میں تم کو جان سے مار دوں گا۔ کیا ایسی حالت میں عورتیں گھر سے باہر نکلتی ہیں۔


جیٹھ نے مداخلت کر کے خان کو قابو کیا اور ستاره کو گھر لے آیا۔ خان کا اسی بڑے بھائی نے علاج کرایا کیونکہ وہ پڑھا لکھا تھا۔ اس نے ستاره کو اس کے والدین کے گھر پہنچا دیا جب تک کہ خان علاج کے بعد بہتر نہیں ہوگیا، ستاره گهر واپس نہ گئی۔ اس کی زندگی تو برباد ہو ہی گئی۔ خالہ کی منجھلی بیٹی عظم بھی ایسی ہی بے جوڑ شادی سے ڈکھوں میں دهکیلی گئی اور نہایت غیر مطمئن زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی۔ صرف بڑی بیٹی نغمہ جو پھوپی کی بہو بنی، وہی خوش و خرم آباد تھی، اسی نے بعد میں بوڑھے ماں اور باپ کو سنبھالا تھا۔  


Post a Comment

0 Comments