Search Bar

Yeh Batien Batane Ki Nahi Hotien Teen Auratien Teen Kahaniyan New Urdu Story

 

Yeh Batien Batane Ki Nahi Hotien  Teen Auratien Teen Kahaniyan


بلاشبہ لوگ جنوں بھوتوں کے قصوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ باتوں باتوں میں خاص طور پر خواتین کا تو یہ عام موضوع رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض خواتین اپنے بچوں کو جنوں بھوتوں کا نام لے کر ڈراتی ہیں۔ ہماری دادی نے بھی انوکھا طریقہ اختیار کررکھا تھا۔ جب ہم بچے شرارت کرتے، شور مچاتے یا ان کو سونے نہ دیتے، وہ اپنی سونٹی کھڑکاتیں اور بلند آواز سے کہتیں۔ آجا بلا ان کو لے جا... یہ باز نہیں آرہے۔ پھر منہ سے خود بری سی آواز نکالتیں اور کہتیں۔ دیکھو دیکھو وہ آگئی ہے بلا۔ دروازے کے پیچھے چھپ رہو، میں اس کو سونٹی سے بھگاتی ہوں ورنہ کمرے کے اندر آجائے گی اور تم لوگوں کو کھا جائے گی۔


تب ہم ڈر کر چپ ہوجاتے اور ان کے پیچھے چھپنے لگتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان دنوں میری عمر بمشکل پانچ برس ہوگی۔ میں ابھی اسکول بھی نہیں جاتی تھی۔ اس روز مجھ سے ڈیڑھ سال بڑی میری بہن ندا نے میرے ہاتھ سے بسکٹ چھین لئے تو میں نے رونا شروع کردیا۔ تب امی اور دادی اماں نے مجھے کافی منایا کہ ابھی تم کو اور بسکٹ منگوا دیں گے، چپ ہوجائو مگر میں چپ نہ ہوئی، روئے جاتی تھی۔ صبح سے بہت ضد کر رہی تھی جو چیز امی کھانے یا بہلانے کو دیتیں، اٹھا کر پٹخ دیتی، تب تنگ ہوکر امی دادی کے کمرے سے چلی گئیں اور مجھے فرش پر پٹخ گئیں۔ گھنٹہ بھر تک میری روں روں نے دادی کی اس قدر سما خراشی کی کہ وہ زچ آگئیں۔ مجھے بسکٹ بھی منگوا کر دئیے، میں نے مسل کر پھینک دئیے اور بسکٹوں کا ماتم چھوڑ، اب میں اس رٹ پر آگئی کہ ابا سیالکوٹ گئے ہیں تو مجھے کیوں نہیں لے کر گئے۔ صبح کی مچلی اور دوپہر ہوگئی۔ 


امی کھانا پکانے میں لگی تھیں، وہ مجھ کو منانے نہیں آئیں اور دادی بے چاری منا منا کر تھک گئیں۔ میری آنکھوں سے آنسو خشک ہوچکے تھے مگر روں روں جاری تھی۔ دادی نے مٹھائی لاکر دی۔ باہر لے چلنے کو کہا۔ میں نہ مانی۔ طوطے کی طرح ایک ہی جملہ، ابا کے ساتھ جائوں گی۔ چونکہ زیادہ تر دادی کے پاس رہتی تھی لہذا ان کے کمرے سے بھی نہ نکلتی تھی اور خاموش ہونے کا نام بھی نہ لیتی تھی، تب وہ بے چاری کیا کرتیں۔ ابھی یہ ایپی سوڈ‘‘ جاری تھا کہ میرا سات سالہ بھائی بھی اس منظر میں کود پڑا اور اس نے اچھلنا کودنا اور شور مچانا شروع کردیا۔ اس اچھل کود میں میری بہن ندا أ دهمکی اور دادی کے کمرے کو ہم سب نے مل کر میدان کارزار بلکہ نقارخانہ بنا ڈالا۔


وہ بے چاری اپنے پلنگ سے اتریں اور لکڑی کی سونٹی سنبھالی کہ آج میں تم لوگوں کو سیدھا کردوں گی، تینوں نے مل کر میرا جینا حرام کردیا ہے۔ خدا جانے ان کی ماں نے کیوں اپنے کان بند کررکھے ہیں۔ یہ کہتی وہ ہاتھ میں سونٹی پکڑے پہلے میرے بھائی کی طرف لپکیں، اس نے ایسی چھلانگ لگائی کہ دودھ کا پتیلا جو ان کے سرہانے تپائی پر دھرا تها، الٹ گیا۔ وہ تو باہر نکل گیا۔ ہم دونوں بہنیں کمرے میں ہی تھیں۔ دادی نے ہم کو لکڑی سے پیٹنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ زبانی کلامی رانے کو آواز بلند کی۔ کالی بلا أجا... ان دونوں کو لے جا۔ یہ باز نہیں آرہیں۔ تبھی ندا | نے جو چھ ساڑھے چھ برس کی ہوگی،



میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتی ہوئی برآمدے میں لے چلی کہ ماں کی عدالت میں پیش کرے گی۔ جونہی ہم دادی کے کمرے کی دہلیز پر پہنچے۔ سامنے ہی برآمدے میں مجھ کو ایک کالے رنگ کا چھوٹا ریچھ جیسا کچھ نظر آیا۔ بلا تھی کہ کوئی بھوت، خدا جانے مگر وہ ہاتھ اور پیروں پر ریچھ کی مانند چلتا ہوا آرہا تھا۔ اس بھیانک مخلوق کو دیکھ کر میں جو دھیمی دھیمی ٹون میں رو رہی تھی، رونا بھول گئی اور ایک زور کی چیخ ماری تو ندا نے بھی اس جانب دیکھا جدھر میں خوفزدہ ہو کر دیکھ رہی تھی۔ وہ مخلوق اس کو بھی دکھائی دی اور اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔ بھوت... بهوت... یہ کہتے ہوئے ایکا ایکی اس نے میرا ہاتھ چھوڑا اور کچن کی سمت دوڑ لگا دی۔ ہمارا یہ فلیٹ چهوٹا سا تھا۔ یہ کسی ہندو کا فلیٹ تھا۔ غالبأ علاقہ موسی لین کراچی کا تھا۔


اس فلیٹ کے بس دو ہی سائیڈ کمرے اور ایک چھوٹا سا کچن تھا جس کے آگے یہ تنگ برآمده سا بنا ہوا تها | اس کو راہداری کہیں تو بجا ہے۔ شاید اس مخلوق کے دیکھنے کی وجہ سے ہی اس برآمدے کا پورا نقشہ میرے ذہن پر نقش ہوگیا جو دھیرے دھیرے آگے بڑھی آرہی تھی۔ جدھر میں تھی۔ اس وقت میں دادی کے کمرے کی دہلیز پر کھڑی تھی، در کی چوکھٹ کو ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا۔ یہ نظاره میرے لئے اس قدر ڈرائونا تھا کہ سوائے ایک چیخ کے میرے منہ سے کچھ بھی نہ نکلا اور نہ ہی میں قدم آگے یا پیچھے کو اٹھا سکتی تھی جیسے دہلیز نے پائوں جکڑ لئے تھے۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور حلق سے مزید کوئی آواز نہ نکل پارہی تھی۔ بس وہی ایک چیخ ہی اتنی تیز اور بلند تھی کہ ماں نے کچن میں دل تھام لیا۔ پھر آواز سنائی دی ان کی، ہائے ہائے کیا ہوا میری بچی کو، کوئی برتن گرنے کی آواز آئی جو وہ ہاتھ میں پکڑے تھیں۔


انہوں نے اس کو فرش پر پھینک دیا تھا اور میری طرف دوڑی تهیں... تبھی انہوں نے بھی دیکھا کہ ریچھ جیسی کالی بلا جس کے جسم پر بال تھے اور شکل خوفناک تھی، غسل خانے کی سمت سے چاروں ہاتھ پائوں سے چلتی ہوئی برآمدے کے درمیانی حصہ تک پہنچ چکی تھی اور اب وہ دادی کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کا رخ کچن کی جانب تھا۔ مگر یہ بلا یا جو بھی مخلوق تھی، وہ اب اس جگہ سے چار چھ فٹ دور تھی جہاں میں کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ میری چیخ پر دادی نے بھی صندوق کے پیچھے سے بیٹ نکالا اور شاید ہونٹوں میں آیت الکرسی پڑھتی میری طرف بڑھیں۔ انہوں نے مجھے اٹھا لیا اور پھر باہر جھانکا تو وہاں بلا وغیره کچه نہ تھی، جو بھی مخلوق تھی غائب ہوچکی تھی۔ المحوں میں امی بھی دادی کے کمرے میں آپہنچیں۔


مجھ کو بازوئوں میں بھر کر سینے سے لگا لیا اور بولیں۔ کہاں ہے بلا؟ کچھ نہیں کوئی بلا نہیں ہے۔ چلی گئی ہے دیکھو وہ چلی گئی ہے۔ امی کے پیچھے ندا بھی آگئی تھی۔ وه | سخت ڈری ہوئی تھی۔ اس کا رنگ اڑ گیا تھا۔ کہنے لگی۔ امی جان! تھی بلا... وہاں تھی۔ برآمدے میں، میں نے دیکھی ہے۔ وہ اشارے سے بتانے لگی۔ بھوت تها وه... كالا بهوت تها۔ کوئی بھوت ووت نہیں تها... تم چپ رہو ندا۔ ان چیزوں کا نام نہیں لیتے۔ دادی تو لیتی ہیں بلاتی ہیں ان کو نہیں بلاتے بالکل بھی آواز دے کر ان کو نہیں بلاتے ورنہ یہ سچ مچ آجاتی ہیں... پڑهو... الله کا نام پڑهو. اماں جی۔ وہ دادی سے بولیں اور آئندہ کی ایسی ویسی شے کو آواز بھی نہ دینا۔


میرے بچوں کو بے شک مار لیا کرو مگر ان چیزوں سے ڈرانا نہیں ہے۔ بعد میں دادی نے اعتراف کیا کہ جونہی میں نے برآمدے میں جھانکا تھا اسے میں نے بھی دیکھا تھا مگر پھر وہ اسی لمحے غائب ہوگئی تھی۔ میں آیت الکرسی کا ورد کررہی تھی۔ ایک لحظہ کو تو اسے دیکھ کر قدم پیچھے ہٹالئے تھے۔ مگر جب دوباره جهانکا وہ غائب ہوگئی تھی۔ خدا جانے کیا تھا کہ میں بھی ڈر گئی۔ اب تو میری توبہ ہے جو بچوں کو ڈرائوں یا کسی ایسی ویسی شے کا نام لے کر پکاروں۔ وہ دن اور آج کا دن۔ میرے دل سے ابھی تک اس کالی بھیانک صورت مخلوق کا خوف نہیں گیا اور نہ ہی آج تک یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ کیا شے تھی اور کہاں سے آئی تھی۔ کہاں گئی۔ میں نے خود دادی جان کو ڈر کر اپنے قدم پیچھے کرتے دیکھا تھا۔ نہ جانے سائنس کیا اس کی توجیہ پیش کرے اور ماہر نفسیات کیا تاویلیں دیں لیکن اس وقت کسی ایک نے نہیں، ہم سبھی نے اس کو دیکھا تھا۔


امی اور دادی نے ابو کو قائل کیا کہ بچوں کی خاطر یہ گھر بدل لو۔ ان دنوں وہاں پگڑی سسٹم تھا لہذا ابو نے وه فلیٹ فروخت کردیا۔ انہوں نے کچھ اور رقم ڈال کر ایک دوسرا فلیٹ فرئیر روڈ پر لے لیا۔ لیکن آج تک بچپن کا وہ خوفناک نظارہ نہیں بھلا سکی۔ بچپن کا دور بیت گیا لیکن اس کے بعد بھی زندگی میں کئی بار کچھ ایسے تجربے ہوئے کہ میں سمجھ نہ پائی، یہ کیسی انہونی باتیں پیش آتی ہیں۔ کسی سے ذکر کروں تو وہ یقین نہ کرے۔ ایک دو بار اپنی والدہ سے میں نے تذکرہ کیا۔ بولیں۔ بیٹی اللہ کی کائنات وسیع ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ابھی مخلوقات رہتی ہوں جن کو ہماری آنکھ نہیں دیکھ پاتیں۔ یہ چیزیں اگر کبھی تمہاری آنکھ کے کسی زاویئے میں جھلک دے جائیں تو خاموش رہنا، کسی سے تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔


اگر وہ تم کو کوئی نقصان نہیں دیتیں تو ان سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہی سمجھو کہ یہ الله کے راز ہیں، ان پر پردہ پڑا رہے تو اچھا ہی ہے۔ اپنا ایک اصول بنالو، اپنے ذمے کی عبادت کو ہمیشہ خشوع و خضوع سے ادا کرنے کی کوشش کرو۔ ہمیشہ پاک صاف رہو۔ والده کی نصیحت پلے باندھ لی... کبھی کوئی غیرمعمولی یا ماورائی جهلک دیکھی بھی تو آیات پڑھ کر دم کرلیا۔ مثلا ایک بار اکیلی چاندنی رات میں چھت پر بیٹھی اپنے شوہر کا انتظار کررہی تھی کہ وہ دیر سے رات کو لوٹتے تھے۔ رات کے ڈھائی بجے تھے اور گرمیوں کی رات تھی۔ بچے میرے آس پاس چارپائیوں پر سو رہے تھے کہ اچانک کانوں میں ایک بھاری آواز آئی۔


میری خوبصورت مالکن ...،، میں نے ادھر ادھر دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔ تبھی میں ڈر گئی اور آیات کا ورد کرکے اپنے اوپر اور اپنے بچوں پر پھونکنے لگی۔ بتا نہیں سکتی یہ وقت کیسے گزرا۔ صد شکر کہ آدھ گھنٹے بعد میرے میاں بھی ڈیوٹی سے واپس آگئے تو میری جان میں جان آئی۔ ان کو یہ بات نہ بتائی کہ مذاق اڑائیں گے... یونہی ایک بار کچن میں ماچس تلاش کررہی تھی اور بلند آواز سے یہ جملہ منہ سے نکلا۔ آف ماچس بھی نہیں مل رہی ہے... تبھی قدموں میں ایک نئی تیلیوں سے بھری ماچس کی ڈبیا آپڑی۔ ادهر ادهر دیکها کوئی موجود نہ تھا۔ شوہر دفتر اور بچے اسکول گئے تھے۔ خاموشی سے ماچس رکھ لی۔ کسی کو نہ بتایا کیونکہ اماں کی نصیحت تھی کہ کسی کو ایسی باتیں بتانا اور نہ ہی ڈرنا، إن شاء الله محفوظ رہوگی۔  


Post a Comment

0 Comments