Search Bar

Aaj Bhi Intazar Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan new story

 

Aaj Bhi Intazar Hai  Teen Auratien Teen Kahaniyan new story
Aaj Bhi Intazar Hai  Teen Auratien Teen Kahaniyan new story

خان میرے والد صاحب کے پاس ملازمت کرتا تھا۔ والد صاحب کا کافی بڑا کار و بار تھا جس کو خان بہ حسن و خوبی سنبھالتا۔ والد اس سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے اس کو بیٹا بنالیا۔ وہ ہمارے گھر آنے جانے لگا۔ ان دنوں میں اٹھارہ سال کی تھی، بہت خوش شکل اور بانکی ادائوں والی۔ میں خان کو بھا گئی ، مجھے بھی وہ اچھالگا۔ میں نے ماں کو بتادیا کہ مجھے خان پسند ہے اور خان اباجان کو پسند ہے۔ آپ کو شش کریں میرا اس کے ساتھ رشتہ ہو جائے، میری خوشی پوری کر دیجئے۔ ماں سے منت کرتی رہی۔ ان کا دل پسیجا اور اپنی طرف سے والد سے بات کی کہ لڑکا اچھا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صدف کارشتہ اس کے ساتھ ہو جائے۔ غالباً والد بھی ایسا ہی چاہ رہے تھے۔ انہوں نے امی سے کہا۔ صدف سے پوچھ لو۔ اگر وہ راضی ہے تو ہم خان کے گھر والوں سے ملتے ہیں۔

امی نے مجھ سے کیا بات کرنی تھی۔ ان سے تو میں نے خود کہا تھا۔ خان بھی دل سے راضی تھا لیکن مسئلہ اب اس کے گھر والوں کا تھا۔ اس نے جا کر والدین کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ وہ کسی طرح نہ مانے۔ صرف اس کا ایک بڑا بہنوئی اس بات کے حق میں تھا کہ اگر خان اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے کرنے دی جائے۔ گھر والوں نے ساتھ نہ دیا لیکن اس کا بہنوئی بیوی کو لے کر ہمارے گھر آگیا۔ والد صاحب کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم بعد میں والدین کو راضی کر لیں گے۔ ابھی میں اور میری بیوی خان کے ساتھ ہیں۔ آپ ہم پر بھروسا کر کے اپنی بیٹی کی اس کے ساتھ شادی کر دیں۔ آگے کا ذمہ ہم اٹھاتے ہیں۔ والد کچھ تذبذب میں تھے لیکن یہاں بھی ماں کی محبت ڈھال بنی۔ انہوں نے ابو کو سمجھا بجھا کر راضی کر لیا۔ یوں دولہا کی طرف سے ان کا بہنوئی اور سگے بھائی ساتھ ہوئے اور ہماری شادی کرادی گئی۔ شادی کے بعد خان مجھے اپنی بڑی بہن کے گھر لے گیا اور ہم دوماہ وہاں ان کے ساتھ رہے۔ اس دوران میری بڑی نند اور اس کا شوہر خان کے والدین کے پاس جاتے اور ان کو

سمجھاتے رہے۔ بالآخر انہوں نے ہمیں گھر آنے کی اجازت دے دی۔ ہم ڈرتے ڈرتے سسرال گئے، میرے شوہر کے گھر والے بظاہر راضی ہو کر ملے۔ خان کے والدین نے کسی قسم کی خفگی کا اظہار نہ کیا۔ میں خوش ہو گئی کہ سسرال والوں نے مجھ کو قبول کر لیا تھا۔ میں بے حد خوش قسمت تھی کہ خان کا بے پناہ پیار میرے حصے میں آیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ تم بہت نیک اطوار ہو۔ تم پہلے دن سے ہی مجھ کو پسند آگئی تھیں۔ خدا سے دعا کیا کرتا تھا کہ تم ہی میری بیوی بنو۔ دیکھو اللہ نے مجھ ناچیز کی دعاسن لی ہے۔ آج میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں۔ میرے شوہر کی یہ غلطی تھی کہ وہ اپنا پیار گھر والوں سے چھپا نہیں سکتے تھے اور سب کے سامنے ہی مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ بات میرے سسرال والوں کو ناگوار گزرتی تھی۔ اس وجہ سے ان سب کار و یہ مجھ سے حزاب رہنے لگا۔ شوہر نے سمجھا دیا کہ صبر سے رہنا اور منہ سے کچھ مت کہنا۔ یہ جو کہیں میری خاطر برداشت کر لینا۔ میں نے ان کی بات گرہ میں باندھ لی۔ اب جو بھی میرے ساتھ ہو نا چپ رہتی۔

شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ خان صاحب نشہ بھی کرتے ہیں، چرس کے سگریٹ پیتے ہیں لیکن مجھے ان کے کسی رویے سے کوئی شکوہ نہ تھا کیونکہ وہ میرا بہت خیال رکھتے اور مجھ سے محبت کرتے تھے۔ میں نے کبھی گھر کے حالات والدین سے جا کر نہیں کہے۔ نہیں چاہتی تھی ان کا دل دُکھے یا ان کی میرے سسرالیوں سے تسلی ہو جائے۔ ہر بات دل پر سہہ لیتی تھی۔ ایک دن سخت گرمی تھی۔ اس دن نلکے میں پانی بھی نہ آیا۔ سب بر تن ، گھڑے خالی پڑے تھے۔ ہمارے گھر میں ایک کنواں تھا۔ میں نے اس سخت گرمی میں دوپہر کے وقت جب سب اپنے کمروں میں آرام سے سورہے تھے، پانی کے سارے بر تن کنویں سے بھر دیئے۔ گھر کا سارا کام کیا تھا لہذا اب تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ میں جاکر ایک کمرے میں سو گئی۔ تھوڑی دیر بعد میری منجھلی نند آئی۔ دروازہ کھولا، پنکھا بند کر دیا اور چلانے لگی کہ تم کون سی لاٹ صاحب کی بیٹی ہو جو یہاں آکر سو گئی ہو ۔ خبر ہے کہ ابھی میرے شوہر آنے والے ہیں اور وہ اسی پلنگ پر آکر سوئیں گے تو تم جان بوجھ کر یہاں آلیٹی ہو۔

یہ بات مجھ کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ اس نے کچھ ایسے انداز سے بات کہی کہ میں پتھر کی ہو گئی۔ اس کا شوہر آنے والا تھا یا نہیں اور اس نے کسی کمرے میں سونا تھا۔ مجھے تو کچھ خبر ہی نہ تھی اور وہ نجانے کیا اول فول بک رہی تھی۔ میں پریشان بیٹھی تھی کہ خان آگئے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں پریشان بیٹھی ہو۔ میں نے ساری بات بتادی۔ بولے۔ یہ غلط کہہ رہی ہے۔ اس کے شوہر نے تو آنا ہی نہیں ہے۔ وہ اس وقت کسی اہم ڈیوٹی پر دوسرے شہر میں ہے اور اس کو چھٹی مل نہیں سکتی۔

اب میں جان گئی کہ صبا نے مجھ کو رسوا کرنے کو ایسی باتیں کہی تھیں۔ اس کے شوہر نے تو آنا ہی نہیں تھا۔ وہ مجھے پریشان کر کے خوش ہورہی تھی۔ وہ مجھے خان کی نظروں میں گرانا چاہتی تھی لیکن اللہ نے میری لاج رکھ لی۔ بجائے کچھ غلط سوچنے کے خود خان نے مجھ کو تسلی دے دی۔ کہا کہ مجھے معلوم ہے صبا نے یہ بات محض فساد پھیلانے کے لئے کہی ہے۔ لہذا تم روکومت اور اس کی باتوں کی پروانہ کرو۔ صبانے اسی پر بس نہیں کیا۔ کنویں سے جتنا پانی میں نے بھرا تھا۔ وہ سب گراد یا اور کہا کہ دوبارہ سارے بر تن بھر و۔ وہ پانی خراب ہو گیا تھا۔ میں تھکن سے چور ہو رہی تھی۔ تب میرے شوہر نے خود جا کر بڑے بڑے ڈرموں میں پانی بھر دیا۔

ایک بار خان نے پریشانی میں زیادہ نشہ کر لیا تو ان کی ماں نے ان کو اپنی بڑی بیٹی اور داماد کے گھر بھجوادیا، جنہوں نے ہماری سادی کروائی تھی۔ ان سے کہا کہ اس کو سنبھالو اور کچھ عرصہ اپنی طرف ہی رکھو۔ بیوی کی وجہ سے پریشان رہتا ہے تو نشہ کرنے لگتا ہے۔ وہ گھریلو جھگڑوں سے بیمار ہو گیا ہے۔ یوں سیاس نے ان کو مجھ سے دور کر دیا۔ حالانکہ ان دنوں ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہ تھی اور ان کو میری سخت ضرورت تھی۔ میری جدائی سے خان اور بھی دل ماندہ رہنے لگے۔ ان کا وہاں دل نہ لگتا تھا۔ وہ اور زیادہ سگریٹ پیتے تو وہ لوگ ان کو نشے کا انجکشن لگا کر سلا دیتے کہ اس کو

نیند اور سکون کی ضرورت ہے۔ ان کے اصل مرض کو کسی نے نہ سمجھا۔ تین ماہ گزر گئے وہ گھر نہ آئے۔ آدھر میں ان کی صائی میں تڑپتی تھی۔ جی کرتا کہ وہ آجائیں یا میں اڑ کران تک پہنچ جائوں مگر میں بھی مجبور تھی۔ میری ساس مجھ کو ان کے پاس جانے نہیں دیتی تھی۔ ان کو جب ہوش آتا وہ میر انام پکارتے۔ بالآخر بات نندوئی کی سمجھ میں آگئی۔ وہ میری ساس کے پاس آئے، کہا کہ بانو کو خان کے پاس بھیجو ورنہ وہ اس کی جدائی میں مر جائے گا۔ ساس نے مجھے نندوئی کے ہمراہ نہ بھیجا۔ بالآخر تین ماہ بعد خان گھر آگئے۔ وہ ماں سے سخت خفا تھے۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ مجھے لے کر وہ علیحدہ گھر میں رہیں گے۔ ساتھ ہی

انہوں نے اپنا اور میر اسامان اٹھایا اور ہم دوسرے گھر میں چلے گئے۔ یہ گھر بھی نزدیک ہی تھا۔ چند دن گزرے تو میں نے سوچا ساس سسر کو سلام کر آئوں۔ اس بہانے سے ان کو منالوں گی۔ میں سلام کرنے گئی لیکن انہوں نے مجھ کو بے نقط سنادیں اور بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔ وہ آخری دن تھا، اس کے بعد میں کبھی ان کے دروازے پر نہ گئی۔ شوہر نے منع کر دیا کہ اب دوبارہ ادھر مت جانا۔ اس کے بعد ہماری نئی اور بہت پیاری زندگی شروع ہو گئی۔ گھر میں سکون تھا اور خان کی محبت تھی۔ انہوں نے آہستہ آہستہ نشہ کرنا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالی ہم کو خوشی دکھائی ایک بیٹا دیا۔ زندگی کے وہ دن حست کی طرح تھے۔ لیکن سسرال والوں کو ہماری خوشی منظور نہ تھی۔ ایک روز میری سب سے چھوٹی نند ثناء آئی اور میرے شوہر کو بہلا پھسلا کر لے گئی۔ کہا کہ ماں باپ اداس ہیں۔ان سے ملو اور ان کو رنجیدہ مت کرو۔ وہ چلے گئے اور والدین کو منالیا۔ میری اس نند کا شوہر مغربی جرمنی میں تھا۔ ان لوگوں نے خان کو نجانے کس کس طرح سمجھایا اور سبز باغ دکھائے کہ وہ بھی مغربی جرمنی جائے اور وہاں جا کر دولت کمائے تاکہ ہمارے مالی حالات ٹھیک ہوں۔ آخر وہ مان گئے۔ مغربی جر منی بلانے کے انتظامات کر لینے کے بعد ثناء کے شوہر نے ان کو اپنے پاس بلوالیا۔ جاتے ہوئے خان مجھے میرے والدین کے پاس چھوڑ گئے کہ تم اکیلی ادھر کیسے رہو گی ، میں وہاں سیٹ ہو جائوں تو تم کو بلوالوں گا۔ شروع میں ان کے خطوط آتے رہے۔ بعد میں رفتہ رفتہ خطوط آنا بند ہو گئے اور رابطہ بھی ختم کر دیا۔ دو سال خاموشی میں بیت گئے۔ سسرال جاتی تو وہ مجھے خان کے بارے ایک لفظ نہ بتاتے۔ میں پھر سے میکے آگئی۔ والد صاحب کے ایک واقف کار جرمنی میں رہتے تھے۔ ان کو خط لکھا اور خان کا پتا بھی بھجوادیا۔ انہوں نے پتا کر وایا اور اطلاع دی کہ خان نے وہاں نندوئی کی مدد سے دوسری شادی کر لی ہے اور خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے۔ میرے سسرال والوں کو معلوم تھا مگر انہوں نے اس حقیقت کو مجھ سے چھپارکھا تھا۔ میں نے ان کو بے شمار خط لکھے ، کسی کا جواب نہ دیا۔ میں سوچتی کہ اس شخص کا مجھ سے پیار تو سونے جیسا تھا، پھر سونے کارنگ اتنی جلد کیسے اتر گیا؟ پھر بھی میں نے چار سال اور انتظار کیا کہ مرد دو شادیاں بھی کر لیتے ہیں مگر مجھے طلاق تو نہیں دی ہے۔ ساید کسی دن لوٹ کر آجائیں۔ وہ نہ آئے ، نہ رابطہ کیا۔ بالآخر والد صاحب نے ہمت کی اور ایک بڑے قابل وکیل کے ذریعے عدالتی کارروائی کرادی۔ ہمارے وکیل نے جرمنی کے وکیل سے رابطہ کیا، کیس لڑا۔ پتا چلا کہ خان نے وہاں یہ بتایا ہے کہ اس کی پہلی بیوی مر چکی ہے اس لئے دوسری سادی کی ہے۔ میں ثبوت کے طور پر خود پیش ہو گئی، اپنابیٹا بھی دکھایا۔ وکیل نے جرمن کی حکومت کو اس ظلم سے آگاہ کیا تو اس کی دوسری بیوی نے طلاق حاصل کر لی۔ اس کا وہاں رہنا بھی دشوار ہو گیا اور وہ کسی دوسرے ملک چلا گیا۔ اس دن کے بعد سے ان کا کچھ پتا نہیں مگر میں آج بھی ان کے انتظار میں ہوں۔ حالانکہ اس بات کو نصف صدی گزرنے کو ہے


Post a Comment

0 Comments