Search Bar

Payar Karnye wala Jewan Sathi Teen Auratien Teen Kahaniyan Babool Main Phool

 

Payar Karnye wala Jewan Sathi Teen Auratien Teen Kahaniyan Babool Main Phool


ایک دن کا لج سے گھر آئی تو پتا چلا کہ ابو کے گردے میں سخت درد اٹھا ہے ، ان کو اسپتال لے گئے ہیں۔ میں پریشان ہوگئی۔ بھائی اور امی ابو کے ساتھ اسپتال میں تھے۔ جی گھبرارہا تھا کہ کوئی اچھی خبر لے کر آئیں، تو بی کو قرار آئے۔ رات کو بھائی نے آ کر بتایا کہ ابو کا کل آپریشن ہے۔ ابھی ایمرجنسی میں ہیں۔ اگلے روز ان کا آپریشن کر دیا گیا۔ جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے ، پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ کیونکہ والد کی کمزوری اتنی بڑھی کہ تیر ماہ تک کام پر نہ جا سکے۔ والد کے بزنس میں شریک کار ایان صاحب تھے۔ وہ اب اکیلے کاروبار سنبھال رہے تھے۔ و در روز شام کو ابو کی مزاج پر کسی کو آتے تھے۔ علاج کے لئے رقم اور دو چار باتیں تسلی کی کہ جاتے تو دل کو بڑی ڈھارس بندھ جاتی تھی۔ وہ بظاہر تو مجھے آدمی معلوم ہوتے تھے لیکن ایک روز انہوں نے کاروبار میں نجانے کیا گھپلا تا یا کہ والد صاحب کو سراسر نقصان دکھادیا۔ والد صاحب ایک بار انسان، و داتنا نقصان برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اس پر آپریشن اور پیار کی کا خرچہ بھی کافی ہو گیا تھا۔ ایران صاحب نے کچھ روز بعد ان سے کہا کہ نقصان کا آدها سرمایہ آپ کو فراہم کر نا ہو اور نہ سمجھ لیجئے کہ کاروبار شپ ہے۔ ابو نے کہا۔ تم میری حالت دیکھ رہے ہو اور حالات کبھی تمہارے سامنے ہیں۔ اتنار و پیہ فی الفور میں فراہم کرنے سے قاصر ہوں۔ ذریعہ روزگار بھی اور میرا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ کلنے کی کفالت کیونکر ہو گی ، تم ہی میری طرف کے روپے کا بھی کسی صورت انتظام کر دو۔ کاروبار کو چلتے رہنا چاہیے۔ بزنس میں نفع نقصان ہوتا رہتا ہے، الله تعالی کا کرم ہو جائے گا۔ گھانا بھی بالآخر پورا کر لیں گے ، بس مجھ کو چھ دن کی مہلت چاہیے۔ ان شاء الله صحت یاب ہوتے ہی پھر سے تمہارا باز و بن جائوں گا۔ ہمارا کنبہ کافی بڑا اور والد ہی واحد کفیل تھے لذا ایران صاحب کی خوشامد ہماری مجبوری بن گئی۔ و در وز آتے، مجھ سے چائے بنوانے کی فرمائش کرتے۔ کبھی کہتے کہ آج تمہارے ہاتھ کا کھانا کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ تم

پانی بہت اچھا ہو، مجھے ان کی ہر فرمائش پر آ منا صدقتناہی کہتے ہیں۔ میں ان کو انکل کہتی تھی۔ اگرچہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، اگر ہوتی تو میرے جتنی ان کی بیٹی ضرور ہوتی۔ وہ ہر ماه معقول رقم خرچ کی ہم کو عنایت کرتے کیونکہ کاروبار جو مشترکہ تھا۔ لمذا ہمیں ان سے خرچہ کی رقم لینے میں عار نہ تھا۔ البتہ ان کی نت نئی کھانے پینے کی فرمائشوں سے ابھن ضرور ہوتی۔ اس طرح میں ٹھیک طرح سے پڑھ نہیں پاتی تھی۔ ان سے اپنی کوفت ظاہر کرتی تو وہ ہیں، بیٹی کیا کریں ہماری مجبوری ہے اور ان کی بھی۔ تمہارے ابو لاغر پڑے ہیں تو ان صاحب بھی بیچارے کب سے گھر کے کھانوں کو ترسے ہوئے ہیں۔ اس گھر کو اپناگھر سمجھ کر آتے ہیں۔ قصہ یہ تھا کہ ان کی بیوی عرصہ ہوا کہ وفات پاچکی تھیں۔ اور انہوں نے ابھی تک دوسری شادی نہیں کی تھی ۔ گھر میں اکیلے رہتے تھے، ایک دو ملازم تھے۔ بزنس میں دن رات مصروف رہے۔ شادی کی طرف دھیان کیا بھی تونہ ہو سکی۔ یہ چاہتے تو تھے کہ دو بار گھر بسا لیں مگر نہ بنا سکے۔ وجہ کا علم نہیں لیکن اب جو انہوں نے ابو کی پیاری اور تیار داری کے سبب ہمارے گھر کو اپنا گھر آنگن بنالیا اور والدہ کو دو ایک بار اپنے گھر کو بسانے کا اشاروں کنایوں میں تذکرہ کیا تو وہ ہی سمجھیں کہ اس نیک کام

میں وہ نیک نیتی سے ان کی مدد چاہتے ہیں تا کہ وہ کسی اچھی خاتون سے ان کا رشتہ کروادیں تا کہ کسی شریف گھرانے سے نانتاجڑ جائے۔ والدہ کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی خاص عنایتیں ہم پر ہو ہی نہیں ہیں بلکہ مجھ کو دیکھ کر ان کی نیت میں فتور آچکا ہے۔ ایک روز انہوں نے بالآخر موقع پاکر والدہ سے مدعا بیان کر دیا کہ اگر وہ میرا ہاتھ ا ن صاحب کے ہاتھ میں دے دیں تو اس گھر کی سب پریشانیاں وہ اپنے دامن میں سمیٹ لیں گے۔ میرے بہن بھائی اور دو بہنیں جو ان دنوں فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے اسکول چھوڑ کر گھر بیٹھے تھے ،دو بار اسکول جانے لگیں گے اور ان کے حصے کا نقصان جو بطور ادھار قم کار و بار میں ڈال کر ان کو اپنا بزنس پار نفر بر قرار رکھا ہے، اس کو خود برداشت کر کے قرض معاف کر دیں گے ورنہ توجو خرچہ انہوں نے والد کی پیاری پر خرچ کیا تھا وہیں بھی ادا کرنا ہو گا۔ امی جان نے بہت عاجزی سے اصرار کیا کہ تھوڑی سی مہلت دے

دیجئے۔ میرے شوہر کو ٹھیک ہو لینے دیجئے۔ آپ کی ساری رقم ادا کر دیں گے ۔ مگرایان صاحب کسی صورت نہ مانے۔ ادھر والد صاحب تھے کہ حالت سنجلنے کی بجائے برتی جاتی تھی۔ دراصل ان کو کینسر تشخیص ہو گیا تھا۔ پھر تو وہ بستر سے ہی لگ گئے۔ والدہ ایان کی طرف سے اپنی بیٹی کے رشتے کے مطالبے کو پیار شوہر سے بیان نہ کر نا چاہتی تھیں کہ کہیں صدمے سے وہ وقت سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جائیں۔ انہوں نے ایان صاحب کو کہا، ٹھیک ہے مجھے جواب کے لئے چند روز کی مہلت دے دیجیے ، ان دنوں گھر میں بہت زیادہ پریشانی ہے۔ تھوڑی کی حالت میرے خاوند کی سنجھلے دیئے تو میں ان سے بات کرتی ہوں۔ آخری دنوں میں اللہ تعالی نے میرے والد کو اس صدمے سے بچاناتھا، سو وہ ایان صاحب کے اس مطالبے کو اپنے کانوں سے سنے سے پہلے ہی چل بسے۔ میں نے تو شکر کیا کہ اس دنیا سے جانے سے پہلے وہ دلدوز خبر سن کر نہ گئے ورنہ شاید قبر میں بھی ان کے آنسو خشک نہ ہوتے کہ جس کو دوست اور ہمدرد سمجھتے رہے ، وہ کس شمع کو دل میں پال کر ان کے آڑے وقت میں ساتھ دیتارہا تھا۔ یوں والد کی وفات کے بعد یہ گھرانہ جو بھی خوشحال تھا، اب کوڑی کوڑی کو محتاج تھا۔ والد صاحب کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایان صاحب نے امی جان کو یاد دلایا کہ آپ نے چند روز کی مہلت مانگی ، وہ میں نے دے دی۔ جانے والا بھی چلا گیا، اب تو آپ ہی کی طور پر اس گھر کی سربراہ ہیں اور تمام فیصلے آپ نے ہی کرنے ہیں۔ تو میری عرض کے جواب میں کیا سوچا ہے ؟ وہ ارشاد ہو ،

ورنہ پھر حساب کتاب کا کھاتہ آپ کے سپرد کرتاہوں۔ چاہے تو یہ مکان فروخت کر کے میرا قرضہ ادا کر دیکھئے یا پھر جو بھی صورت ہو، مجھے آگاہ فرمایئے کہ میں ایک کاروباری آدمی ہوں، زیادہ دنوں تک سرمایہ وصول کئے بنا اپنے کاروبار کو ناکامی سے دوچار نہیں کر سکتا۔ کر بھی لوں تو آگے آ پ لوگ کیونکر زندگی کی گاڑی کو چلائیں گے ؟ یہ بھی سوتی ہے۔ میں اور زیادہ آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں اور نہ آنا جاندار کے پائوں گا کہ دنیا باتیں بنائے گی۔ جس سے تعلق واسطہ تھاوہ تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ بغیر کسی رشتے کے آپ لوگوں سے میل جول پر لوگ مجھ کو غلط سمجھیں گے۔ اسی لئے ایک بار پھر عرض کرتاہوں کہ اپنی صاحب زادی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر مجھ کو فرزندی میں قبول کی ہے تا کہ لوگوں کے منہ بند ہو جائیں اور آپ کی ساری مشکلات حل ہو جائیں۔ میں آپ کے کنےکا بیڑ اٹالوں گا۔ آپ نے ابھی تین بچیوں کی شادیاں کر نہیں اور تین لڑکوں کو

پڑھانا بھی ہے، آپ اکیلی کب تک بین پتوار کی کشتی کیتی رہیں گی۔ ایان صاحب کی طویل تقریر سے والدہ کو چکر آنے لگے۔ وہ مہر بہ لب تھیں مگر آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں ساتھ والے کمرے کے دروازے سے کان لگائے سب سن چکی تھی۔ تب میں نے ہمت کی اور سامنے آگئی۔ میں نے کہا۔ ایان صاحب پہلے آپ کو چاور انکل کہتی تھی مگر آپ کے پاکیزہ اور مبارک خیالات معلوم ہو جانے کے بعد پچھلے رشتوں کو متروک کرتے ہوئے آپ کی پیش کش کو قبول کرتی ہوں ۔ والدہ عدت میں ہیں۔ یہ مدت گزر جانے دیجئے۔ اس کے بعد آپ مٹھائی لے آئے گا۔ مجھ کو آپ کی پیشکش قبول ہے۔ ائی نے بوکھلا

کر میری جانب دیکھا۔ میں نے امی کو گلے سے لگایا، تسلی دی۔ ایان صاحب خوش خوش بغلیں بجاتے چلے گئے۔ یہ تم نے کیا کہ دیامیر ی چی؟ وہ مجھ سے جیسے فریاد کناں ہوں۔ اسی ایک جان جانے سے گراتی جانوں کا بھلا ہوتا ہو تو عقل مند کی اسی میں ہے کہ ایک جان کی قربانی دے دی جائے ۔ قربانی بھی تو اپنے ہی اپنوں کے لئے دیتے ہیں، سوچنے ذرا میں میٹرک پاس اور

آپ کے سارے بچے مجھ سے چھوٹے ، یہ حضرت مکان بھی ہمارا کو دیں گے ، ان کا قرضہ پھر بھی ہم نہیں اتار سکیں گے۔ اپنے گھر کی چھت تو بچا لیجئے۔ یہ مکان یک گیا تو کیا اتنے بچوں کو لے کر سڑک پر بیٹھیں گی۔ آپ کی تعین جوان بچیاں ہیں۔ ان کو لے کر کہاں جائیں گی؟ غرض کسی طور اماں کو سمجھا بجھا کر چپ کرایا۔ وہ رفتہ رفتہ راضی ہوئیں کہ جب میری عمر اور صورت و میتی تھیں اور پھرایان صاحب کو تو ان کا دل نہیں مانتا تھا کہ چین چین کر رونے کو چاہتا تھا۔ میں نے اپنے ارمانوں کا گلا دبایا اور خواہشوں کو موت کی گہری نیند سلا کر ان صاحب سے شادی کر لی۔ یوں میں زخمی ہو کر ریزہ ریزہ حالات کی کسمپریا سے گزر گئی۔ آنکھیں بند کر کے کنویں میں چھلانگ لگادی۔ ہر کسی نے اماں کو لتاڑا، مگر وہ خاموش رہیں، کسی کو جواب نہ دیا کیونکہ جو رشتہ دار ایان کے ساتھ میری شادی کرانے پر ان کو لتاڑ رہے تھے ، در حقیقت وہ ان کے ان برے دنوں میں کام آنے والے ہر گز نہیں تھے۔ وہ صرف باتیں ہی بنانے والے لوگ تھے۔ سوالیوں کی باتوں کو کیا اہمیت دینا۔ دنیاکا و کام ہی باتیں بنانا ہے۔ وہ اپنے گھر کی اور میں ماں کی مجبوریاں سمجھتی تھی۔ گھر کے حالات مجھ پر روز روشن کی طرح عیاں تھے۔ سو بہن بھائیوں کے مستقبل اورماں باپ کی خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لئے وقت کے ظلم کے سامنے میں نے اپنے سر کو جھکا دیا۔ بے شک ایان نے اپنے گھر میں ہر طرف میرے لئے سکھ کے گلاب بچھادیئے مگر جب دل مرجھایا گیا ہو تو پھول بھی کانٹے سے ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی میں نے ان کاموں کو آنکھوں سے لگا لیا کیونکہ ایان نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا اس کو پورا کیا۔ میری بہنوں اور بھائیوں کو تعلیم دلوائی، ان کی شادیاں کیں اور میرے میکے کا تمام خرچہ اٹھایا۔ وہ عمر میں مجھے سے دگنے ہیں مگر برے آدمی ہر گز نہ تھے۔ وہ صوم وصلوة کے پابند اور قول و قرار کے کھرے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں مجھ کو ہر راحت دینے کی کوشش کی۔ میں نے بھی سوچ

لیا کہ شادی میں محبت ہی شرط اول نہیں ہوتی، اعتبار و احترام بھی اہم ہوتا ہے ۔ اس طرح خود کو سمجھانے سے یہ سودا برا معلوم نہ ہوتا تھا۔ بے شک مجھے میرے خواب نہ ملے، میرے بہن بھائیوں کو تو ان کے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ والدہ کی ضعیفی اچھے طریقے سے گزر گئی۔ اب ایان صاحب کی زندگی کی دعا کرتی تھی کہ ان کے ہوتے کسی کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ لوگ تو اس بے جوڑ شادی پر افسوس کرتے اور مجھ پر ترس کھاتے رہے مگر مجھے اب اپنے اس فیصلے پر کوئی دکھ کوئی ملال نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالی نے میری قربانی رائیگاں نہیں جانے دی۔ مجھے سکون قلب عطا کر دیا اور میرے بہن بھائی اور ماں کو زمانے کی ٹھوکروں میں گرنے پڑنے سے بھی بچالیا۔ آج ایان صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن میں ان کی کی بہت زیادہ محسوس کرتی ہوں۔ یے ہے جو کہ کا ساتھی ہوتا ہے، جو مخلص ہوتا ہے، جو آپ کے لئے عزت بھری زندگی کا اور خوشیوں کا احترام کرتا ہے۔ اس سے اچھا ساتھی اور کوئی نہیں ہوتا۔  


Post a Comment

0 Comments