Search Bar

Yeh-Pyar-Bhare-Bandhan یہ پیار بھرے بندھن Famous Stories TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN

 

Yeh-Pyar-Bhare-Bandhan یہ پیار بھرے بندھن Famous Stories TEEN AURATIEN TEEN KAHANIYAN


نیاز میر اچازاد تھا۔ میری اس سے بہت بہتی تھی۔ ایک دن سنا کہ اس کی منگنی ہورہی ہے۔ مبارکباد دی تو ہنس پڑا، کہنے لگا۔ دیکھو تو زمانے کا ستم کبریا کہ مجھ سے کسی نے پوچھا تک نہیں اور خود ہی لڑکی پسند کر کے آگئے۔ میں نے سوال کیا۔ اچھا۔ جس سے منگنی ہورہی ہے اس کا نام تو بتاد و او ائی نے لڑکی پسند کیا ہے، نام بھی ان ہی سے پوچھ لو، مجھے نہیں معلوم ۔ واہ کیسے سید تھے اور بھولے ہو۔ ایسے فرمانبردار بیٹے خد اسب کو دے ۔ بہر حال بات بنی میں اڑ گئی۔ پھر سنا کہ نیاز کی منگنی ناصرہ نامی لڑکی سے ہو گئی ہے۔ منگنی میں امی ، ا ہو گئے میں نہ گئی



کہ امتحان ہورہے منگنی کے چھ ماہ بعد ہی شادی کی تار سی نظر گئی۔ سارے گھر میں جیسے بہار آگئی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ چی،امی کو ہمراہ لے کر بار بار بازار کے چکر لگانے لگیں۔ بری بھی اچھی بنائی تھی کیونکہ شنید میں آیا تھا کہ لڑ کی بہت سا جہیز لا

رہی ہے۔ وہ دن بھی آ گیا کہ شادی دھوم دھام سے ہوگئی۔ ناصر اپنے ساتھ واقعی جہاز کا بہت بھاری سامان لائی تھی۔ ان لوگوں نے شاید یہ سوچ کر اتنا بہت سا جہیز اپنی لڑکی کے ساتھ کر دیا تھا کہ ان کی لڑکی اپنی زندگی سسرال میں آرام سے گزار سکے اور کوئی اس کو تھوڑا جہیز ہونے کا طعنہ نہ دے سکے۔ ان دنوں بعض گھرانوں کی طرح ہمارے یہاں بھی جہیز کی بڑی اہمیت تھی۔ لینی لڑکی اگر کم جہیز لائے تو اس کو طعنے دیئے جاتے۔ یوں ہی دلہن کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جاتی اور اس کو حد درجہ ہے سکون کر دیا جاتا تھا۔



ماضی میں اسکی چند مثالیں ہمارے خاندان میں بھی موجود تھیں کہ بھی لڑ کی کم جہیز کی وجہ سے واپس کر دی گئی اور بھی ہو کو محض اس وجہ سے طلاق دے دی گئی کہ جہیز دولہا والوں کے شایان شان نہ تھا۔ شاید لڑکی والوں نے ہمارے خاندان کی سابقہ روایات بارے میں سنا تھا کبھی ناصرہ بھائی بھی اپنے ساتھ بہت سارا سامان میکے سے لاد کر لے آئی تھیں۔ کچھ عرصے تک تو بڑی واہ واہ ہوئی۔ ہماری بچی ہر کسی کو اپنی بہو کا جہیز بڑے فخر سے دکھائی تھیں اور کہتی تھیں دیکھو جی ! میں کسی ایسے ویسے گھرانے سے لڑکی اٹھا نہیں لائی ہوں، خاندانی لوگوں کے یہاں رشتہ کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں ناصرہ کے والدین بچارے غریب لوگ تھے۔



البتہ اس کا ایک ماموں بہت امیر تھا اور خوش قسمتی سے ناصرہ کو اسی نے پالا پوسا تھا۔ یہ سامان بھی اسی کا دیا ہوا تھا، کیونکہ وہ ناصرہ کو اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا۔ نیاز بھائی ان باتوں سے بے نیاز اپنی خوشیوں میں گم ہو گئے ۔ ناصرہ سمجھدار لڑکی تھی۔ اس نے آتے ہی اپنے شوہر کا دل موہ لیا اور اس کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ دونوں آپس میں خوش و خرم تھے اور جہاں بیوی، میاں میں محبت ہو، دوسری باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ نیاز بھائی نے اپنی دلہن کو بہت آرام سے رکھا ہوا تھا اور اس کا بہت خیال کرتے تھے ، ان میں کوئی اختلاف نہ ہو اور قابل رشک زندگی گزارنے لگے۔ بھائی پہلے بزنس کرتے تھے ، بزنس میں خسارہ ہو گیا و کار و بار بند کر کے باقی ماند و سرمائے سے بس خرید لی اور بے روٹ پر چلنے لگے۔ بس ڈرائیور دو تین بدلے گئے کسی نے خاطر خواہ کما کر نہ دیا، ناچار خود ہی اپنی بس چلانے کا فیصلہ اب وہ خود ایک شہر سے دوسرے شہر اپنی بس پر چلتے تھے۔ ایک روز وہ کراچی سے حیدر آباد مسافر لے کر جارہے تھے کہ راستے میں ایک اڈے پر ان کا ایک بس ڈرائیور سے جھگڑا ہو گیا۔


اس شخص نے طیش میں آکر لاری اڈے پر بی نیاز | بھائی کے سر پر لوہے کی راڑدے ماری۔ اس ضرب سے وہ کونے میں چلے گئے اور پھر ہوش میں نہ آسکے۔ بعد ازاں ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر خاندان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کیونکہ نیاز بھائی تھے ہی اتنے اچھے کہ سب ان سے محبت کرتے تھے۔ وہ کئی غریب گھرانوں کی مدد کرتے تھے۔ ان کا اثر ورسوخ بھی تھا۔ وہ اعلی افسران سے رابطے میں رہتے، ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے بڑے سے بڑا آدمی بھی ان سے احترام سے بات کرتا تھا۔ باثر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی کو تنگ نہ کیا، ہر ضرورت مند کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے تھے۔ ہمارے گھر میں ان کے انتقال کے سبب صف ماتم بچھ گئی۔ ناصر بھائی کی تو حالت غیر تھی۔ نیاز ان کے شوہر ہی نہیں محبوب بھی تھے جو اچانک ایک ظالم کے وار سے ان کی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ یہ حاد شد نہ تھایہ ایک سانہ جانکاہ تھا۔ موت نے ان کے سر سے دوپٹہ کھینچ لیا تھا۔ وہ بال کھولے نئے سر میں کر رہی تھیں، ان کی بھر کی بہاری زندگی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی، کوئی لٹیر اچانک آ

کر ان کو مفلس کر گیا تھا۔ ابھی ہم اس حادثے سے سنجھلے بھی نہ پائے تھے کہ عجیب واقعہ ہوا۔ بھائی ناز کی وفات کے چار ماہ بعد ہی چھا جان کے گھر ہم نے جھگڑے کی آواز سنی۔ یوں تو امی جان، چچا کے گھر بے دھڑک آتی جاتی تھیں لیکن وہ ان کے گھریلو جھگڑوں میں نہ پڑتی تھیں اور نہ ان کی بہو کے معاملات میں دخل دیتی تھیں۔ جب کئی روز تک جھگڑا ہو تا پاتو امی سے رہانہ گیا اور وہ ان کے گھر چلی گئیں۔ نیاز کے تین چھوٹے بھائی اور بھی تھے لیکن ان کی عادات اور سوچ وچار اپنے بڑے بھائی سے مختلف تھی۔ بھائیوں کے مزاج سٹی جبکہ طبیعت میں لا پن تھا لیکن نیاز بھائی ایسے نہ تھے۔


اور اب یہ لا چکا کرشمہ تھا کہ ان کے گھر میں جھگڑا ہورہا تھا۔ پتا چلا کہ ان کی نظر بھابی کے قیمتی سامان پر ہے۔ اس خدشے کے تحت کہیں ناصرہ بھابی بیوگی کے باعث ان کا گھر چھوڑ کر نہ چلی جائیں ، ساس ان کو مجبور کر رہی تھیں کہ وہ کسی ایک دیوار سے نکاح کر لیں، اس کے بعد ہی وہ ان کو میکے جانے کی اجازت دیں گی ، ورنہ نہیں۔ جبکہ ناصرہ بھابی کا کہنا یہ تھا کہ میں کسی دیوار سے بھی زوجیت کارشتہ نہ جوڑوں گی کیونکہ تینوں کو میں چھوٹے بھائیوں جیا بجھتی ہوں۔ ان میں سے کسی سے بھی نکاح کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ جبکہ ہماری پچ در پے تھیں کہ تم اس گھر کی بہو ہو اور بہو بن کر تیار ہو گی۔ تم کو اس گھر میں آئندہ بھی کسی نہ

کسی سے نکاح کر کے ہی رہنا ہو گا۔ ناصرہ نے بہت کہا کہ وہ اس گھر میں اپنے مرحوم شوہر کی بیوہ کی حیثیت سے ہی ر ہتی رہیں گی کیونکہ بچوں کا رشتہ موجود ہے۔ دوسری شادی کا بہر حال وہ ارادہ نہیں رکھتی۔ در اصل ناصرہ بھابی کو نیاز بھائی سے اتنی محبت تھی کہ وہ باقی ماند و زندگی انہی کی یاد میں گزار دینا چاہتی تھیں، تبھی دوسری شادی کا سوچنا محال تھا ان کے لئے! وہ اس گھر کو چھوڑ کر بھی جانانہ چاہتی تھیں کہ تین بچوں کا ساتھ تھالیکن ہماری بچی کے دل میں نجانے کیا خوف تھا کہ وہ بہو کو کسی پل چین نہ لینے دے رہی تھیں۔ ای، ابونے سمجھایا مگر پچی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اب یہ ان کے گھر کا معاملہ تھا۔ کوئی کیا کر سکتا تھا۔ ادھر بیوگی کےبعد ناصر ہ جھانی ایک بار بھی میکے نہ گئی تھیں۔ عدت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد ان کے میکے والے لینے آئے کہ ان کی افسردہ بیٹی چند دن میکے میں گزار لے، شاید اس کے دکھی جی کو قرار ملے۔ بچی نے بہو کو جانے کی اجازت نہ دی، اور جب بھائی کے میکے والوں نے زیادہ اصرار کیا تو چی نے کہا کہ ٹھیک ہے


اپنی بیٹی کو لے جانا ہے تولے جائو، ہم چ لے جانے نہ دیں گے۔ اس پر ناصر نے اپنے والدین کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا کہ ٹھیک ہے۔ یہ میرا گھر ہے۔ جب ساس اجازت دیں گی تبھی میکے جائوں گی۔ یوں سال گزر گیا۔ ناصرہ بحالی پر آفرین ہے کہ ساس کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں مگر ہماری بچی کے دل میں کدورت آچکی تھی ۔ وہ بہو کو چین نہ لینے دیتی تھیں۔ انہوں نے ایک نیا مطالبہ شروع کر دیا۔ ٹھیک ہے تم دیور سے نکاح نہیں کرنا چاہیں، مت کرو۔ میرے بھانجے سے کر لو۔ اس کو تو بھائی نہیں گردانتیں۔ لذا میرے بھانجے شعیب سے نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس طرح چے تو ہمارے کنٹرول میں رہیں گے۔ ناصرہ بھائی نے یہ کہہ کر اس رشتے کو بھی رد کر دیا کہ مجھ کو سرے سے شادی کر ناہی نہیں ہے۔ بچی نے بہو کے انکار پر کان نہ دھرے ۔ انہوں نے شعیب کو اپنے گھر میں رکھ لیا۔ جب ان کا یہ بھانجا گھر ہی میں قیام پذیر ہو گیا تو ظاہر ہے کہ بہو سے

بھی اس کا واسطہ پڑتا تھا۔ ناصرہ اچھے کردار کی تھی۔ وہ اس کو چھوٹا بھائی سمجھ کر اس کا خیال رکھے گی۔ ظاہر کہ ساس کا بھانجا تھا۔ اس کی مہمانداری بھی کرنی تھی۔


شعیب بھی ناصرہ بھائی کی عزت کرتا اور ان کا خیال رکھتا۔ باہر کے کام کر دیا اور کہا مانتا۔ دونوں کو اس امر کا علم نہ تھا کہ بچی کے ذہن میں کیا چڑی پک رہی ہے۔ ایک دن بچی نے شور مچادیا کہ بہو ان کے بھانجے سے غلط مراسم استوار کر رہی ہے۔ اس نے کم سن لڑکے کو اپنے جال میں پھنسایا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اس لڑکے سے ایسی باتیں کہلوادیں جو ٹھیک نہ تھیں۔ افسوس کہ شعیب بھی خالہ کی باتوں میں آگیا۔ اس بہتان پر گھر کے سارے مرد ناصر ہ کے خلاف ہو گئے اور اسے دھمکیاں دینے لگے ۔ انہوں نے شعیب کو بھی گھر سے چلتا کر دیا۔ ہم تو چی کی نیت جانتے تھے کہ انہوں نے کہانی بنائی ہے لیکن وہی بات ہے نا کہ معاشرے میں ہر کوئی طاقتور کا ساتھ دیتا ہے۔ مظلوم کا ساتھ کوئی نہیں دیتا۔ یہی بات تھی کہ امی، ابو تمام زیادتیاں دیکھ کر بھی ناصره بھائی کی طرف داری نہ کر پارہے تھے کیونکہ برادری کا معاملہ تھا۔ ہم تو سمجھ چکے تھے کہ ناصرہ بھائی کا سامان بہت ہے اور قیمتی بھی

ہے اور بچی اس سامان کو ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہیں۔


اس واقعہ کے بعد سسرال والوں نے ان کا ناطقہ بند کر دیا، یہاں تک کہ ان کو کھانے کو کوئی نہ پوچھتا تھا۔ وہ دو پہر جو کی ر ہیں یا تین پہر کسی کو پروانہ تھی۔ ا گرامی یا کوئی پڑوسن ان کو بھوکا کر کھانادیتیں تو ان کو برا بھلا کہتیں کہ ہم جلد ہیں کیا؟ جو تم گھروں سے کھانا پہنچانے آجاتی ہے۔ اور ہماری بد نامی کراتی ہو، شاید یہ تم سے کھانا سکتی ہے۔ ناصر ہ بھائی مجھے بتاتی تھیں کہ ساس اس کو واقعی کھانا نہیں دیتیں، وہ بھوکی رہتی ہے، رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو پین میں جا کر جو مل جانے کھالیتی ہے۔ اگرچے کھاناچادیں تو اس کو کھا کر آدھی بھوک مٹالی۔ جھگڑا اس وجہ سے نہیں کیا کہیں یہ بچے ان کی نظروں سے اوجھل نہ کر دیں۔ چھیا نے ایک ہوشیاری کی کہ یہ خبر سارے محلے میں پھیلا دی کہ ناصرہ کسی کو پسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ شادی کرناچاہتی ہے، جبکہ ہم جانتے تھے کہ بھائی سرے سے دوسری شادی کرناہی نہ چاہتی تھی۔ سارا جھگڑا ہی تو چل رہاتھا لیکن پی اب اس مشن پر گئی تھیں کہ ناصرہ محلے والوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائے اور لوگ اس سے ہمدردی کرنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا

کہ اس طرح تو ہماری بدنامی ہو گی۔ ناصر ہ بھی کور ونے سے کام رہ گیا تھا۔


وہ سوکھ کر کان ہو گئیں۔ میکے کب کی چلی جائیں مگر بچوں کی محبت ان کے پائوں کی زنجیر بن گئی تھی۔ تبھی وہ ساس اور دیواروں کے دبائو میں تھیں، جو خود کو ان کے بچوں کا سرپرست بتاتے تھے اور ان کے اخراجات اٹھارہے تھے۔ جبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ اب بھابی نے سوچنا شروع کر دیا کہ کیسے یہاں سے نجات پائیں اور کو بھی ساتھ لے جائیں کیونکہ وہ بچوں کے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ انہوں نے ہمارے گھر آکر اپنے والدین کو خط لکھا اور میری ان سے استدعا کی کہ وہ ان کا خط پوسٹ کرادیں۔ دو سال سے وہ میکے نہ گئی تھیں۔ اب خود پر قابو نہ رہا تھا۔ خط ملتے ہی ان کے والدین آپہنچے، وہ تو محض ناصر ہ بھابی کے روکنے سے رکے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ بھائی کے وہ ماموں بھی تھے جنہوں نے ان کو بچپن میں گود لیا تھا۔ ماموں سمجھدار تھے۔ انہوں نے محلے کے دو معزز حضرات سے رابطہ کیا اور ان کو ساتھ لے آئے اور کہا کہ میری بھابھی کو سسرال والے میکے جانے سے روکتے ہیں۔ اب ہم ان کو لینے آئے ہیں اور جہیز سمیت لے کر جائیں گے۔ بچی نے دیکھا کہ یہ لوگ سامان بھی اٹھانے کی بات کر رہے ہیں ۔


انہوں نے ناصر ہ کے بچوں کو فورائیٹی کے گھر بھجوا دیا اور کہا کہ سامان لے جائو یا پھر چ لے جائو۔ چے ہی تو بھائی کی مجبوری تھے اور بچی نے ترنت ان کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا تھا۔ ناصر ہ کے ماموں نے کہا کہ پر ان کے بھی ہیں اور تمہارے بھی۔ اس کا فیصلہ معزز محلے دار کریں گے ۔ محلے دار حضرات نے یہ فیصلہ کیا کہ چند دن بچے ماں کے پاس رہیں گے اور چند دن دادی کے پاس ! البته سامان ناصر ہ کے جہیز کا ہے، وہ اپنا سامان لے جاسکتی ہے۔ یوں ٹرک پر بھائی کا سامان رکھ دیا گیا۔ والدین اپنی بیٹی لے کر چلے گئے اور پ دادی کے پاس رہنے دیئے گئے۔ فیصلے کے مطابق ان کو پندرہ دن دادی کے پاس اور پندرور و زماں کے پاس رہا تھا۔ بھائی کا بڑا لڑ کا بمشکل پانچ برس کا تھا اور ابھی اسکول جانا شروع نہ کیا تھا۔ باقی دو اس سے چھوٹے تھے۔



یہ ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ امی، ابو نے بچی کو سمجھایا کہ عنقریب بچوں کو اسکول بھی جانا ہے، یہ کس طرح پندر در وزاد ھر اور پندرہ روز ادھر رہیں گے ۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہو گی۔ اتنے چھوٹے بچوں پر ظلم مت کرو۔ چھوٹے بچوں کو ماں سے جدا نہ رو، کیونکہ قانون اور دین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا، جبکہ ابھی تک ناصرہ نے دوسری شادی بھی نہیں کی تھی۔ اگر وہ دوسری شادی کر لیتی تب تو تم اس سے بچوں کو چھین لینے کا جواز بھی رکھتی تھیں۔ اس پر ہماری بچی نے یہی جواب دیا کہ ٹھیک ہے اگر ہم قانونی طور پر چے رکھنے کے حق دار نہیں ہیں تو وہ کورٹ سے جا کر لے لیں۔ ان کے ماموں سے ناصر کاتر پناد یکھا نہیں جارہا تھا۔ پندر در وز بعد وہ پے لینے آئے تو انہوں نے ان کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ تب ہی وہ میرے ابو کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا۔ بھائی میں کچھ نہیں کر سکتا، صرف اپنے بھائی کو سمجھ سکتا ہوں مگر ان کی بیوی سے بات منوانا میرے بس میں نہیں۔ یہ رافساد ڈالا ہوانہی میر کی بھاوج کا ہے۔ آپ سر پرستی کا کیس ڈال دیں۔ بھائی ناصر ہ کے والد اور ماموں حار جین شپ کا کیس اس وجہ سے ڈالنا نہیں چاہتے تھے کہ مقدمے لڑنے میں جو خواری تھی، وہ بھی ایک عذاب تھا۔


کچھ خبر نہ تھی کہ انصاف ملے نہ ملے اور کتنی مدت تک خواری بجھتی پڑ جائے۔ ادھر ناصر ہ بھائی خوف زدہ تھیں کہ ضدی دادی کی وجہ سے کہیں ان کے بچے مر کھپ ہی نہ جائیں، کیونکہ ان کی مسیح دیکھ بھال تو صرف ماں کر سکتی تھی۔ دادی کو تو بس سامان کالا پیچ تھا۔ ناصرہنے والدین سے کہا کہ آپ میری ساس کو سارا سامان واپس کر دیں اور میرے چے ان سے لے آئے۔ پہلے تو وہ لوگ راضی نہ ہوئے لیکن جب سب سے چھوٹے بچے کی اسہال کے سبب موت واقع ہو گئی اور اطلاع بھابی کے میکے ہوئی تو

وہ روتے پیٹتے اپنے اور دو دن بعد انہوں نے سامان کا ٹرک بھی پچی کو پہنچادیا۔ جب ساراسامان ٹرک سے اتار لیا گیا توپچی نے بہو سے ہار مان لی اور دونوں نے ان کے حوالے کئے کہ اب خود بھی وہ ان کو سنجالے سے مشکل میں میں۔ ناصرہ صرف تین دن سسرال میں رہی۔ جاتے ہوئے اس نے کہا۔ بہو تم مجھ کو اپنی مت سمجھنا، چونکہ یہ سامان تمہارے بچوں کی امانت تھی، تبھی ہم نے رکھ لیا ہے۔ جب یہ بڑے ہو کر ہمارے پاس آئیں گے تو اپنا سامان لے جائیں گے۔ یہ عجیب سی منطق تھی۔ ان کی بات سن کر سب لوگ انگشت بهدنداں رہ گئے تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ ناصرہ نے صبر کر لیا۔ میکے میں رہتی ہیں۔


چے بڑے ہو گئے، مگر وہ دادی کے پاس اپنا سامان لینے نہ آئے، کیونکہ دادی نے اس سامان کے عوض ہی ان کا سودا کیا تھ اور ان کی ماں کو ان کے باپ کا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ انہوں نے دوسری شادی کبھی نہ کی اور اپنے بچوں کو سینے سے لگائے ان کی پرورش میں مصروف رہیں۔ اگر ان کو دوسری شادی کرنا ہوتی تو اس وقت بھی کر لیتیں جب چھ چھوٹے تھے۔ یہ واقعہ سارے محلے والے جانتے ہیں، تبھی بچی کی عزت ان کی نظروں میں نہ رہی۔ اب کوئی ان کو اہمیت نہیں دیتا۔ آج وہ بوڑھی ہو گئی ہیں تو پوتے پوتی کو یاد کر کے روتی ہیں۔ ان کو بلوا بنتی ہیں مگر وہ نہیں آتے۔ کاش وہ پہلے ہی سوچ سمجھ کر کوئی اچھافیصلہ کر تھیں، تو یہ نوبت نہ آتی۔ افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں پر کہ کچھ لوگ بچی کی مانند انسانی اور قریبی رشتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور کچھ

ایسے بھی ہوتے ہیں کہ روپیہ پیسہ اور مادی اشیاء سب قربان کر دیتے ہیں مگر اپنے پیارے رشتوں کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔


ماری کی بھی ایسی ہی عورت تھیں جنہوں نے بہو اور پوتوں سے زیادہ مال اور دولت کی فکر کی اور خسارے میں رہیں۔ مال دوسری بہوئوں سے ہتھیا لیا۔ چھوٹے بیٹے شادی کر کے الگ ہو گئے اور یہ تنہا رہ گئیں۔ اگر کچھ ایسانہ کر تیں تو آج ناصر ہ بھائی اور ان کے بچے ان کے ساتھ ہوتے اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بنتے۔ اب چیچی ،ناصرہ بھابی کو یاد کر کے روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ میری وہی بہو سب میں اچھی تھی جس کے ساتھ میں نے اچھا سلوک نہ کیا۔ اب اس بد سلوکی کا بدلہ مجھ کو دوسری بہو سے ملا کہ جو مجھ کو اپنے گھر رکھنا گوارا نہیں کرتیں۔ اب ہم ہی ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہماری بچی سے اور خواتین کو بھی سبق ملتا ہے کہ جو خود کو وقت کا سکندر جھتی ہیں اور یہ بھول جاتی ہیں کہ وقت سد ایک سا نہیں رہتا، ظلم و زیادتی کرنے والوں کو قدرت خود ایک دن اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔


 


Post a Comment

0 Comments